وہ اپنے معمول کے مطابق گھر سے نکلے اور اپنی دکان کی طرف روانہ ہوئے۔دکان تک پہنچ گئے لیکن پھر کچھ یا د آیا اور وہاں سے واپس ہوئے ۔ ایک اور دکان سے سیل خریدے اور پھر اپنی دکان کی طرف پلٹے ۔ چندہی قدم چلے تھے کہ راہ میں نصب پانی کی ایک موٹر نے ان کے پاؤں پکڑ لیے۔ وہ نہ صرف روزانہ وہاں سے گزرتے تھے بلکہ ابھی چند منٹ پہلے بھی وہیں سے گزرے تھے ۔ لیکن چونکہ وقت چند منٹ بعد کا مقرر تھا اس لیے پہلے اس موٹر نے جانے دیا لیکن جب وقت آ گیا تو اس نے ایسا پکڑا کہ جیتے جی اس سے جد ا نہ ہو سکے زندگی ہار گئی اور ’ہمیشہ کی طرح’ موت جیت گئی ۔ موت کے سافٹ ویئر میں مالک نے ہارنے والی آپشن رکھی ہی نہیں اسی لیے تو کہتے ہیں کہ موت سب سے بڑا سچ ہے اور زندگی سب سے بڑا جھوٹ ۔لیکن انسان کی کم فہمی کہ وہ عمر بھر اسی جھوٹ کو سجانے سنوارنے اور نکھارنے میں لگا رہتا ہے۔
وہ اپنے پاؤں چل کر اپنے کام پہ گئے تھے لیکن تھوڑی ہی دیر میں لوگوں کے کاندھوں پہ سوار واپس لوٹ آئے۔جس نے سنا ساکت و جامد رہ گیا۔ میری بہن کہہ رہی تھی کہ‘‘ میں نے تو انہیں گھر سے ناشتہ کروا کے کام پہ بھیجا تھا۔ موت کی سواری پہ سوار ہونے کو تو نہیں بھیجا تھا’’۔ لیکن اسے کیا معلوم کہ موت کی سواری پہ لوگ سوار نہیں ہوا کرتے بلکہ یہ ایسی سواری ہے جو خود انسانوں پہ سوار ہو جایاکرتی ہے ۔
پیشے کے اعتبار سے بھائی جان ایک گھڑی سازتھے ۔اپنے پیشے سے ان کی وابستگی عشق کی حد تک تھی ۔یہ عشق کیوں نہ ہوتا کم و بیش ساٹھ برس انہوں نے اسی محبت میں گزار دیے تھے ۔اس لیے کام سے چھٹی کرنا انہیں بہت گراں گزرتا تھا۔سردی ہو یا گرمی ’ بارش ہو یا طوفان انہیں اپنے کام پہ جانا ہوتا تھا۔ اگرچہ آج کے ڈیجیٹل دور میں کلائی گھڑیوں کی وہ افادیت اور مقبولیت نہیں رہی لیکن ہماری نسل کے وہ لوگ جو اس کے شوقین ہیں ان کے لیے بھائی جان کی دکان ایک فیورٹ جگہ تھی ۔ ان کی مہارت اور دیانت لوگوں کو دور دور سے کھینچ لاتی تھی۔ اور آج جب کہ ان کی جگہ خالی ہے تو گھڑیوں کے شائق بڑی حسرت سے ان کی دکان کی طرف دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ مجاز نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ اب ان کا خلا کوئی پر نہیں کر سکتا۔
وہ نہ صرف خود اس شعبے میں مہارت کے اعلیٰ درجے پر فائز تھے بلکہ ان کی یہ خواہش بھی ہوتی تھی کہ لوگ یہ فن سیکھ کر عوام کی خدمت کریں۔ انہوں نے اپنے بڑے بھائی کو بھی اس شعبے کا ماہر بنا دیاتھا۔ وہ لاہور میں کسی دال فیکڑی میں کام کیا کرتے تھے وہاں سے فارغ ہوئے تو جاب لیس ہو گئے بھائی جان نے انہیں ترغیب دی کہ نوکری سے کہیں بہتر ہے کہ اپنا کام کیا جائے ۔ انہیں اس پر آمادہ کر کے ان کو فیملی سمیت اپنے گھر لے آئے ۔ چھ ماہ تک نہ صرف انہیں چھت فراہم کی بلکہ کھلایا پلایا ’ کام سکھایا اور پھر ان کو کا م پہ سیٹ بھی کیا ۔ یہ کوئی آسان نہ تھا ۔ کاروبار میں خود ہی اپنا کمپیٹیٹر بنانا بڑے دل گردے کا کام ہے اور بھائی جان نے یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ نہ صرف بڑے حوصلے کے مالک تھے بلکہ اللہ پہ کامل توکل بھی رکھتے تھے۔