ماڈل ایان علی کی کہانی ۔چند سال پیچھے جاتے ہیں۔
ایان علی نامی ایک خوبصورت لڑکی ماڈلنگ کرتی تھی، مختلف ٹی وی کمرشل وغیرہ میں کام کرتی تھی اور ساتھ ڈراموں اور فلموں کو بھی سائن کرتی تھی. ایان علی ایک خوب صورت ماڈل تھی، پُر کشش جسم، خوب صورت آنکھیں اور طرح دار فیشن ایبل ادائیں، ۵ فٹ ۹ انچ دراز قد، بے پناہ خود اعتمادی، جو ہر کامیاب ماڈل کا خاصہ اور ان کے کیریئر کے لیے ضروری ہوتی ہے.
کراچی کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں ایک بین الاقوامی ڈریس ڈیزائنر کی تقریب ہوتی ہے جس میں ایان علی بھی شامل ہوتی ہے، مختلف ملبوسات کی نمائش ہوئی تو ایان علی کے ریمپ واک نے چار چاند لگادیے، پاکستانی مرد تو ہیں ہی بھوکے اور ٹھرکی، لیکن تقریب میں موجود اپر اور ایلیٹ کلاس کی عورتیں بھی ایان علی کو دیکھ کر دانتوں میں انگلیاں دابے بیٹھی ہوئی تھیں، رشک اور حسد کے ملے جلے جذبات ان کی نظروں سے عیاں تھے.
تقریب کے بعد ایان علی کی ملاقات شرمیلا فاروقی سے ہوتی ہے، شرمیلا فاروقی سابقہ ٹی وی ڈرامہ ایکٹریس اور موجودہ پیپلز پارٹی کی خاص وزیر ہے اور تمام غیر نصابی سرگرمیوں کی انچارج بھی ہے، شرمیلا فاروقی نے چند دن بعد ایان علی کو رنگین مزاج آغا سراج درانی سے ملوایا.
مختصر یہ کہ آغا سراج درانی بحریہ ٹاؤن کراچی میں ایک دوسری اور خاص تقریب میں ایان علی کو آصف زرداری سے ملواتا ہے، آصف زرداری اس وقت صدر تھا، باتوں باتوں میں ایان علی زرداری کو کہتی ہے کہ وہ مختلف کمرشل کی شوٹنگ کے لیے دبئی بھی جاتی ہے، آصف زرداری نے اسے کہا کہ دبئی میں پام جمیرا میں اس کا ولا خالی ہی رہتا ہے، اگر وہ چاہے تو اپنی ٹیم اور خصوصی مہمانوں کے ساتھ وہاں رہائش رکھ سکتی ہے. ایان علی کو اور کیا چاہیے تھا.
اس دن کے بعد ایان علی کی زندگی نے ایک نیا موڑ لے لیا، آصف زرداری کی نظر کرم پڑتے ہی ایان علی کو بحریہ ٹاؤن کی تمام کمرشلز میں شامل کیا گیا، اس کے ساتھ کروڑوں روپے کے ایگریمنٹ کیے گئے، ملک کی بڑی بڑی ماڈلنگ ایجنسیوں نے اسے ہائر کیا، صف اول کے ڈریس ڈیزائنرز نے اس کے ساتھ معاہدے کیے اور یوں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی سپر ماڈل کہلانے لگی. ایان علی کی رسائی بلاول ہاؤس لاڑکانہ اور کراچی و سندھ ہاؤس کے خاص کمروں تک ہوگئی. وہ سندھ حکومت کے خصوصی وی آئی پی طیارے میں پروٹوکول کے ساتھ سفر کرتی اور اس کے لیے خصوصی حفاظتی اقدامات کیے جاتے.
اس دوران وہ مہینے میں آٹھ سے نو مرتبہ دبئی جاتی رہی، ایئرپورٹ پر اس کی آمدورفت کے لیے خصوصی ہدایات جاری کی جاتیں اور خصوصی پروٹوکول دیا جاتا.
ایان علی کے لیے دبئی کے برج دوبئی جیسے سیون سٹار ہوٹلوں میں پورے پورے سوئٹ بک کیے جاتے رہے، حتی کہ بُرج الخلیفہ جیسی دنیا کی سب سے اونچی اور مہنگی عمارت میں اسے ذاتی فلیٹ بھی تحفہ میں مل گیا. امارات ایئرلائن کا بزنس کلاس اس کے لیے پہلے سے ہی بک ہوتا، بس ایان علی اپنا پرس اور سوٹ کیس اٹھاتی، جہاز پہ چڑھتی اور دن دبئی گزار کر واپس لینڈ کرتی. اس دوران آصف زرداری نجی دورے پر کئی مرتبہ دبئی گیا.
