سوال جواب

مصنف : دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي

سلسلہ : یسئلون

شمارہ : اكتوبر2022

جواب:مذکورہ افعال کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں،یہ افعال محض جہالت ہیں،انکو چھوڑنا لاز م ہے۔
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب :آدمی جب کسی حکومت کے ماتحت رہتا ہے،تو اس کے جائز قوانین کی پاسداری اس پر لازم ہوتی ہے،ان قوانین کی خلاف ورزی کرنا شرعاً اور اخلاقا ً جرم ہے،اور اس سے عزت و مال کو بھی خطرہ ہوتا ہے، جبکہ شریعت میں اپنی عزت و مال کو خطرہ میں ڈالنا عقلمندی کی بات نہیں ہے۔لہذا صورت مسؤلہ میں حکومت کی طرف سے ممنوعہ اشیاء کی خرید و فروخت کے لئے رشوت دینا جائز نہیں ہے۔

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیانِ عظام ان مسائل کے ذیل میں کہ مذکورہ حالات میں،میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں 
-95میری شادی کو بارہ سال ہوگئے ہیں، جب شادی ہوئی تو ساس،سسر نے مجھے دکھایا کہ میرے شوہر اپنے والد کے ساتھ ان کی دکان پر سیٹ ہیں،مگر شادی کے بعد ایک سال تک دونوں نے ساتھ کام کیا،پھر گھریلو لڑائی جھگڑوں کے بعد ساس اور سسر (شوہر کے والدین)سے میرے شوہر کے تعلقات خراب ہونے کے بعد انہوں نے دکان سے نکال دیا اور کہا کہ اپنا کھاؤ،کماؤگھر ساتھ تھا مگر کھانا الگ کردیا۔میرے شوہر نے میرا سارا زیور لے لیا کہ کاروبار کروں گا یہ زیور بیچ کر،میرے والدین کا دیا ہواسارا زیور شوہر نے لے لیا اور ساس (شوہر کی والدہ)نے اپنی طرف سے جو دیا تھا،وہ زیور خود ساس نے لے لیا۔میرے چار بچے ہیں، بارہ سال سے یہ حال ہیکہ گھر ساس سے الگ ہوگیا ہے،گیارہ سال کرائے کے گھر میں رہے اب ایک سال سے سسر کے ذاتی گھر میں رہ رہے ہیں،انہوں نے ہمیں رہنے کے لیے دیا ہے، شوہر کبھی قرضہ لے کر اپنا کام کرتے ہیں جب کاروبار ٹھپ ہوجاتا ہے،تو سسر کے پاس چلے جاتے ہیں ان کی دکان پر کام کرنے کے لیے،پھر ان کے ساتھ سیٹنگ نہیں بنتی تو پھر قرضہ لے کر اپنا کام کرنے لگ جاتے ہیں،ہمارے گھریلو حالات تنگی میں ہی چلتے رہتے ہیں،کبھی سامان ڈھنگ سے لے آتے ہیں، کبھی روکھی سوکھی کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔
-95میرے ہاتھ میں میرے ذاتی خرچے کا ایک روپیہ بھی نہیں دیتے۔
-95میری بیٹی ابھی کافی چھوٹی ہے تقریبا 9 ماہ کی ہے اور میرے پیٹ میں ہرنیا بھی ہے،جس کی وجہ سے میں کپڑے وغیرہ اور جھاڑو نہیں دے سکتی تو ماسی رکھی ہوئی ہے،جس کی تنخواہ بہت رُلا کر میرے شوہر دیتے ہیں ڈھائی تین ہزار روپے،کیا ایسی صورت میں میں زکوٰۃ کے پیسے لے کر اپنے اور اپنے بچوں پر خرچ کرسکتی ہوں؟
