کمرے کے وسط میں رکھی میز پر ایک مشین رکھی ہوئی تھی اور اس کے ساتھ ایک گورا کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کل ہی دبئی کے راستے لاہور پہنچا تھا۔ وہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی کا ٹیکنیکل منیجر تھا اور آج اپنی کمپنی کے لئے اسے کچھ نئے انجنئیزز کا ٹیسٹ لینا تھا۔ کمرے کی ایک دیوار کے ساتھ لمبی سی میز پر کئی اقسام کے ٹول پڑے ہوئے تھے جو مشینوں کو کھولنے یا اسمبل کرنے میں استعمال ہوتے تھے ۔ کمرے میں داخل ہونے والے ہر انجنئیر سے گورے کا ایک ہی سوال ہوتا کہ مجھے یہ مشین کھول کر دکھاؤ۔
ڈیل یہ تھی کہ جس انجُئیر نے اس مشین کو کھول لیا گورا اسے کمپنی کے لوکل آفس میں بہت اچھے پیکیج پر بھرتی کر لے گا اور اگر کسی نے مشین کو کھول کر اسے دوبارہ اسمبل بھی کر لیا تو اسے سیدھا انٹرنیشنل سٹاف کا حصہ بنا لے گا۔
یہ 1998 کا سال تھا اور انجنئیرز کا سخت بے روزگاری کا دور چل رہا تھا۔ حکومت ڈاؤن سائزنگ اور گولڈن شیک ہینڈ کے ذریعے ملازموں سے جان چھڑوا رہی تھی یونیورسٹی سے تازہ تازہ فارغ ہونے والے انجنئیر کو کسی جگہ عام سی جاب کے لئے بھی بہت تگ ودو کرنا پڑ رہی تھی اور یہاں تو معاملہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کا تھا۔جو بھی انجنئیر کمرے میں داخل ہوتا وہ جاکر کوئی نہ کوئی پیچ کس نما ٹول اٹھاتا اور ملٹی نیشنل کمپنی میں اپنا انتخاب یقینی بنانے کے لئے مشین کے ساتھ کشتی لڑنے میں مصروف ہوجاتا لیکن کسی کی دال نہ گلتی۔ مشین نے نہ کھلنا تھا نہ کھل سکی۔ ایک دو ہٹے کٹے نوجوانوں نے تو زور زبردستی لگا کر مشین کا ایک آدھا پیچ وغیرہ کھول بھی لیا جس کی وجہ سے مشین کے پیچوں کی جھریاں بھی خراب ہو گئیں لیکن پھر تنگ آکر انہوں نے بھی ہاتھ کھڑے کردئے۔
احسن بھی امیدواروں کی قطار میں بیٹھا کافی دیر سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا۔ اس نے چند ماہ پہلے ہی یوای ٹی سے مکینیکل انجنئیرنگ کی تھی لیکن باوجود کوشش کے ابھی تک اسے کوئی کام نہیں مل سکا تھا۔وہ ساری رات اس انٹرویو کی تیاری کرتا رہا تھااور اب اس عجیب و غریب مشین کے بارے میں سوچ رہا تھا جس کے بارے میں کورس کی کتابیں خاموش تھیں۔اپنی باری پر احسن کمرے کے اندر گیا تو گورے نے اسے بھی مشین کھولنے اور اسے دوبارہ اسمبل کرنے کا ٹاسک دیا اور خود آرام سے ایک طرف منہ کرکے کتاب پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ تاہم کبھی کبھار وہ عینک کے شیشے کے پیچھے سے اس کی طرف بھی دیکھ لیتا۔
احسن نے سب سے پہلے تو مشین کے چاروں طرف گھوم پھر کر اس کا جائزہ لیا۔ اس کے پیچ اور سیلیں وغیرہ دیکھتا رہا اور پھر ٹولز والی میز کے قریب جاکر مشین کے پیچوں کی مطابقت رکھنے والا ٹول ڈھونڈنے لگا تاکہ اسے استعمال کرکے مشین کھولی جا سکے۔ تاہم باوجود تلاش کے اس طرح کے منہ والا ٹول اسے میز پر نظر نہ آیا۔ وہ سوچنے لگا کہ اس ٹول کے بغیر اور کون سے ٹول سے مشین کھولی جا سکتی ہے لیکن اسے کوئی ملتا جلتا ٹول بھی وہاں نہیں دکھ رہا تھا۔ اوپر سے ٹائم بھی ختم ہورہا تھا۔اس نے آکر مشین کو دوبارہ چیک کیا اور پھر ٹولز کو دوبارہ دیکھا لیکن اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔جب اسے میز کے پاس کھڑے کافی دیر ہوگئی تو گورے نے گلہ کنگھار کر اسے کہا کہ مسٹر احسن میرے پاس زیادہ وقت نہیں آپ جلدی سے مشین کو کھولنا شروع کریں۔ تب احسن نے اسے سچ بتانے کا فیصلہ کیا اور کہا کہ سر مشین کو صحیح طریقے سے کھولنے والا متعلقہ ٹول میز پر موجود ہی نہیں اور دوسرے ٹولز کے استعمال سے مشین کے پیچ خراب ہو جانے کا خدشہ ہے۔
گورے نے کتاب بند کی، عینک اتاری اور کرسی سے کھڑا ہوتے ہو ئے کہا کانگریجولیشنز۔ یو آر ہائیرڈوہ دوست اب اس ملٹی نیشنل کمپنی میں بہت اعلی عہدے پر ہیں اور ماشاء اللّہ بہت خوش حال ہیں۔
آج کل ڈیجیٹل سکلز سیکھنے، سکھانے اور اس سے لمحوں میں دولت مند ہونے کا بہت رجحان ہے۔ یقینی بنائیے کہ آپ اپنا وقت اور پیسہ ایسے ٹول سیکھنے پر لگا رہے ہیں کہ جس سے آپ اپنے بہترمستقبل کی مشین کو آسانی سے کھول سکیں۔ بھیڑ چال میں الٹے سیدھے ٹولز کے استعمال سے سے اپنی ترقی کی مشین کو داغدار نہ کریں۔
اصلاح و ودعوت
رائٹ ٹولز
ظفر وٹو