میں نے قندھار میں آدھے گھنٹے کے لئے سڑک کے کنارے کھڑی ایک روسی خاتون کے ترجمان کے طور پر فرائض انجام دیئے تھے۔ اس خاتون نے جاتے جاتے اپنی پرس سے ایک چھوٹی سی گڑیا نکال کر مجھے تھمائی۔ اس نے کہا اس کو ببوشکا کہتے ہیں۔ ببوشکا آج بھی میری ٹیبل پر پڑی ہے۔ اس ببوشکا کے ساتھ افریقہ کے جنگلی قبائل سپوندو کے ایک آدمی کا چھوٹا سا بت پڑا ہے۔ لکڑی سے بنا یہ افریقی سپوندو ایک پتھر پر اکڑوں بیٹھا ہے۔ میں جب بھی کمرے میں آتا ہوں تومجھے لگتا ہے کہ سپوندو کن انکھیوں سے ببوشکا کو دیکھ رہا ہے۔ میں ببوشکا اور سپوندو کی اس حسرت زدہ محبت کی داستان لکھنا چاہتا ہوں۔
میں نے مٹھی تھرپارکر میں ایک ٹیلے پر بکری کے چھوٹے سے بچے کے ساتھ لپٹی ایک سوتی لڑکی دیکھی تھی۔ میں وہیں کھڑ ا تھا جب اذان شروع ہوئی۔ لڑکی ہڑبڑا کر اٹھی۔ اس نے جلدی جلدی سر پر دوپٹہ سیدھا کیا۔ اس کی جھیل جیسی نیلی آنکھوں میں بیک وقت حسن اور خوف تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ اس لڑکی کا نام میگھنا تھا۔ میگھنا شاید بادل کو کہتے ہیں مگر تھرپارکر میں بارش کہاں برستی ہے؟ مجھے میگھنا کی نیلی آنکھوں میں حسن اور خوف کے تال میل کی کہانی لکھنی ہے۔
نصیر الدین شاہ کی فلم ہے ’’البرٹ پینٹو کو غصہ کیوں آتا ہے‘‘ جس میں وہ میکینک ہے مگر خواب بنتا رہتا ہے۔ میری گھر سے چار گلیاں پرے ایک میکینک کی دکان ہے۔ اس دکان میں ایک سات، آٹھ سالہ نصیب خان چھوٹو ہے۔ ایک دن گاڑی خراب تھی۔ میں مکینک کی دکان پر گیا۔ نصیب خان نے ڈیش بورڈ سے سامان اٹھاتے ہوئے مجھ سے ڈیش بورڈ میں پڑا ایک پین مانگ لیا۔ میں نے پین دے دیا۔ گاڑی ٹھیک ہوئی تو نصیب خان دروازے کے پاس کھڑا مسکرا رہا تھا۔ میں سمجھا شاید ٹپ کی امید لے کر کھڑا ہے۔ نصیب کے استاد کا منہ پلٹا تو نصیب نے فوراََ مجھے اپنی کلائی دکھائی۔ اس نے پین سے اپنی کلائی پر ایک گھڑی بنائی تھی۔ اس کی گھڑی سوئیاں سوا چھ پر رکی ہوئی تھیں۔ میں نے اس کا دل خوش کرنے کو پوچھا کہ نصیب خان تمہاری گھڑی میں وقت کیا ہے؟ نصیب خان نے جھینپتے ہوئے کہا، ’’بیس بجے‘‘۔ مجھے سوا چھ پررکی سوئیوں اور بیس بجے کے درمیان ساکت ساعتوں کی کہانی لکھنی ہے۔
میرے دفتر میں پیٹر نام کا ایک خاکروب تھا۔پیٹر نے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم نما کمرے میں ایک کریانے کی چھوٹی سی دکان کھول رکھی تھی جس کا ایک دروازہ گلی میں کھلتا تھا۔ چار سال کی رفاقت میں ایک بار پیٹر کی دکان پر گیا۔ اس نے سافٹ ڈرنک کی بوتل نکالی تو میں نے کہا چائے پلا دو۔وہ گھر گیا۔ کافی دیر بعد ایک کپ میں چائے لے آیا۔ کپ کا کنارہ تھوڑا سا ٹوٹا ہوا تھا۔اس نے کانپتے ہاتھوں مجھے کپ پکڑایا اور نحیف آواز میں کہا، ’سر پتہ نہیں آپ ہمارے کپ میں چائے پئیں گے بھی یا نہیں؟ میں نے بیگم کو کہا کہ کپ کو اچھی طرح دھو لے‘۔ میں نے کپ اٹھایا۔ اس میں سے ایک گھونٹ بھرا۔ چائے میں ایک مانوس سی خوشبو تھی جو چائے کو بدذائقہ سی بنا رہی تھی۔پیٹر کا دل نہ ٹوٹے اس لئے میں نے مجبوراََ دوسرا گھونٹ بھرا۔پیٹر بولا، ’سر بیگم نے کپ اچھی طرح دھویا ہے۔اسے بھی ڈر تھا کہ پتہ نہیں آپ ہمارے کپ میں چائے پئیں گے یا نہیں۔ اس نے کپ دھونے کے لئے بالکل نیا لکس صابن کاغذ سے کھول کر اس سے کپ دھویا‘۔ مجھے اس ٹوٹے کپ میں نفرتوں کو پاٹتی اس خوشبودار چائے کی کہانی لکھنی ہے۔
میں بہت چھوٹا تھا۔ ماں جی گائیوں کے اصطبل میں گائیوں کا دودھ دھونے چلی گئی تھیں۔دسمبر کی سرد ہواؤں میں مجھے اکیلے کمرے میں ڈر لگ رہا تھا۔میں ماں جی کے پیچھے اصطبل چلا گیا۔ سردی کی وجہ سے میری ناک بہہ رہی تھی۔ ماں جی نے اپنے پلو سے میری ناک صاف کی۔ مجھے گوبر کی بدبو سے ابکائی سی آئی۔بہت مدت بعد ایک رات اسلام آباد کے پیرودہائی اڈے کے پاس مجھے دو چوروں نے لوٹا۔ انہوں نے مجھے ایک ڈنڈا بھی مارا۔ میں اپنے کمرے میں پہنچا تو مجھے محسوس ہوا جیسے میری کمر کچھ گیلی ہے۔ مجھے خوف محسوس ہوا کہ شاید خون ہو۔ ہاتھ لگا کر دیکھا تو کمر سے گوبر چپکا ہوا تھا۔ گوبر کی بدبو اس وقت مجھے خوشبو محسوس ہوئی۔گوبر کی بدبو کیسے خوشبو میں بدلتی ہے، مجھے یہ داستان لکھنی ہے۔
طالب علمی کے زمانے میں ڈائری لکھنا معمول تھا۔ ایک ڈائری میں محبتوں کی بہت ساری کہانیاں لکھی تھیں۔ جانے کیوں ایک رات برستی بوندوں میں فلیٹ کے ٹیرس میں بیٹھے بیٹھے وہ سارے کاغذ پھاڑ ڈالے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نیچے پانی میں پھینک دیئے۔ وہ سارے کاغذ پانی میں بہتے چلے گئے۔ میں ان بہتے ٹکڑوں پر لکھی کہانیوں کو پھر سے لکھنا چاہتا ہوں۔
میں کیا بتاؤں کہ میں یہ کہانیاں کیوں لکھنا چاہتا ہوں؟ بہت پہلے کی بات ہے، رسول حمزہ توف کی کتاب’میرا داغستان‘ پڑھی تھی۔ رسول حمزہ توف نے لکھا تھا، ’میرے راستے ہمیشہ ہموار نہیں رہے۔ میرے روز و سال آسانی سے نہیں گزرے۔دنیا کے قلب میں بڑے بڑے واقعات کی گردش دیکھنا پڑی۔ ہر سانحہ میرے دل کو ہلا دیتا۔ غم ناک اور خوش کن واقعات سے فنکار کو کترا کر گزرنا نہیں چاہیے۔میں ماضی کے سارے مشاہدات اور مستقبل کے سارے خیالات جمع کر کے تیرے پاس آتا ہوں اور تیرے دروازے پر دستک دے کر کہتا ہوں، میرے اچھے دوست، یہ میں ہوں۔ مجھے اندر آنے دو۔ میں محبت کی کچھ داستانیں لایا ہوں‘۔