-95میرے پاس سونے اور چاندی کا ایک تار بھی نہیں ہے،نہ ہی کوئی رقم ہے۔ہاتھ کے خرچ کے لیے میرے ماں باپ مجھے دیتے تھے،بچوں کے ساتھ سو ضروریات ہوتی ہیں،پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے،اس لیے وہ میری مدد کرتے ہیں مگر اب ان کے حالات بھی بہت خراب ہوچکے ہیں وہ بھی خرچ نہیں دے سکتے، تو کیا میں ایسی صورت میں زکوٰۃ لے سکتی ہوں،کھانے کے لیے اور کپڑوں پر خرچ کر نے کے لیے استعمال کرسکتی ہوں اور میرے شوہر اگر کبھی اس میں کھالیں تو کوئی حرج تو نہیں ہے؟ جبکہ میرے بچوں کے دادا،دادی کروڑ پتی ہیں،مگر ہمارا گزارا مشکل سے ہوپاتا ہے،ساس سُسر کی گاڑی بھی ہے اور وہ گاڑی میرے شوہر بھی استعمال کرتے ہیں اور میں بھی جاتی آتی ہوں گاڑی میں،بچے دنیاوی تعلیم حاصل نہیں کررہے۔
میرے پاس شادی میں آنے جانے کے لیے میرے ماں باپ نے اور ساس نے کچھ جوڑے بنا کر دییہوئے ہیں،تو کیا قیمتی جوڑوں کی موجودگی میں اور گھر میں فریج،واشنگ مشین کی موجودگی میں،میں زکوٰۃ کی مستحق ہوں؟
-95میرے میاں ظالم ہیں، بہت اذیت دیتے ہیں مثلاً:رات کو سونے نہیں دیتے،بات بات پر چکرانا،جھوٹ سچ کرنا،ٹارچر کرنا،کبھی ہاتھ بھی اٹھالیتے ہیں، ہر تھوڑے عرصہ کے بعد ماں باپ کے گھر پر بٹھانے کی دھمکی دیتے ہیں،پہلے کئی مرتبہ بٹھا بھی چکے ہیں اور کہتے ہیں کہ تم جاؤ،میں بچوں کو اپنے پاس ہی رکھوں گا۔
-95میرے میاں خود کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے اور دکھاتے ہیں کہ میں قرض لے کر کام کررہا ہوں، یہ سب مجھے جھوٹ لگتا ہے، وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ مل کر تماشے کرتے ہیں، حالانکہ میرے سسرال کا ماحول اور میرے گھر کے حالات کو سامنے رکھا جائے تو سسرال والے چاہیں،تو میرے گھر کا خرچ دے سکتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ایسا نہیں کیا دوا،دارو کا خرچ بھی بڑی مشکل سے کرتے ہیں۔
-95میرے میاں اکثر جب راشن نہیں لاتے تو خود تو وہ اکیلے کبھی کبھی اپنے والدین کے ہاں کھانا پینا کرلیتے ہیں،اپنا لباس دوائی وغیرہ اور کھانا پینا اچھے سے کرلیتے ہیں،لیکن میرے لیے اور بچوں کے لیے سخت دل ہیں۔
-95میں اپنے میاں کو زکوٰۃ لینے کے بارے میں آگاہ نہیں کرسکتی،کیونکہ وہ پھر مجھے پیسے نہیں لینے دیں گے،زکوٰۃ کے پیسوں سے منع کردیں گے،اس صورت میں (کہ شوہر کو خبر نہ ہو)زکوٰۃ لینا جائز ہے؟

