سوال :برائی کو ہاتھ سے یا طاقت سے روکو، اگر نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو، اگر یہ بھی نہیں کر سکتے تو دل میں برا جانو اور یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے۔ کیا ایسی کوئی حدیث ہے؟
جواب ۔آپ نے یہ سوال میرے آرٹیکل ایک مظلوم آیت کے پس منظر میں کیا ہے جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ امر بالمعروف ونھی عن المنکر کے حکم کا مطلب یہ ہے کہ نیکی کی تلقین کی جائے اور برائی سے منع کیا جائے یہ وہی بات ہے جو قرآن مجید میں دوسری جگہ تواصوا بالحق وتواصوا بالصبر کے الفاظ میں بیان ہوئی ہے۔ اس کا مطلب نصیحت ہے نہ کہ زبردستی کرنا۔آپ کی بات کا مختصر جواب یہ ہے کہ یہ روایت ہے تو بالکل صحیح لیکن اس کادائرہ کسی فرد کا اختیار یا اقتدار کا دائرہ ہے جہاں اسے اپنی بات منوانے کی اتھارٹی پہلے ہی حاصل ہو۔ جو شخص یہ اتھارٹی ہوتے ہوئے یہ رویہ اختیار کرے، یہ وعید اس کے بارے میں ہے نہ کہ ہر شخص اور ہر جگہ کے لیے ہے۔
اس پر میں نے متعدد مضامین پر تفصیل سے توجہ دلائی ہے اور تمام دلائل بیان کر دیے ہیں۔ ان میں سے بعض مضامین میری نئی آنے والی کتاب سلسلہ روز و شب میں شامل ہیں جن کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ یہاں میں ایک اور پہلو سے آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔
ہم جانتے ہیں کہ حضور مکہ میں ساری زندگی رہے، مگر آپ نے خانہ کعبہ میں نصب بت اس وقت گرائے جب آپ مکہ میں بحیثیت حکمران تشریف لائے۔ سوال یہ ہے کہ اس روایت کا وہی مطلب ہے جو بیان کیا جاتا ہے تو پھر حضور نے مکی زندگی میں بت پرستی کی روایت کو ہاتھ سے کیوں نہ روکا۔ جو لوگ اس روایت کو مطلقاً لیتے ہیں کیا وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حضور کا عمل معاذاللہ آپ کے قول کے خلاف تھا یا معاذاللہ ثم معاذ اللہ آپ ایمان کے دوسرے درجہ پر تھے؟ہم تو اس چیز کو تصور بھی نہیں کرسکتے۔ اس لیے وہی بات درست ہے جو اس طالب علم نے لکھی ہے کہ یہ حکم انسان کے دائرہ اختیار سے متعلق ہے نہ کہ ہر شخص کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کہیں بھی پائی جانے والی کسی برائی کو دیکھ کر ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے ورنہ وہ ایمان کے دوسرے اور تیسرے درجے پر آجائے گا۔
دین اسلام ایسی غیر فطری تعلیمات نہیں دیتا۔ ایک باپ کے لیے اس کا گھر اور حکمران کے لیے ریاست وہ جگہ ہے جہاں اسے یہ کام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ زبردستی کرنے سے فساد وجود میں آئے گا جو کسی طور پر دین کو مطلوب نہیں۔
دین و دانش
حضور نے مکی دور میں بت کیوں نہیں گرائے
ابو یحیی