وہ اوکاڑہ شہر میں کسی بڑی دکان یا پلازے کے مالک نہ تھے بلکہ راوی روڈ پر ہارنیاں والے چوک کے پاس حکیم ولی محمد کی دکان کے تھڑے پر بیٹھا کرتے تھے اور یہیں انہوں نے ایک مدت گزار دی تھی لیکن ان کی محنت ’ لیاقت ’ دیانت اور امانت کے صدقے اللہ نے انہیں اسی چھوٹی سی جگہ میں بے پناہ برکت عطا فرما رکھی تھی۔ وہ نہ صرف اپنے گھر کو آسودگی سے چلا رہے تھے بلکہ ادھر ادھر مددبھی کرتے رہتے تھے۔ اسی چھوٹی سی جگہ پہ کام کرتے ہوئے انہوں نے ایک بیٹے کو مکینیکل انجینر بنایا دوسرے کو اکاؤنٹنگ کی تربیت دلائی’ تیسرے کو بی کام کروایااور چوتھے کو ایم بی اے ۔ یہ انہی کی محنت اور پسینے کا صدقہ ہے کہ آ ج ماشاء اللہ ان کے سارے بیٹے اچھے شعبوں میں سیٹ ہیں۔
ان کی اس چھوٹی سی جگہ سے مجھے بھی بڑا لگاؤ تھا ۔ بچپن سے لے کر جوانی تک میرا جب بھی اوکاڑہ جانا ہوتا تو میں ان کی اس دکان پہ ضرور حاضر ہوتا اور گھنٹوں انہیں کام کرتے دیکھتا رہتا۔ ایک آنکھ پہ محدب عدسہ چڑھا کر کام کرنا میرے لیے بڑا دل چسپ منظرہوتا تھا۔ بعض اوقات تو میں صبح سویرے ہی ان کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر ان کی دکان پہ چلا آیا کرتا تھا۔اور سارا دن ان کا کام ’ لوگوں سے ان کی ڈیلنگ اور بازار کے مناظر دیکھتا رہتا تھا۔ اس زمانے میں راوی روڈ پر اتنا رش نہیں ہوتا تھا۔ بس سائیکل ’ ریڑھیاں اورریڑھے ہی چلتے تھے اور یا جرمن ٹریکٹر’ جن کی بڑی خوفناک سی آواز ہواکرتی تھی۔ کاریں اورموٹریں خال خال ہی نظر آتی تھیں۔اوکاڑہ شہر کو ریلوے لائن اور سٹیشن نے دوحصوں میں تقسیم کر رکھا ہے اور دونوں حصوں کو ملانے کے لیے ریلوے برج ہے ۔ اس برج کے دونوں طرف فقیروں کی فوج بیٹھا کرتی تھی۔ بھائی جان کبھی تو اس برج سے سائیکل اٹھا کر گزرا کرتے اور کبھی پلیٹ فارم اورریلوے لائنوں کو کراس کرتے ہوئے غلہ منڈی سے ہوتے ہوئے دکان پر پہنچتے تھے اور میں بھی میمنے کی طرح ان کے پیچھے پیچھے چلا کرتا تھا۔شام کو دکان سے واپسی پر وہ پھل لینا نہ بھولتے تھے اور جب میں ان کے گھر میں موجود ہوتا تو وہ مجھے با صرار دوسروں سے زیادہ کھلایا کرتے تھے ۔ہر فرد کے اندر اللہ نے محبت کا مادہ رکھا ہے البتہ اس کے اظہار کے طریقے اتنے ہی ہیں جتنے کہ انسان ۔ بھائی جان کا یہ اصرار ان کی محبت کا خوبصورت اظہا ر تھا۔
کوٹ نہال سنگھ سے لے کر صابری کالونی ’ صابری کالونی سے لے کر سرکی محلہ ’ سرکی محلے سے لے کر شفیق نگر اور شفیق نگر سے لے کر چک ۵۴ یہ سارے علاقے میرے ذہن پہ آج بھی ایسے ہی نقش ہیں جیسے میرا آبائی علاقہ ۔ اور اس نقش کی وجہ بھی بھائی جان تھے چونکہ ان کی رہایش ان علاقوں میں گھومتی رہی تھی اس لیے میں بھی ان کے ساتھ گھومتا رہا تھا۔
