جواب:مذکورہ افعال کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں،یہ افعال محض جہالت ہیں،انکو چھوڑنا لاز م ہے۔
جواب:صورت مسؤلہ میں گھٹیا اور عمدہ مال کو مخلوط کر کے اسے عمدہ مال کے نام سے بیچنا یہ ایک دھوکہ ہے،جس کی شریعت میں کوئی گنجائش نہیں، البتہ مطلقا بیچتا ہے تو پھر اس کی گنجا ئش ہے۔
(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)
جواب :آدمی جب کسی حکومت کے ماتحت رہتا ہے،تو اس کے جائز قوانین کی پاسداری اس پر لازم ہوتی ہے،ان قوانین کی خلاف ورزی کرنا شرعاً اور اخلاقا ً جرم ہے،اور اس سے عزت و مال کو بھی خطرہ ہوتا ہے، جبکہ شریعت میں اپنی عزت و مال کو خطرہ میں ڈالنا عقلمندی کی بات نہیں ہے۔لہذا صورت مسؤلہ میں حکومت کی طرف سے ممنوعہ اشیاء کی خرید و فروخت کے لئے رشوت دینا جائز نہیں ہے۔
(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)
جواب۱۔۔جو شخص مقدارِ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی نقد قیمت کا مالک بھی نہ ہو اور اس کے پاس ضرورت سے زائد اس مالیت کی چیز بھی نہ ہو)کا مالک نہ ہو وہ مستحق زکوٰۃ ہے،چنانچہ جو مرد یا عورت مالکِ نصاب نہ ہو،اس کے لیے زکوٰۃ وغیرہ لینا درست ہے، مگر اپنے والدین،دادا، دادی،نانا، نانی،شوہر،بیوی کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی،البتہ ضرورت کی چیزوں میں داخل اشیاء مثلاً:(کپڑے،گھر کا سامان وغیرہ)زکوٰۃ لینے سے مانع نہیں ہوں گے،نیز اگر تنگی سے گزرِ اوقات ہوتے ہیں تو اس صورت میں زکوٰۃ لی جاسکتی ہے۔
لہٰذا صورت مسؤلہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر مبنی بر حقیقت ہے،تو مذکورہ حالات میں آپ کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے، نیز زکوٰۃ کی رقم کی مالک بننے کے بعد اگر شوہر کو زکوٰۃ کی رقم سے کھلایا جائے،تو اس میں حرج نہیں اسی طرح بچوں کو زکوٰۃ لے کر کھلا سکتی ہیں، بشرطیکہ جب تک آپ مستحق زکوٰۃ ہیں۔
۲۔۔ اس کے علاوہ آپ نے جو سونا اپنے شوہر کو دیا تھا،اب وہ سونا واپس کرنے سے انکار کررہا ہے اور اس کے ملنے امید نہ ہونے کی وجہ سے آپ نصاب کی مالک نہیں،لہٰذا زکوٰۃ لینے میں حرج نہیں۔
۳۔۔زکوٰۃ لینے کے لیے شوہر کو بتانا ضروری نہیں، اُن کو بتائے بغیر بھی آپ زکوٰۃ لے سکتی ہیں،تاہم چونکہ آپ مستحق ہیں اس لیے زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے، لیکن آپ کی ضروریات بھی(اگرچہ تنگی کے ساتھ)پوری ہورہی ہیں،اس لیے زکوٰۃ مانگنا آپ کے لیے درست نہیں،البتہ اگر آپ کو کوئی از خود زکوٰۃ دے دے تو لینے کی گنجائش ہے۔
جواب:صورتِ مسؤلہ میں والد صاحب کا اپنے بیٹوں پر یہ دُکان فروخت کرنا درست ہے،جتنی قیمت پر بھی متعاقدین رضامند ہوجائیں،چاہے وہ قیمت ِ خرید سے کم ہو،یا زیادہ ۔
جواب:بیع کے مکمل ہوجانے کے بعد بائع اور مشتری میں سے کوئی ایک اگر بیع کو ختم کرنا چاہے،تو دوسرے کی رضامندی سے(اسی قیمت پر جس قیمت پر بیع ہوئی تھی) ختم کر سکتے ہیں،اس قیمت سے زیادہ رقم لینا مشتری کے لیے جائز اور درست نہیں، اور نہ ہی بائع کے لیے مشتری کا بیعانہ ضبط کرنا جائز ہے۔