ایان علی کی دولت میں دن دُگنا رات چگنا اضافہ ہوتا رہا، ساتھ وہ بلاول ہاؤس کی مستقل مہمان بنتی رہی. پھر بلاول زرداری بھی ایان علی کی زلفوں کا اسیر ہوگیا اور جب ایان علی زرداری کے بیڈ روم سے نکلتی تو بلاول زرداری کے کمرے میں (اس کا جھاکا کھلوانے کے لیے) گھس جاتی. یہ بہتان یا الزام میں نے نہیں، آصف زرداری کے بچپن کے دوست، اس کے تمام جرائم میں شریک ساتھی اور اس کے بھائیوں جیسا رشتہ رکھنے والے ذوالفقار مرزا نے قرآن مجید سر پر رکھ کر لگایا تھا کہ ایان علی کو آصف زرداری اور بلاول زرداری دونوں استعمال کرتے رہے اور اب بھی کر رہے ہیں!
بہر حال ایان علی کی آنیاں جانیاں لگی رہیں، اس کی پراپرٹی اور بینک بیلنس میں اضافہ ہوتا رہا، اسے ڈائمنڈ کے نیکلس اور انگوٹھیاں تحفوں میں ملتے رہے کہ اچانک ایک دن ایان علی کی زندگی میں طوفان آ گیا...
ایان علی دبئی جانے کے لیے اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچی، جس کا نام اس وقت بے نظیر ایئرپورٹ رکھا گیا تھا، وہ وی آئی پی لاؤنج تک آئی اور اپنا سامان کاؤنٹر پر رکھا تو کسٹم حکام نے اس کا بیگ چیک کرنا چاہا، ایان علی نے لاپروائی سے بیگ کھولا اور اعجاز چوہدری نامی کسٹم انسپکٹر نے بیگ میں پڑے دو کپڑے ہٹائے تو نیچے ڈالروں کی گڈیاں پڑی ہوئی تھیں. انسپکٹر نے ایان علی سے استفسار کیا تو اس نے لاپروائی سے کہا کہ یہ میرے ہیں. اس نے کہا میڈم مجھے یہ رقم زیادہ لگ رہی ہے، کم و بیش پانچ ہزار ڈالرز سے زیادہ کیش لے جانا غیر قانونی ہے. پھر اس نے گڈیاں گنیں تو وہ ۵ لاکھ ڈالرز تھے، کسٹم انسپکٹر نے اپنے سینئر کو مطلع کیا اور ایان علی کو صوفے پر بٹھادیا. ایان علی کو کوئی پریشانی نہیں تھی، اس کے لیے یہ روز کا معمول تھا لیکن اعجاز چوہدری کے لیے یہ غیر معمولی بات تھی. وہ جانتا تھا کہ ایان علی ہفتے میں دو مرتبہ دبئی جاتی ہے اور اس کے سامان کی کوئی خاص چیکنگ نہیں ہوتی اور کسٹم کا عملہ ہی اسے ہینگر تک لے کے جاتا ہے، سینئر حکام آ گئے اور انہوں نے اعجاز چوہدری کو ایک طرف لے جا کر کچھ سمجھانے کی کوشش کی. اعجاز چوہدری اکڑ گیا اور اپنی قانونی پوزیشن بتانے لگا، نیز اس نے اس دوران سی اے اے اور نارکوٹیکس کے افسران کو بھی مطلع کیا، دوسری طرف ایان علی بے زاری سے صوفے پر بیٹھ کر مالکوں سے مسلسل فون پر بات کرتی رہی. اسی دوران کسٹم ہی کے کسی فرد نے میڈیا کو خبر دی اور چند گھنٹوں میں پورے میڈیا میں خبر پھیل گئی کہ مشہور ماڈل ایان علی پانچ لاکھ ڈالر سمگل کرتے ہوئے پکڑی گئی اور پکڑنے والا کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری ہے.
بات چونکہ اب پھیل گئی تھی لہذا کسٹم حکام کو بھی مجبور ہو کر سٹینڈ لینا پڑا. انہوں نے ایان علی کہ سفری دستاویزات اور ڈیٹا کی انکوائری کی تو صرف ایک سال میں ایان علی ۳۴ مرتبہ دبئی کا سفر کرچکی تھی، ایان علی نے دوران تفتیش اقرار کیا کہ وہ اپنے ذاتی اخراجات اور شاپنگ کے لیے ڈالر ہی لے کر جاتی تھی، اس بار ۳۴ ویں مرتبہ پکڑی گئی تھی. جب اس سے پوچھا گیا کہ اتنے ڈالر اس کے پاس کہاں سے آئے اور وہ ڈالر ہی کیوں لے کے جاتی ہے؟ تو اس کے پاس صرف ایک ہی جواب تھا، یہ میری اپنی کمائی ہے!
