خريد وفروخت

والد صاحب کو مکان خریدنے کے لیے بلانیت آدھی رقم دینے اوراس مکان کی ملکیت واستحقاق کا حکم
سوال :کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ ہم جس مکان میں رہتے ہیں یہ 1995ء میں خریدا تھا پانچ لاکھ چالیس ہزارمیں،تین لاکھ میرے والد صاحب نے اور دو لاکھ پچاس ہزار میں نے دیے تھے، اس وقت ہم تین بھائی تھے، بڑا بھائی پی آئی اے میں، دوسرا نیوی میں اور میں گورنمنٹ سروس کرتا تھا، میں پارٹ ٹائم بھی کرتا اور دونوں کاموں کی تنخواہ بھی پوری اپنے والدین کو دیتا تھااورکچھ پیسے بچاکر بیسیاں ڈالتا تھا، جب یہ رقم میں نے گھر کی خریداری میں اپنے والد کو دی تھی مبلغ ڈھائی لاکھ، او راب میرا بھائی والد صاحب کے جیتے جی مکان میں پورا حصہ مانگ رہا ہے، جب کہ والد صاحب نے کہا ہے کہ آدھے مکان کا حق دار فیاض ہے اور آدھا میرا ہے، اس آدھے میں تین بیٹے اور چاربیٹیاں حصے دار ہیں، جناب دین اسلام اور شریعت میں جو ہے اس حساب سے فتوی دیں تاکہ کسی کی حق تلفی بھی نہ ہو اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قانون کے مطابق مسئلہ بھی حل ہو جائے، اس وقت مکان کی قیمت تقربیاً پچاس سے ساٹھ لاکھ روپے تک ہے۔

جواب: صورتِ مسؤلہ میں آپ نے اپنے والد صاحب کو اپنی والدہ صاحبہ کے کہنے پر قرض یا شرکت وغیرہ کی صراحت کیے بغیر جو رقم دی ہے اس کی شرعی حیثیت ‘‘تبرع اوراحسان’’ کی ہے، اس لیے مذکورہ مکان صرف آپ کے والد صاحب ہی کی ملکیت ہے، آپ کے والد صاحب کے محض کہہ دینے سے آپ آدھے مکان کے مالک نہیں ہوں گے او راسی طرح دوسرے آدھے مکان میں آپ کے تین بھائیوں اور چار بہنوں کی بھی ملکیت ثابت نہیں ہو گی، آپ کے والد صاحب کو چاہیے کہ جس بیٹے اور بیٹی کو جتنا حصہ دینا چاہے تو وہ اس پر فروخت کردے، نیز آپ کے بھائی کا بلاوجہ والد صاحب کی زندگی میں مکان سے حصہ مانگنا ہر گز درست نہیں۔ 
 

(دارالافتا جامعہ فاروقيہ كراچي)