(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)
جواب:جو لطیفے جھوٹ یا کسی طبقہ یا قوم پر طنز یا کسی اور خلاف شرع امر پر مشتمل ہوں ان کا کسی کو میسیج کرنا یا کسی کو سنانا،اور اسی طرح جو واقعہ انسان کے ساتھ پیش نہ آیا ہو اس کو اس طرح بیان کرنا یا لکھنا کہ دوسرے کو گمان ہونے لگے کہ یہ واقعہ بیان کرنے والے کے سا تھ پیش آیا ہے تو یہ سب جھوٹ میں شامل ہے، اور مذکورہ بالاا مور کا کرنے والا اس وعید ‘‘ویل لمن یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم’’ کے تحت داخل ہے، البتہ اگر کوئی میسیج یا تحریر یا بیان ایسے واقعہ اور لطیفہ پر مشتمل ہو کہ جس سے عبرت یا اچھا سبق ملتا ہو اور اسے سننے اور پڑھنے والے کو یہ معلوم ہوتا ہو کہ اس کا کردار فرضی ہے تو ایسے واقعہ یا لطیفہ کو بیان کرنا یا لکھنا یا کسی کو ایس ایم ایس کرناجائز ہے، اس لیے کہ سلف صالحین کی تحریرات میں اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں، جیسے شیخ سعدی اور مولانا رومی۔ رحمہما اللہ۔ کی حکایات وغیرہ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب
(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)
جواب:واضح رہے کہ والد کے انتقال کے بعد بیٹوں پر لازم ہے کہ والد کی بیٹیوں (اپنی بہنوں) کو وراثت کا پورا پورا حق ان کے حوالے کریں، تقسیم سے قبل بہنوں کااپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ کرنا درست نہیں، اسی طرح بھائیوں کا بہن کو ان کا حق اس وجہ سے نہ دینا کہ ہم آپ کے حصے کی دیکھ بھال کریں گے، یا آپ کو حج کرائیں گے، یہ بھی درست نہیں، اس طرح ہبہ کرنے، دیکھ بھال یا حج کے وعدے سے بہنوں کا حقِ میراث ساقط نہ ہو گا، بلکہ زندگی میں بہنوں کو بذاتِ خود اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کو اپنی والدہ کے حصے کے مطالبہ کا حق حاصل ہو گا، نیز بھائیوں نے بہنوں کے حقِ میراث کے بدلے جو ان کو حج کرایا یا نقدی وغیرہ دی اس کی مالیت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی درست نہیں، لہٰذا بھائیوں کو بہنوں کا حق میراث دینے پر اس مالیت کے واپس لینے کا حق حاصل ہے۔البتہ میراث تقسیم ہوجانے کے بعد اگر کوئی بہن اپنے حصے پر مکمل قبضہ کرکے اپنی خوشی ورضا مندی سے (نہ کہ علاقے کے رسم ورواج یا دباؤ سے) اپنا حق اپنے بھائیوں کوہبہ کر دے یا دیکھ بھال کے لیے دے دے تو یہ جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے واضح اور صاف طور پر اپنے کلام میں میراث کے احکام کو بیان فرمادیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان احکامات پر عمل کرنے والوں کے لیے بشارت اورابدی سعادت اور ان احکام پر عملنہ کرنے والوں کے لیے عذاب کو بھی بیان فرما دیا، اب جس مسلمان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی عظمت، آخرت کی جواب دہی اور دوسروں کا حق دبانے پر ملنے والے دنیا وآخرت کے عذاب کا یقین ہو گا وہ تو ہر گز ان احکام سے روگردانی نہیں کرے گا، بلکہ وہ ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا دے گا۔باقی جن مسلمانوں نے غفلت کی چادر اوڑھ کر حرص وہوس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور آخرت کی ابدی وحقیقی زندگی ان کے سامنے نہیں، یہی لوگ ہیں جو ماں بہن کے حقِ میراث میں غبن کرتے ہیں او راپنی حلال کمائی کو بھی حرام بناتے ہیں۔