ایان علی کی گرفتاری کے فورا بعد پیپلز پارٹی کی لیگل ٹیم نے اس کا کیس لیا، سردار لطیف کھوسہ اس کا وکیل بنا، ملک کے چوٹی کے وکیلوں نے بیٹھک کی اور مختلف قانونی نقاط اور پوائنٹس اکٹھے کیے. انہی وکیلوں میں آج تحریک انصاف کے لیے ہیرو کا درجہ رکھنے والے اعتزاز احسن بھی شامل تھے، انہوں نے ایان علی کے کیس کی پوری پیروی کی، ہر ہر قدم پر وہ لطیف کھوسہ کو گائیڈ کرتے رہے، حالانکہ یہ سو فی صد شفاف اور اوپن اینڈ شٹ کیس تھا.
شریف خاندان کے میڈیا سیل اور زرداری مخالف صحافیوں اور تحریک انصاف کے کارکنوں اور سوشل میڈیا نے ایان علی کا نام زرداری سے جوڑا. گرما گرم ٹاک شوز ہونے لگے، پی پی کے لیڈروں سے سوال جواب ہونے لگے تو وہ ٹاک شوز میں بالکل باولے ہوجاتے.
مرغے لڑانے والے اینکروں کی بھی چاندی ہوگئی. شرمیلا فاروقی سے لے کر شہلا رضا تک اور مصطفی کھوکھر سے لے کر سعید غنی تک نے مریم صفدر اور کلثوم نواز کے کپڑے اتار دیے. دوسری طرف تحریک انصاف کے کارکن سوشل میڈیا پر چھائے رہے، انہوں نے بھٹو تک کو قبر سے نکال دیا. آج بھی پیپلز پارٹی کے وزیروں مشیروں سے ایان علی کا پوچھا جائے تو انہیں مرگی کے دورے پڑ جاتے ہیں، ان کے منہ سے رال نکلتی ہے، وہ پاگل کتوں کی طرح کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں، اور زرداری کو ولی اللہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں!
بہر حال ایان علی کی گرفتاری سے اس ریاست اور اس کے اداروں کا اصل امتحان شروع ہوا.
وہ جیل گئی، پھر جب پیشیوں پر آتی تھی تو پورے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ بیش قیمت برانڈ کے ڈریس اور تازہ میک اپ کر کے عدالت آتی تھی، اسے جیل کے فائیو سٹار بیرک میں رکھا گیا، کمرے میں دنیا کی ہر سہولت موجود تھی، وہ امپورٹڈ منرل واٹر پیتی اور ناشتے میں امریکن و چائنیز فوڈ کھاتی تھی، اسے ورزش کی مشینیں مہیا کی گئیں، اس کا فون اور لیپ ٹاپ کسٹم حکام کے پاس تھا، لہذا اسے ایک اور فون دیا گیا. اس کی خدمت کے لیے جیل کا پورا عملہ وقف تھا.
ایان کے سارے کیس اور قید میں سب سے زیادہ چاندی وکیلوں کی ہوئی، انہوں نے جم کے دیہاڑیاں لگائیں۔ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ فائدہ جیل حکام اور پولیس والوں کو ہوا۔ تیسرے نمبر پر میڈیا تھا جس نے زرداری اور ملک ریاض دونوں سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ساتھ شریفوں سے بھی زرداری کی مخالفت میں فائدہ اٹھاتے رہے.
ایان علی ملکی تاریخ کی پہلی قیدی تھی جسے جیل میں فائیو سٹار ہوٹل کی سہولیات دی گئیں، ایسی سہولیات ذوالفقار علی بھٹو جیسے شخص اور نصرت بھٹو و بے نظیر بھٹو سمیت آصف زرداری اور نواز شریف تک کو نہیں دی گئی تھیں، حتی کہ جتنی بھی بڑی بڑی سیاسی شخصیات جیل گئی ہیں، انہیں یہ سہولیات نہیں ملیں۔ مریم نواز سمیت جس کے پاس آدھے پاکستان کی پورن ویڈیوز ہیں اور آدھا لندن اس کی جائیداد میں آتا ہے.