جواب۱۔۔جو شخص مقدارِ نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی یا اتنی نقد قیمت کا مالک بھی نہ ہو اور اس کے پاس ضرورت سے زائد اس مالیت کی چیز بھی نہ ہو)کا مالک نہ ہو وہ مستحق زکوٰۃ ہے،چنانچہ جو مرد یا عورت مالکِ نصاب نہ ہو،اس کے لیے زکوٰۃ وغیرہ لینا درست ہے، مگر اپنے والدین،دادا، دادی،نانا، نانی،شوہر،بیوی کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی،البتہ ضرورت کی چیزوں میں داخل اشیاء مثلاً:(کپڑے،گھر کا سامان وغیرہ)زکوٰۃ لینے سے مانع نہیں ہوں گے،نیز اگر تنگی سے گزرِ اوقات ہوتے ہیں تو اس صورت میں زکوٰۃ لی جاسکتی ہے۔
لہٰذا صورت مسؤلہ میں ذکر کردہ تفصیل اگر مبنی بر حقیقت ہے،تو مذکورہ حالات میں آپ کے لیے زکوٰۃ لینا جائز ہے، نیز زکوٰۃ کی رقم کی مالک بننے کے بعد اگر شوہر کو زکوٰۃ کی رقم سے کھلایا جائے،تو اس میں حرج نہیں اسی طرح بچوں کو زکوٰۃ لے کر کھلا سکتی ہیں، بشرطیکہ جب تک آپ مستحق زکوٰۃ ہیں۔
۲۔۔ اس کے علاوہ آپ نے جو سونا اپنے شوہر کو دیا تھا،اب وہ سونا واپس کرنے سے انکار کررہا ہے اور اس کے ملنے امید نہ ہونے کی وجہ سے آپ نصاب کی مالک نہیں،لہٰذا زکوٰۃ لینے میں حرج نہیں۔
۳۔۔زکوٰۃ لینے کے لیے شوہر کو بتانا ضروری نہیں، اُن کو بتائے بغیر بھی آپ زکوٰۃ لے سکتی ہیں،تاہم چونکہ آپ مستحق ہیں اس لیے زکوٰۃ لینے کی گنجائش ہے، لیکن آپ کی ضروریات بھی(اگرچہ تنگی کے ساتھ)پوری ہورہی ہیں،اس لیے زکوٰۃ مانگنا آپ کے لیے درست نہیں،البتہ اگر آپ کو کوئی از خود زکوٰۃ دے دے تو لینے کی گنجائش ہے۔

