دوست نے سوال کیا کہ ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات نبی ﷺ کے واسطے پیدا فرمائی اور آپﷺ نہ ہوتے تو اللہ یہ کائنات بھی تخلیق نہ فرماتا۔ اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں۔
اس پر ہم نے دوست کی خدمت میں عرض کیا کہ دیکیں آپ نے جوفرمایا وہ اس روایت پر مبنی ہے جس میں بیان کیاجاتا ہے کہ جب جنت کا پھل کھانے کی پاداش میں اللہ نے آدم و حوا علیہما السلام کو جنت سے زمین پر اتارا تو آدم ؑ نے محمد ﷺ کے وسیلے سے دعا مانگی جس پر اللہ نے ان سے دریافت فرمایا کہ یہ ''محمدﷺ'' کون ہیں؟ آدم ؑ نے جواب دیا کہ جب تو نے مجھے پیدا کیا تو میں نے سر اٹھا کر عرش کی طرف دیکھا اور وہاں لا الہ الا للہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا پایا تو میں سمجھ گیا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ رکھا ہے اس سے زیاد ہ عظمت والا کوئی نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ آدم تم نے سچ کہا، وہ نبی آخر ہیں، اور وہ تمہاری اولاد سے ہونگے، اگر وہ نہ ہوتے تو تم بھی پیدا نہ کئے جاتے،پھر اللہ نے ان کی دعا قبول کرکے ان کو معافی عنایت فرمائی۔ ایک دوسری روایت میں آتا ہے کہ لولاک لما خلقت الافلاک یعنی اگر آپﷺ نہ ہوتے تو میں کائنات پیدا نہ کرتا۔
اس روایت کو امام حاکم نے اپنی مستدرک میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ دمشق میں جبکہ امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں سیدنا عمرؓ سے روایت کیا ہے۔ اس روایت کی سند میں عبداللہ بن مسلم، اسماعیل بن مسلمہ، عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم موجود ہیں۔ حاکم نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد تساہل سے کام لیتے ہوئے لکھا کہ یہ روایت صحیح الاسناد ہے جس پر امام ذہبی نے ''تخریج مستدرک '' میں حاکم کا رد کرتے ہوئے احتجاج کیا کہ یہ روایت کیسے اور کہاں سے صحیح ہوسکتی ہے؟ یہ روایت تو موضوع ہے اور عبدالرحمان بن زید بن اسلم واہی ہے اور عبداللہ بن مسلم الفہری کومیں نہیں جانتا کہ یہ کون ہے؟ جبکہ امام بیہقی نے دلائل النبوۃ میں اس روایت کو نقل کرنے کے بعد پوری انصاف پسندی سے یہ بتادیا کہ یہ روایت عبدالرحمان بن زید بن اسلم کے علاوہ کوئی اور نقل نہیں کرتا اور وہ ضعیف ہے۔ عبدالرحمان بن زید بن اسلم کو حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی کتاب تقریب التہذیب جلد اول رقم الترجمہ ۵۶۸۳ کے تحت آٹھویں طبقہ کا ضعیف راوی بتایا ہے۔ اسی طرح امام ذہبی نے میزان الاعتدال جلد ۴ رقم الترجمۃ ۳۷۸۴ میں اس راوی کی بابت ائمہ محدثین کے اقوال جمع کئے ہیں اور لکھتے ہیں کہ عثمان دارمی نے یحییٰ بن معین کا قول نقل کیا ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن نے اسے انتہائی ضعیف قرار دیا ہے۔ امام نسائی کہتے ہیں یہ ضعیف ہے۔ اسی حدیث کے دوسرے واری عبداللہ بن مسلم الفہری کی بابت امام ذہبی میزان میں لکھتے ہیں اس کی یہ روایت (آدم ؑ کی توبہ سے متعلق) باطل ہے۔ حافظ ابن کثیر نے بھی البدایہ و النہایہ جلد ۲ صفحہ ۲۲۳ میں اس روایت کو قطعیت کے ساتھ ضعیف قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر نے بھی لسان المیزان میں اس حدیث کو باطل قرار دیا ہے اور اس کے راوی عبداللہ بن مسلم پر وضع حدیث کے الزام کی بات کی ہے۔اسی طرح امام ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ''القاعدۃ الجلیلۃ فی التوسل و الوسیلہ'' کے صفحہ ۹۶ میں اس روایت کی بابت رقم طراز ہیں:
''اس روایت کے باعث امام حاکم پر سخت اعتراض کیا گیا ہے۔ یہ روایت عبدالرحمان نے وضع کی ہے کیونکہ عبدالرحمان تمام محدثین کے نزدیک ضعیف ہے۔ یہی بات ابن الجوزی نے تحریر کی ہے۔''
