وہ ملک جہاں چوہے پسندیدہ غذا ہی نہیں بلکہ دلہن کو جہیز میں بھی دیے جاتے ہیں۔
آپ سونے سے پہلے عام طور پر یہ بات یقینی بناتے ہیں کہ کوئی کھانے کی چیز یا اس کا ٹکڑا فرش یا میز پر کہیں رہ نہ جائے، نہیں تو دوسری صورت میں یہ چوہوں جیسے کچھ ناپسندیدہ مہمانوں کو مدعو کر سکتے ہیں۔کچھ لوگوں کے لیے چوہے کی صرف ایک جھلک ہی گھن ہے۔مثال کے طور پر نیویارک نے حال ہی میں شہر میں ‘چوہوں کے بحران’ کو حل کرنے کے لیے نئی کوششیں کی ہیں لیکن ایسے مہمان ہر جگہ حقیر نہیں ہوتے۔ درحقیقت دنیا بھر میں کچھ جگہوں پر چوہوں کو ایک لذیذ اور مرغوب غذا سمجھا جاتا ہے۔
ہر سال سات مارچ کو، شمال مشرقی انڈیا کی پہاڑیوں کے ایک دور دراز گاؤں میں آدی قبیلہ ایک تہوار ‘یوننگ آران’ مناتا ہے۔یہ ایک غیر معمولی تہوار ہے جس میں چوہے ان کے کھانے کے بہترین پکوان میں شامل ہوتے ہیں۔ آدی کے پسندیدہ پکوانوں میں سے ایک بولے بلاک اوئنگ نامی سٹو ہے جس میں چوہے کے معدے، آنت، جگر، خصیے، دم اور ٹانگوں کو نمک، مرچ اور ادرک کے ساتھ ابال کر تیار کیا جاتا ہے۔اس کمیونٹی میں ہر قسم کے چوہوں کا خیرمقدم ہے خواہ وہ گھر کے ارد گرد نظر آنے والے گھریلو چوہے ہوں یا پھر جنگل میں رہنے والی ان کی جنگلی نسل ہو۔فن لینڈ کی اولو یونیورسٹی کے وکٹر بینو میئر روچو کہتے ہیں کہ چوہے کی دم اور پاؤں خاص طور پر ذائقے کے معاملے میں قابل تعریف ہیں۔
انھوں نے آدی قبیلے کے بہت سے لوگوں سے اپنی ایک حالیہ تحقیق کے دوران بات کی ہے۔ ان کی تحقیق کھانے کے وسائل کے طور پر چوہے کے استعمال پر مبنی ہے۔
چوہے کا گوشت بہترین گوشت
تحقیق کے دوران انھیں اس پریشان کرنے والے جاندار کے متعلق ایک مختلف ہی نظریہ نظر آیا۔ جواب دہندگان نے بتایا کہ چوہے کا گوشت ‘سب سے مزیدار اور بہترین گوشت ہے’ جس کا وہ تصور کر سکتے ہیں۔‘مجھے بتایا گیا کہ ‘اگر چوہے نہیں تو کوئی پارٹی نہیں’ کوئی خوشی کی بات نہیں، کسی اہم مہمان، ملاقاتی یا رشتہ دار کا احترام کرنا ہو، کوئی خاص موقع ہو؛ یہ تبھی ہو سکتا ہے جب چوہے مینو میں ہوں۔’انھیں چوہے اتنے پیارے ہیں کہ وہ صرف ان کے مینو کا ہی حصہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چوہے تحفے میں دیے جاتے ہیں، جو مردہ ہوتے ہیں۔یہ جہیز کی بھی ایک اہم چیز ہوتی ہے۔ جب دلہن کے رشتہ دار اپنی بیٹی کو اپنے پرانے خاندان کو چھوڑ کر اپنے شوہر کے ساتھ خوشی خوشی رخصت کرتے ہیں تو تحفے میں چوہے شامل ہوتے ہیں۔امن رو نامی یوننگ آران تہوار کی پہلی صبح بچوں کو دو مرے ہوئے چوہے تحفے کے طور پر دیے جاتے ہیں، بالکل ان کھلونوں کی طرح جو آپ کو کرسمس کی صبح بچپن میں ملے تھے۔’