دوران تفتیش جو کچھ ہوا اس سے ہر شخص واقف ہے. لیکن اس سب کے بیچ جو سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ کسٹم انسپکٹر اعجاز چوہدری تھا. اس کے افسران اسے ملامت کرتے، اس کے کولیگز اسے نفرت بھری نظروں سے دیکھتے، دوران جرح ایان علی کے وکیل اسے گالیاں اور جھڑکیاں دیتے، عدالت کے احاطے میں اسے دھمکیاں دیتے، اسے نامعلوم نمبروں سے کالیں آتیں، اسے قتل کرنے کی دھمکیاں دی جاتیں، لیکن وہ اپنی جگہ کھڑا رہا، اسے ہر قسم کا لالچ دیا گیا، لیکن وہ کیس سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹا. اس کی ترقی روک دی گئی اور بجائے اس کے کہ اسے انعام دیا جاتا، اسے پابند کیا گیا کہ جب تک کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا وہ کسٹم کاونٹر پر خدمات انجام نہیں دے گا۔
اس نے تمام ثبوت اکٹھے کیے اور عدالت کو دے دیے، جب فرد جرم لگنے کی تاریخ قریب آگئی اور اسے بطور عینی گواہ پیش ہونا تھا، اسے اپنے گھر کے سامنے دو نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے قتل کر دیا، پولیس آئی اور اس کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے لے گئی. چند دن میڈیا پر ہاہاکار رہی، پھر تھانہ وارث خان پولیس نے اس کی قتل کو ڈکیتی کی واردات قرار دے کر فائل بند کردیا. کسٹم حکام بھی بالکل خاموش ہوگئے. اس کی بیوی سر پیٹ پیٹ کر تھانوں عدالتوں میں دھاڑیں مارتی رہی، لیکن اسے ہر طرف سے دھتکار دیا گیا، اس کے ساتھ اس کا کم سن بیٹا عدالتوں کے احاطے میں بدترین گرمی میں رلتا رہتا، لیکن کسٹم حکام اور اعجاز چوہدری کے ساتھی اس سے نظریں چرا کر ایک طرف ہوجاتے!
اعجاز چوہدری مر گیا تھا. عدالت نے ایان علی کو منی لانڈرنگ کیس میں اور اعجاز چوہدری کے قتل کے ایف آئی آر میں نامزد ملزم کی حیثیت سے بری کردیا اور اسے پاسپورٹ واپس دے دیا.
آج ایان علی دبئی کے سب سے مہنگے ترین علاقے میں رہائش پذیر ہے، اس کے پاس ڈاج کی سپورٹس کار ہے. پچھلے دنوں اس نے منی رولز رائس خریدی ہے، وہ فائیو سٹار ہوٹلوں میں قیام کرتی ہے اور پام جمیرا میں بیچ پہ نہاتی ہے.
رہا اعجاز چوہدری تو وہ قبر کے اندھیروں میں اتر گیا. اس کی بیوی اور کم سن بیٹا تین مرلے کے مکان کی بوسیدہ دیواروں پر اس کا عکس ڈھونڈتے ہیں، اس کے شیو کا سامان اور تولیہ اور وردی اس کی بیوی نے سنبھال کر رکھے ہیں لیکن اس نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بیٹے کو کسٹم میں بھرتی نہیں کرائے گی. اس کے سنگی ساتھی اس کی خالی کرسی کو آج بھی دکھ سے دیکھتے ہیں. اعجاز چوہدری کی روح اسلام آباد کے پرانے ایئرپورٹ کی فضاوں میں دیکھی جا سکتی ہے. اس کی موت کا سایہ آج بھی اسلام آباد ایئر پورٹ پر سایہ فگن ہے، میں نے جب بھی اسلام آباد کے پرانے ایئر پورٹ سے سفر کیا، میں نے اعجاز چوہدری کی لاش اور روح کے پرچھائی کو محسوس کیا، میں نے اس کی بیوی کے ماتم اور آنسوؤں کو محسوس کیا، میں نے اس کے کم سن بیٹے کی سسکیوں میں دل سے محسوس کیا اور اس کی بابا میرے بابا کی چیخیں کانوں میں محسوس کی!
آج اسلام آباد کا نیا ایئر پورٹ بن گیا ہے، وہاں اعجاز چوہدری کے موت کے سائے نہیں ہیں، لیکن وہاں کے کسٹم انسپکٹر اب اعجاز چوہدری والی غلطی نہیں دہرائیں گے...!!!
پاکستانیات
ماڈل ایان علی اور کسٹم انسپکٹر اعجاز چودھری
نصیب اللہ یوسف زئی