بھائی جان سے میرے بہت سے رشتے تھے قانونی طور پر تو وہ میرے برادر نسبتی تھے لیکن اصلاً وہ حقیقی بھائی کی طرح تھے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ اس بڑے بھائی کی طرح تھے جو باپ سی شفقت دیا کرتے ہیں اسی لیے وہ میری بھی اپنے بچوں کی طرح فکر کرتے تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ میں معاشی طور پر جلد از جلد اپنے پاؤں پر کھڑ ا ہو جاؤں اور اس کے لیے وہ مختلف تجاویز سوچتے رہتے تھے ۔ انہی میں سے ایک تجویز سٹیٹ لائف انشورنس سے متعارف کروانا تھا۔ وہ مجھے لے کر ایر یا مینیجر کے گھر گئے اور میں نے سٹیٹ لائف پالیسی بیچنے کا کام شروع کر دیا لیکن میرا یہ کام دو پالیسیوں سے آگے نہ بڑھ سکا کیونکہ مجھ میں اس شعبے کی صلاحیت ہی نہ تھی اور وہ دو پالیسیاں بھی وہ تھیں جو انہوں نے مجھے لے کر دی تھیں۔ پھر انہوں نے چاہا کہ میں ٹائپ اور شارٹ ہینڈ سیکھ لوں چنانچہ میں نے اس پر عمل شروع کر دیا۔اور اوکاڑہ کی گول مسجد کے پاس میں نے دو ماہ باقاعدہ اس کام کی تربیت حاصل کی ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کا دور آیا تو مجھے کی بورڈ استعمال کرنے میں کبھی کوئی مشکل پیش نہ آئی جبکہ میری نسل کے لوگ بیچارے آج بھی کی بورڈ پر ایک ہی انگلی استعمال کیا کرتے ہیں اور وہ بھی سوچ سوچ کر اور دیکھ دیکھ کر۔
اپنے کام کے علاوہ ان کی محبت کا مرکز ان کی اولاد اور بچے تھے ۔ عموماًان کی ہر بات کام سے شروع ہو کر اپنے بچوں پہ ختم ہو جاتی اور یا بچوں سے شروع ہو کر کام پہ ختم ہو جاتی تھی۔ جن بچوں کی خدمت کرتے کرتے ان کی جوان ہڈیاں بوڑھی ہو گئیں ’ قدرت نے ان بچوں کی لاج رکھی کہ ان کو یہ ضرورت ہی پیش نہ آئی کہ کوئی باپ کی خدمت کرے کہ وہ کھڑے کھڑے ہی آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
حج تو اکثر مسلمان کیا ہی کرتے ہیں لیکن بھائی جان کا حج ایک منفرد حج تھا کہ ان کے حج نے ان کی زندگی کو بدل دیا تھا ۔ رجوع الی اللہ اور عبادات میں ان کا شغف بہت بڑھ گیا تھا اور یہ یقینا اس بات کی علامت تھی کہ اللہ نے ان کا حج قبول کر لیا ہے اور یہ قبولیت بھی کسی کسی کے حصے میں ہی آیا کرتی ہے۔
ان کی زندگی کے آخری دور میں وقت نے
ہمارے درمیان ایک دیوار حائل کر دی تھی میں نے بارہا کوشش کی کہ غلط فہمی کی اس دیوار کے اُس پار جا سکوں ۔اگرچہ بعض اپنوں کی مہربانی سے یہ تو نہ ہو سکا لیکن واللہ زندگی کے ان سالوں میں بھی میرے دل میں ان کی محبت عزت اور قدرو منزلت میں کوئی فرق نہ آنے پایا۔ اللہ کریم ان کی سیئات سے در گزر فرمائے ’ ان کی حسنات کو قبول فرمائے اورجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے۔
انہیں سپر د خاک کرتے ہوئے میں د ل ہی دل میں کہہ رہاتھا کہ اچھا بھائی جان خدا حافظ ’ آج ایک رحیم و کریم ہستی سے ملنے کا دن ہے۔ بچہ جب تک شکم مادر میں ہوتا ہے وہ ماں سے مل نہیں سکتا اگرچہ اس کی ہستی ماں کے وجو د سے ہی قائم ہوتی ہے لیکن جونہی بچہ بطن مادر سے باہر آتا ہے اس کی نہ صرف ماں سے ملاقات ہوجاتی ہے بلکہ وہ ماں کی آغوش میں بھی آ جاتا ہے۔ اسی طرح بھائی جان !آپ بھی شکم دنیا سے باہر نکل گئے ہیں اس لیے آج نہ صرف آپ کی اپنے مالک سے ملاقات ہو گئی ہو گی بلکہ آپ اس کی آغوش ِرحمت میں بھی آ گئے ہوں گے۔ حق اور سچ یہی ہے کہ آج آپ رب سے جا ملے ہیں کل ہم ملنے والے ہیں اللہ کریم ہم سب کو جنت الفردوس میں اکٹھا
فرمائے۔