اس بارے میں بہت کم معلومات ہیں کہ آدی لوگوں کی چوہوں کے بارے میں رغبت کب اور کیسے بنی لیکن میئر روچو کا کہنا ہے کہ یہ ایک طویل عرصے سے جاری روایت ہے اور یہ تفریح کے دوسرے ذرائع کی کمی کی وجہ سے وجود میں آنے والی چیز نہیں۔‘بہت سے جانور جیسے ہرن، بکری اور بھینس اب بھی گاؤں کے آس پاس کے جنگلوں میں گھومتے رہتے ہیں لیکن آدی قبائل کے لوگ صرف چوہے کے ذائقے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چوہے کا کوئی مقابلہ ہی نہیں۔’یہاں تک کہ میئر روچو نے سبزی خور ہونے کے باوجود اس مشہور گوشت کو چکھا اور انھوں نے یہ پایا کہ بو کے علاوہ یہ دوسرے گوشت سے ملتا جلتا ہی تھا۔وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ حیوانیات کے طالب علموں کے پہلے لیب کورسز کی یادیں تازہ کرتا ہے جس میں وہ چوہوں کو کاٹتے اور اس کی اناٹومی کا مطالعہ کرتے ہیں۔’یہ صرف انڈیا کے اس چھوٹے سے کونے تک محدود نہیں کہ چوہا مینو پر ہو۔ برطانوی ٹی وی میزبان سٹیفن گیٹس نے دنیا بھر کا سفر کیا اور ان لوگوں سے ملاقات کی، جن کے کھانے کے بہت ہی غیر معمولی ذرائع ہیں۔کیمرون میں یاؤنڈے شہر کے باہر انھوں نے چوہوں کا ایک چھوٹا سا فارم دیکھا، جسے وہ ‘چھوٹے کتے، غصے والے شیطانی چھوٹے ساتھیوں’ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔گیٹس کا کہنا ہے کہ یہ چوہے خاص ہیں کیونکہ یہ چکن یا سبزیوں سے زیادہ مہنگے ہیں۔چوہے کو نمک اور مسالوں میں تلا گیا ہے ان کے گوشت نرم اور ذائقے دار ہیں اور جب ان سے اس کے ذائقے کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ‘یہ میری زندگی میں اب تک کا سب سے لذیذ گوشت تھا۔’گیٹس یاد کرتے ہیں کہ گوشت کو ٹماٹروں کے ساتھ پکایا گیا تھا اور انھوں نے اسے ‘خنزیر کے گوشت کی طرح کا لیکن بہت نرم، آہستہ آہستہ پکایا ہوا سور کے کندھے کے گوشت کی طرح’ کے طور پر بیان کیا۔وہ کہتے ہیں کہ ‘غیر معمولی طور پر نرم، نرم اور مزیدار، سٹو بہت رسیلا، جو چربی کی ایک خوبصورت تہہ کے ساتھ تھا جو خوبصورتی سے پگھلا ہوا تھا۔’
انڈیا کی شمالی ریاست بہار میں گیٹس نے کچھ وقت دلتوں (پسماندہ ہندو ذات) کے ساتھ گزارا۔وہ جن لوگوں سے ملے، وہ لوگ دوسری ذات کے امیر زمینداروں کی فصلوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اور اس کے بدلے میں انھیں چوہوں کو کھانے کی اجازت ہوتی ہے جو کھیت میں تباہی مچاتے ہیں۔گیٹس کے مطابق یہ چھوٹے چوہے کھانے میں بہت نرم تھے اور ان کا ذائقہ کسی چھوٹی مرغی یا بٹیر جیسا تھا۔ صرف ایک ناخوشگوار پہلو جلتے ہوئے بالوں کی بو تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ چھوٹے جانور کی جلد یا گوشت کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے اس کے بالوں کو جلا کر اسے پوری طرح بھون لیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ایک ‘خوفناک بو’ پیدا ہوتی ہے اور ‘جلد کے باہر ایک تلخ احساس’ لیکن اندر سے سب اچھا تھا۔انھوں نے کہا کہ ‘چوہے کے اندر کا گوشت اور جلد بالکل مزیدار تھی۔’
دنیا بھر کے لذیذ چوہے
