تاریخ کو عقیدے سے جوڑے رکھنا ہماری مجبوری بھی ہے اور مسلمانانِ ہند کے لیے عقائدی جبر بھی۔ جبر اِس معنی میں کہ ہمارے پاس کوئی اور راہ نہیں ہے۔ سر سید نے صاف لکھا تھا کہ ہندوستانی مسلمان عرب فاتحین کے ساتھ آئے ہوئے لوگ ہیں یعنی غیر مقامی ہیں، تو اِس پر شور مچایا جاتا ہے۔ حالانکہ یہی حقیقت ہے اور اِسے تسلیم کرنا چاہیے؛ ہمارے تسلیم نہ کرنے سے حقیقت بدل نہیں سکتی۔
ہندوستانی مسلمانوں کی لکھی ہوئی تواریخِ اسلام جن پر جذباتی دلائل اور واعظوں کی خواہشات کی دبیز دھند اور سموگ چھائی ہوئی ہے، کے اثرات سے ایک لمحے کے لیے خود کو الگ کرکے ذرا ٹھنڈے دل دماغ سے سوچیے کہ جب ابنِ خلدون نے ڈھکے چھپے پیرائے میں، اور پھر دورِ جدید میں طہ حسین وغیرہ نے صاف صاف الفاظ میں، مدینہ کے تبدیل شدہ سیاسی سیٹ اپ کو زیرِ بحث لاکر لکھا کہ مدینہ والوں کی اگلی نسل مہاجرین کی مستقل شخصی و خاندانی حکومت سے شدید نالاں ہوگئی تھی اور مسلمانوں کو اب شہرِ اقتدار کہیں اور منتقل کرنا ہی کرنا تھا، اور مکہ اِس لیے شہرِ اقتدار نہ بن سکتا تھا کہ وہاں کے ہاشمی جنگوں میں کام آچکے تھے اور اب وہاں صرف بنوامیہ ہی اقتدار کے لائق رہ گئے تھے اور نبی کریم بھی اِسی وجہ سے واپس مکہ نہ گئے تھے، تو اب ہمارے ہندوستانی مسلمان کیا کرسکتے ہیں؟
ہم پر یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ہماری عصبیت اسلام کے لیے ہے نہ کہ کسی خاندان کے لیے، یعنی نبی کریم علیہ السلام بنوہاشم کے بجائے بنوامیہ سے ہوتے تب بھی ہم اُن پر ویسی ہی محبت اور اعتماد سے ایمان لاتے جیسے اب لائے ہوئے ہیں۔ ایمان کی بنیاد یہی محبتِ رسول ہے۔
چنانچہ عرب مورخین کے اسلام کو عرب قومیتی centric نقطہ نظر سے بیان کرنے کا توڑ کرنے کے لیے اور نبی کریم کی محبت کو آفاقی بنانے کے لیے مسلمانانِ ہند کے موٹیویشنل لکھاریوں نے تاریخی حقائق کو عقائدی جبر کے تحت لاکر عقلی دلائل کی جذباتی توجیہات دینا شروع کیں۔ مثال لیجیے کہ سلیمان ندوی نے ‘‘سرزمینِ حرم دارالسلطنت نہیں بن سکتی’’کا عنوان قائم کرکے عقلی دلائل قائم کیے اور مدعا ثابت کیا کہ عبادت گزاری کا مرکز اقتدار کا مرکز نہیں ہونا چاہیے (جب کہ تاریخ بتاتی ہے کہ مدینہ کی عرب سیاست میں رفتہ رفتہ مقامیت کا عنصر انتہائی شدت کے ساتھ عود کر آیا تھا اور مہاجرین کو مدینہ کے اقتدار سے ہمیشہ کے لیے بے دخل کر دیا گیا تھا)۔ سلیمان ندوی نے اِسی طرح عقلی دلائل سے ثابت کیا کہ فتحِ مکہ کے بعد بنوامیہ کو اقتدار دے دیا گیا (حالانکہ تاریخ یہ کہتی ہے کہ اِس کے سوا کوئی آپشن نہ تھا)، وغیرہ وغیرہ۔ عشقِ رسول میں ڈوبے ایک دردمند مسلمان کو تاریخی حقائق پر اپنے عقلی دلائل ایسی ہی جذباتیت سے قائم کرنے چاہییں۔چنانچہ عرب سے آئے ہوئے اسلام اور عرب سیاست کی اقتداری خونی جنگوں میں فرق ہے۔ ہمیں صرف مذہب یعنی اسلام سے تعلق رکھنا چاہیے نہ کہ اقتدار کی کشاکش سے۔ عربوں میں اقتدار کی خونی جنگیں آج تک ہو رہی ہیں اور شاید ہمیشہ جاری رہیں گی۔ مولانا محمد یوسف علیہ الرحمہ فرمایا کرتے تھے ہمیں صحابہ کی زندگی سے یہ سیکھنا چاہیے کہ آپسی جنگوں کے باوجود اشاعتِ اسلام کی رفتار میں کوئی فرق نہ آیا چنانچہ ہمیں دعوتِ دین میں لگنا چاہیے۔ خدا نصیب کرے۔
القصہ تاریخ اور عقیدے میں سے ایک اور صرف ایک کا انتخاب کرنا مسلمانانِ ہند کے لیے کبھی ممکن نہ ہوگا اور ہم عقائدی جبر کے تحت ہی جی سکیں گے۔ اِس جبر کی سسکیوں کو ہم اسلامی ثقافت، اندلمانی ثقافت، سارے جہان کا درد ہمارے جگر میں ہے، مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا، برادر اسلامی ممالک، مسلم بلاک، او آئی سی، وغیرہ وغیرہ، جیسے خوشنما الفاظ سے چھپا سکتے ہیں اور بس۔ دنیا بھر میں ہم صرف ہندوی مسلمان ہی تھے جو شناخت کے اِس بحران میں مبتلا تھے چنانچہ آج بھی ہمارے پاس مسلم بلاک اور او آئی سی وغیرہ جیسی دیوار ہائے گریہ کے سوا کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔
واضح رہے کہ ہم ہندوی مسلمانوں میں کوئی ایک بھی career historian پیدا نہیں ہوا اِس لیے ہمیں یہاں پر رہتے ہوئے صرف سلیمان ندوی اور اِسی قسم کے موٹیویشنل لکھاریوں اور واعظوں کی ضرورت ہے نہ کہ سکہ بند مورخین کی۔
پ ن: اقبال کے مصرع‘‘مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا’’وغیرہ جیسی شاعری کو بھی ہمیشہ اپنی پسند اور ضرورت کے لبادے میں اڑس کر دیکھا جاتا ہے۔ کبھی کوئی یہ نہیں سوچتا کہ تکفیری فتووں کا ہدف بنتے اور جوابِ شکوہ لکھ کر جان بچاتے اور ایک غلام ملک میں پیدا ہونے، رہنے، اور غلامی ہی میں مر جانے والے بے چارے اقبال کو شناخت کے کس درجہ کے بحران کا سامنا تھا۔
فکر ونظر
تاریخ اور عقیدہ
صفوان چوہان