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب:جو لطیفے جھوٹ یا کسی طبقہ یا قوم پر طنز یا کسی اور خلاف شرع امر پر مشتمل ہوں ان کا کسی کو میسیج کرنا یا کسی کو سنانا،اور اسی طرح جو واقعہ انسان کے ساتھ پیش نہ آیا ہو اس کو اس طرح بیان کرنا یا لکھنا کہ دوسرے کو گمان ہونے لگے کہ یہ واقعہ بیان کرنے والے کے سا تھ پیش آیا ہے تو یہ سب جھوٹ میں شامل ہے، اور مذکورہ بالاا مور کا کرنے والا اس وعید ‘‘ویل لمن یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم’’ کے تحت داخل ہے، البتہ اگر کوئی میسیج یا تحریر یا بیان ایسے واقعہ اور لطیفہ پر مشتمل ہو کہ جس سے عبرت یا اچھا سبق ملتا ہو اور اسے سننے اور پڑھنے والے کو یہ معلوم ہوتا ہو کہ اس کا کردار فرضی ہے تو ایسے واقعہ یا لطیفہ کو بیان کرنا یا لکھنا یا کسی کو ایس ایم ایس کرناجائز ہے، اس لیے کہ سلف صالحین کی تحریرات میں اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں، جیسے شیخ سعدی اور مولانا رومی۔ رحمہما اللہ۔ کی حکایات وغیرہ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب:واضح رہے کہ والد کے انتقال کے بعد بیٹوں پر لازم ہے کہ والد کی بیٹیوں (اپنی بہنوں) کو وراثت کا پورا پورا حق ان کے حوالے کریں، تقسیم سے قبل بہنوں کااپنا حصہ بھائیوں کو ہبہ کرنا درست نہیں، اسی طرح بھائیوں کا بہن کو ان کا حق اس وجہ سے نہ دینا کہ ہم آپ کے حصے کی دیکھ بھال کریں گے، یا آپ کو حج کرائیں گے، یہ بھی درست نہیں، اس طرح ہبہ کرنے، دیکھ بھال یا حج کے وعدے سے بہنوں کا حقِ میراث ساقط نہ ہو گا، بلکہ زندگی میں بہنوں کو بذاتِ خود اور ان کے انتقال کے بعد ان کے ورثاء کو اپنی والدہ کے حصے کے مطالبہ کا حق حاصل ہو گا، نیز بھائیوں نے بہنوں کے حقِ میراث کے بدلے جو ان کو حج کرایا یا نقدی وغیرہ دی اس کی مالیت مجہول ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ بھی درست نہیں، لہٰذا بھائیوں کو بہنوں کا حق میراث دینے پر اس مالیت کے واپس لینے کا حق حاصل ہے۔البتہ میراث تقسیم ہوجانے کے بعد اگر کوئی بہن اپنے حصے پر مکمل قبضہ کرکے اپنی خوشی ورضا مندی سے (نہ کہ علاقے کے رسم ورواج یا دباؤ سے) اپنا حق اپنے بھائیوں کوہبہ کر دے یا دیکھ بھال کے لیے دے دے تو یہ جائز ہے۔
اللہ تعالیٰ نے واضح اور صاف طور پر اپنے کلام میں میراث کے احکام کو بیان فرمادیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان احکامات پر عمل کرنے والوں کے لیے بشارت اورابدی سعادت اور ان احکام پر عملنہ کرنے والوں کے لیے عذاب کو بھی بیان فرما دیا، اب جس مسلمان کے دل میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی عظمت، آخرت کی جواب دہی اور دوسروں کا حق دبانے پر ملنے والے دنیا وآخرت کے عذاب کا یقین ہو گا وہ تو ہر گز ان احکام سے روگردانی نہیں کرے گا، بلکہ وہ ہر صاحبِ حق کو اس کا حق پورا پورا دے گا۔باقی جن مسلمانوں نے غفلت کی چادر اوڑھ کر حرص وہوس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے اور آخرت کی ابدی وحقیقی زندگی ان کے سامنے نہیں، یہی لوگ ہیں جو ماں بہن کے حقِ میراث میں غبن کرتے ہیں او راپنی حلال کمائی کو بھی حرام بناتے ہیں۔
وراثت میں ملا ہوا مال اطیب الاموال (پاکیزہ اموال میں سے سب سے پاکیزہ مال) کہلاتا ہے، کیوں کہ اس میں انسان کے کسب وعمل کو دخل نہیں، جو شخص اس تقسیم میں قانونِ الہی کی مخالفت کرتاہے وہ کئی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب وقہر کا مورد ہوتا ہے، اول: یہ کہ شاہی انعام جس کا حق دار کو پہنچانا اس کے ذمے تھا اس میں خیانت کی، دوسرے: حق دار کو اس کے حق سے محروم کرکے ظلم کیا، تیسرے،یہ ظلم جو وراثت میں ہوتا ہے نسلوں تک چلتا ہے، اور اس کا وبال اس شخص پر ہوتا ہے جس نے اول اس میں خیانت کی۔خلاصہ یہ کہ بھائیوں کا مظلوم بہنوں کو ان کا حقِ میراث نہ دینا ظلم عظیم ہے، اور صرف زبانی کلامی معاف کرالینا بھی شرعاً معتبر نہیں او راسی طرح بہنوں کا بھائیوں کے قطع تعلق اور طعن وتشنیع کے ڈر سے بادل ناخواستہ محض زبانی اپنا حصہ معاف کرنے کا بھی کوئی اعتبار نہیں، غرضیکہ حرام کو حلال بنانے اور بے زبان مظلوم بہنوں کا حصہ? میراث دبانے کے لیے جو بھی چالیں چلی جاتی ہیں وہ سب شرعاً مردود اور باطل ہیں۔
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