چوہوں کے متعلق ہمارا ذائقہ صدیوں پرانا ہے۔ یونیورسٹی آف نیبراسکا لنکن کے ایک علمی جائزے کے مطابق چین میں تانگ سلطنت (618-907) کے دوران چوہوں کو کھایا جاتا تھا اور انھیں ‘گھریلو ہرن’ کہا جاتا تھا۔مصنفین کا کہنا ہے کہ تانگ سلطنت کے دور میں کھائی جانے والی ایک خاص چیز شہد سے بھرے ہوئے نوزائیدہ چوہے تھے۔تقریباً 200 سال پہلے تک عام گھریلو چوہے کی ایک قریبی قسم کیورے کو نیوزی لینڈ کے بہت سے لوگ کھاتے تھے۔نیوزی لینڈ کے انسائیکلوپیڈیا کے مطابق کیورے کو زائرین کے لیے پیش کی جانے والی ایک مرغوب غذا سمجھا جاتا تھا اور یہاں تک کہ اسے کرنسی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا، جس کا تبادلہ شادیوں جیسی تقریبات میں کیا جاتا تھا۔فلپائن کے انٹرنیشنل رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے گرانٹ سنگلٹن کا کہنا ہے کہ کمبوڈیا، لاؤس، میانمار، فلپائن کے کچھ حصوں اور انڈونیشیا، تھائی لینڈ، گھانا، چین اور ویتنام میں چوہوں کو باقاعدگی سے کھایا جاتا ہے۔
چوہے کی اقسام اور ان کے ذائقے
سنگلٹن کا کہنا ہے کہ وہ ویتنام کے میکونگ ڈیلٹا میں کم از کم چھ بار چوہے کا گوشت کھا چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جہاں تک ذائقہ
کا تعلق ہے تو ‘چاول کے کھیت کے چوہے کے معاملے میں میں اسے خرگوش کے ذائقے کے قریب مانتا ہوں۔’سنگلٹن نے لاؤس کے بالائی علاقوں اور میانمار کے نچلے ڈیلٹا میں بھی چوہے کھانے کے اپنے تجربے کو یاد کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ لاؤس کے شمالی اوپری صوبوں کے کسان اپنے ذائقے کی بنیاد پر چوہے کی کم از کم پانچ اقسام کی شناخت کر سکتے ہیں۔افریقہ میں کچھ برادریوں میں چوہوں کو کھانے کی ایک قدیم اور روایت ہے۔ مثال کے طور پر نائیجیریا میں افریقی دیوہیکل چوہے تمام نسلی گروہوں میں پسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔نائجیریا کی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی افاکی اکیتی سے تعلق رکھنے والے موجیسولا اویاریکوا کا کہنا ہے کہ ‘اسے ایک خاص لذیذ غذا سمجھا جاتا ہے اور یہ گائے کے گوشت یا مچھلی سے زیادہ مہنگا ہے۔ یہ مزیدار ہے اور اسے بھن کر، خشک یا ابال کر کھایا جا سکتا ہے۔’تو لوگ چوہے کیوں کھاتے ہیں؟ کیا یہ ان کی اشد ضرورت ہے؟ مختلف ممالک میں چوہوں کو چکھنے کے بعد گیٹس کا کہنا ہے کہ لوگ خوراک کی قلت سے مجبور ہونے کے بجائے اپنی پسند سے ایسا کرتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ فی الحال چوہے آپ کے پسندیدہ نزدیکی ریستوران کے مینو میں نہ ہوں لیکن جیسا کہ ہم کھانے کے معاملے میں عالمی طور پر زیادہ مہم جو ہوتے جا رہے ہیں تو ایسے میں یہ سوچنا غیر معقول نہیں لگتا کہ چوہے ایک دن مغربی مینوز پر زیادہ کثرت سے نظر آسکتے ہیں۔بس اسے آزمائیں آپ کو یہ پسند آ سکتا ہے کیونکہ ان سب باتوں کے باوجود یہ کیویز کے لیے سب سے مزیدار گوشت ہے، جو انھوں نے ابھی تک چکھا ہے۔ (بشکریہ ’ بی بی سی ۱۲ دسمبر ۲۰۲۲)
سماجیات
چوہے کا پکوان اور جہیز
بی بی سی