وراثت میں ملا ہوا مال اطیب الاموال (پاکیزہ اموال میں سے سب سے پاکیزہ مال) کہلاتا ہے، کیوں کہ اس میں انسان کے کسب وعمل کو دخل نہیں، جو شخص اس تقسیم میں قانونِ الہی کی مخالفت کرتاہے وہ کئی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب وقہر کا مورد ہوتا ہے، اول: یہ کہ شاہی انعام جس کا حق دار کو پہنچانا اس کے ذمے تھا اس میں خیانت کی، دوسرے: حق دار کو اس کے حق سے محروم کرکے ظلم کیا، تیسرے،یہ ظلم جو وراثت میں ہوتا ہے نسلوں تک چلتا ہے، اور اس کا وبال اس شخص پر ہوتا ہے جس نے اول اس میں خیانت کی۔خلاصہ یہ کہ بھائیوں کا مظلوم بہنوں کو ان کا حقِ میراث نہ دینا ظلم عظیم ہے، اور صرف زبانی کلامی معاف کرالینا بھی شرعاً معتبر نہیں او راسی طرح بہنوں کا بھائیوں کے قطع تعلق اور طعن وتشنیع کے ڈر سے بادل ناخواستہ محض زبانی اپنا حصہ معاف کرنے کا بھی کوئی اعتبار نہیں، غرضیکہ حرام کو حلال بنانے اور بے زبان مظلوم بہنوں کا حصہ? میراث دبانے کے لیے جو بھی چالیں چلی جاتی ہیں وہ سب شرعاً مردود اور باطل ہیں۔
جواب: صورتِ مسؤلہ میں آپ نے اپنے والد صاحب کو اپنی والدہ صاحبہ کے کہنے پر قرض یا شرکت وغیرہ کی صراحت کیے بغیر جو رقم دی ہے اس کی شرعی حیثیت ‘‘تبرع اوراحسان’’ کی ہے، اس لیے مذکورہ مکان صرف آپ کے والد صاحب ہی کی ملکیت ہے، آپ کے والد صاحب کے محض کہہ دینے سے آپ آدھے مکان کے مالک نہیں ہوں گے او راسی طرح دوسرے آدھے مکان میں آپ کے تین بھائیوں اور چار بہنوں کی بھی ملکیت ثابت نہیں ہو گی، آپ کے والد صاحب کو چاہیے کہ جس بیٹے اور بیٹی کو جتنا حصہ دینا چاہے تو وہ اس پر فروخت کردے، نیز آپ کے بھائی کا بلاوجہ والد صاحب کی زندگی میں مکان سے حصہ مانگنا ہر گز درست نہیں۔
جواب: والدین کا اپنی اولاد کو اور اولاد کا اپنے والدین کو زکوٰۃ دینا درست نہیں، اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، ان کے سوا باقی رشتہ دار مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے بلکہ اس میں دگنا ثواب ہے، ایک ثواب زکوٰۃ دینے کا اوردوسرا صلہ رحمی کا۔
جواب:قربانی کا گوشت غیر مسلم کو خواہ وہ اہل کتاب ہوں یاغیر اہل کتاب دینا جائز ہے، البتہ زکوٰۃ اور صدقات واجبہ دینا جائز نہیں۔
جواب:دس ذوالحجہ سے پہلے یا قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر صاحب قربانی کا انتقال ہوجائے تو قربانی ساقط ہوجائے گی اور وہ جانور وارثوں کا ہوگا۔لہٰذا صورت مسؤلہ میں یہ جانور وارثوں کا ہے۔ ان پر مرحوم کی طرف سے اس کا ذبح کرنا واجب نہیں، البتہ تمام وارثوں کی رضامندی سے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