والد صاحب کو مکان خریدنے کے لیے بلانیت آدھی رقم دینے اوراس مکان کی ملکیت واستحقاق کا حکم
سوال :کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم جس مکان میں رہتے ہیں یہ 1995ء میں خریدا تھا پانچ لاکھ چالیس ہزارمیں،تین لاکھ میرے والد صاحب نے اور دو لاکھ پچاس ہزار میں نے دیے تھے، اس وقت ہم تین بھائی تھے، بڑا بھائی پی آئی اے میں، دوسرا نیوی میں اور میں گورنمنٹ سروس کرتا تھا، میں پارٹ ٹائم بھی کرتا اور دونوں کاموں کی تنخواہ بھی پوری اپنے والدین کو دیتا تھااورکچھ پیسے بچاکر بیسیاں ڈالتا تھا، جب یہ رقم میں نے گھر کی خریداری میں اپنے والد کو دی تھی مبلغ ڈھائی لاکھ، او راب میرا بھائی والد صاحب کے جیتے جی مکان میں پورا حصہ مانگ رہا ہے، جب کہ والد صاحب نے کہا ہے کہ آدھے مکان کا حق دار فیاض ہے اور آدھا میرا ہے، اس آدھے میں تین بیٹے اور چاربیٹیاں حصے دار ہیں، جناب دین اسلام اور شریعت میں جو ہے اس حساب سے فتوی دیں تاکہ کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے مطابق مسئلہ بھی حل ہو جائے، اس وقت مکان کی قیمت تقربیاً پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے تک ہے۔

جواب: صورتِ مسؤلہ میں آپ نے اپنے والد صاحب کو اپنی والدہ صاحبہ کے کہنے پر قرض یا شرکت وغیرہ کی صراحت کیے بغیر جو رقم دی ہے اس کی شرعی حیثیت ‘‘تبرع اوراحسان’’ کی ہے، اس لیے مذکورہ مکان صرف آپ کے والد صاحب ہی کی ملکیت ہے، آپ کے والد صاحب کے محض کہہ دینے سے آپ آدھے مکان کے مالک نہیں ہوں گے او راسی طرح دوسرے آدھے مکان میں آپ کے تین بھائیوں اور چار بہنوں کی بھی ملکیت ثابت نہیں ہو گی، آپ کے والد صاحب کو چاہیے کہ جس بیٹے اور بیٹی کو جتنا حصہ دینا چاہے تو وہ اس پر فروخت کردے، نیز آپ کے بھائی کا بلاوجہ والد صاحب کی زندگی میں مکان سے حصہ مانگنا ہر گز درست نہیں۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب: والدین کا اپنی اولاد کو اور اولاد کا اپنے والدین کو زکوٰۃ دینا درست نہیں، اسی طرح میاں بیوی بھی ایک دوسرے کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے، ان کے سوا باقی رشتہ دار مثلاً بھائی، بہن، چچا، ماموں، خالہ وغیرہ کو زکوٰۃ دینا جائز ہے بلکہ اس میں دگنا ثواب ہے، ایک ثواب زکوٰۃ دینے کا اوردوسرا صلہ رحمی کا۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)

جواب:دس ذوالحجہ سے پہلے یا قربانی کے دنوں میں جانور ذبح کرنے سے پہلے اگر صاحب قربانی کا انتقال ہوجائے تو قربانی ساقط ہوجائے گی اور وہ جانور وارثوں کا ہوگا۔لہٰذا صورت مسؤلہ میں یہ جانور وارثوں کا ہے۔ ان پر مرحوم کی طرف سے اس کا ذبح کرنا واجب نہیں، البتہ تمام وارثوں کی رضامندی سے ایصال ثواب کی نیت سے قربانی کردیں تو زیادہ بہتر ہے۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)