دراصل یہ روایت نہ صرف اسناداً سخت ضعیف ہے بلکہ متناً بھی منکر اور خلاف قرآن ہے۔ قرآن میں تو اللہ نے صاف تصریح کی ہے کہ اللہ سے توبہ سیدنا آدم ؑ نے اپنے کسی اجتہاد کے زیر اثر نہیں، بلکہ اللہ کے سکھائے ہوئے کلمات کے ذریعے کی تھی جیسا کہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر ۳۷ میں ارشاد ہوتا ہے:''پس سیکھ لئے آدم ؑنے اپنے رب سے چند کلمات، پھر متوجہ ہوگیا اللہ اس پر۔ بیشک وہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔''اور وہ کلمات کیا تھے وہ بھی سورۃ الاعراف میں بیان فرمادئیے:
قالا ربنا ظلمنا انفسنا و ان لم تغفرلنا و ترحمنا لنکونن من الخٰسرین''(آدم و حوا نے) کہا اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اورر ہم پر رحم نہ کیا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہوجائینگے۔'' (آیت نمبر ۳۲)
دوسرا ظلم اس روایت میں یہ کیا گیا ہے کہ کائنات کی تخلیق کا باعث نبی ﷺ کی ذات کو ٹھہرایا گیا ہے حالانکہ اللہ قرآن میں فرماتے ہیں:وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون''ہم نے نہیں پیدا کیا جن و انس کو مگر اپنی بندگی کے لئے'' (سورۃ الذاریات آیت نمبر ۶۵)یعنی تخلیق کائنات کی غایت بندگی الہٰی ہے نہ کہ ذات نبویﷺ بلکہ خود نبی ﷺ کو اللہ نے اپنی بندگی اور اپنے فرمان کی تبلیغ کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ پھر ہمیں حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ جو طبقہ اس روایت کو اپنے نظریات کے استدلال میں پیش کرتا ہے خود ان کے فقہ کی امہات الکتب میں کسی نبی یا صالح انسان کے وسیلے سے دعا مانگنے کی ممانعت وارد ہے۔ ابوالحسین قدوری اپنی فقہ کی کتاب المسمی بشرح الکرخی کے باب الکراہۃ میں لکھتے ہیں کہ
قَالَ بَشَرٌ بْنُ الْوَلِیْدِ حَدَّثَنَا اَبُوْ یُوْسَفَ قَالَ اَبُوْ حَنِیْفَۃَ لَا یَنْبَغِیْ لِاَحَدٍاَنْ یَّدْعُوْا اِلَّابِہٖ وَاُکْرِہُ اَنْ یَّقُوْلَ بِحَقِّ خَلْقِکَ وَہُوَ قَوْلُ اَبِیْ یَوْسَفَ: قَالَ اَبُوْیُوْسَفَ اُکْرِہُ اَنْ یَّقُوْلَ بِحَقِّ فُلَانٍ اَوْ بِحَقِّ اَنْبِیَآئِکَ وَرَسُوْلِکَ وَبِحَقِّ الْبَیْتِ الْحَرَامِ وَالْمَشْعَرِالْحَرَامِ قَالَ الْقُدُوْرِیُّ: اَلْمَسَلَۃُ بِخَلْقِہٖ لَا تَجُوْزُ لِاَنَّہُ لَاحَقَّ لِلْخَلْقِ عَلیَ الْخَالِقِ فَلَا تَجُوْزُ وِفَاقًا
بشر بن ولید کہتے ہیں کہ مجھ سے امام ابو یوسف نے بیان کیا کہ امام ابو حنیفہ نے کہا کہ کسی کے لیے اللہ تعالیٰ سے بجز اس کی ذات اور صفات کے حوالہ دے کر دعا کرنا جائز نہیں ہے اور میں ناجائز سمجھتا ہوں کہ کوئی یوں کہے کہ بحق تیری مخلوق کے۔ اور یہی قول ابو یوسف کا ہے:وہ کہتے ہیں کہ میں بھی ناجائز سمجھتا ہوں کہ کوئی یوں کہے کہ بحق تیرے نبیوں کے، بحق تیرے رسولوں کے، یا بحق بیت الحرام یا بحق مشعر الحرام۔ (اس کے بعد) امام قدوری کہتے ہیں کہ ا سے اس کی مخلوق کا واسطہ دے کر سوال کرنا جائز نہیں ہے کیوں کہ کسی مخلوق کا بھی خالق پر کوئی حق نہیں ہے کہ وہ اسے ادا کرے۔یہی بات احناف کے مسلک کی سب سے معتبر کتاب ہدایہ کی کتاب الکراہیۃ میں ہے:‘‘اور جائز نہیں کہ کوئی اپنی دعا میں یوں کہے کہ بحق فلاں یا اپنے انبیاء اور رسولوں کے حق کے طفیل یا صدقہ میں کیونکہ خالق پر کسی مخلوق کا کوئی حق نہیں ہے۔’’ (ہدایہ جلد ۴، صفحہ ۹۵۴)
الغرض یہ روایت سخت ضعیف ہے اورآدم ؑ نے اللہ سے توبہ اللہ کے ہی سکھائے ہوئے کلمات کے ذریعے کی تھی جبکہ کائنات کو تخلیق کرنے کی غایت نبی ﷺ نہیں بلکہ انسان و جن سے اللہ کی بندگی کروانا ہے۔
دین و دانش
لولاک لماخلقت الافلاک
محمد فہد حارث