تقسیم ملک سے پہلے کانگریس اور مسلم لیگ دونوں نے اپنے اپنے پروگرام دیئے تھے جن میں معاشی پروگرام کو بہت اہمیت حاصل تھی۔کانگریس نے اعلان کر دیا تھا کہ وہ بھارت کی آزادی کے بعد جاگیردارانہ نظام ختم کر دے گی اور تمام جاگیریں سرکاری تحویل میں لے لی جائیں گی۔دوسری طرف مسلم لیگ نے جاگیروں کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی دی. اس کا قدرتی نتیجہ یہ ہوا کہ سندھ اور جنوبی پنجاب کے اکثر جاگیر دار اور پیر جو پچھلی ایک صدی سے انگریزوں کے ہراول دستے میں تھے مسلم لیگ کی گود میں آ بیٹھے اور آج تک ان کی چوتھی پانچوں نسل مسلسل برسر اقتدار ہے۔جاگیرداری نظام ہمیشہ تبدیلی قبول کرنے سے احتراز کرتا ہے اور اس کوشش میں رہتا ہے کہ ملک و قوم میں شعور بیدار نہ ہو تاکہ انہیں بے مزد ہاری اور مزارع ملتے رہیں۔ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ جاگیرداری کے حق میں کئی ثقہ علماء سے کتابیں اور لٹریچر تیار کروا گیا۔مولانا ظفر احمد عثمانی نے مولانا مناظر احسن گیلانی کی تالیف کے جواب میں جو لکھا اس پر تو مجھے حیرت نہیں ہوتی کہ وہ مسلم لیگ کا سیاسی موقف تھا جسے مذہبی دلائل سے مبرہن کیا گیا البتہ مجھے مولانا مودودی کے ملکیت زمین اور اس کے سیاسی اثرات دیکھتے ہوئے ہمیشہ دکھ ہوا کہ مولانا شاید کمیونزم کی کارروائیوں سے اس قدر شدید متاثر ہوئے کہ ایک طرف اسلامی انقلاب کے لئے انہوں نے اپنی تحریک کا داخلی سٹرکچر کمیونسٹ پارٹی سے لیا، غالباً انہیں اندازہ تھا کہ پاکستان میں جمہور کبھی اسلام کے حق میں اکثریتی ووٹ نہیں دیں گے اس لیے اسی طریقے سے انقلاب لانا ہوگا جبکہ دوسری طرف وہ کمیونزم کے مظالم سے اس حد تک خوف زدہ تھے کہ انہوں نے ردعمل کے طور پر اسلام کے جس معاشی نظام کو زبان دی اس سے جاگیرداری اور سرمایہ دارانہ نظام کو استحکام ملاجبکہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، مولانا عبیداللہ سندھی اور مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی کا اسلامی اقتصاد کا ورژن بہت مختلف تھا۔مجھے مولانا مودودی کی نیت کے بجائے ان کے اندازے کے نادرست ہونے کا احساس ہوتا ہے۔مولانا مودودی کو میں نے قریب سے دیکھا ہے وہ دانش مند شخصیت تھے دیگر مذہبی شخصیات کے برعکس انہیں حضرت اور حضور والا کی رشوت کے ذریعے اپنے سانچے میں نہیں ڈھالا جا سکتا تھا اور نہ انہیں کسی بھی قیمت پر خریدا جا سکتا تھا۔اس کے بعد پاکستان میں وقتا فوقتاً زرعی اصلاحات کا شور اٹھتا رہا اور گاہے گاہے قانون سازی بھی ہوتی رہی لیکن نہ صرف یہ کہ جاگیردارانہ نظام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی بلکہ اسی نظام کے ساتھ زرعی انڈسٹری پروان چڑھنے لگی اور امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا چلا گیا۔زرعی شعبے کے اجارہ داروں نے حالات کا رخ دیکھتے ہوئے صنعت و حرفت میں بھی پاؤں جما لئیے اور مکمل سرمایہ دارانہ نظام معیشت جس میں بنک ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں اس ملک کا مقدر ٹھہرا۔اس نظام میں واحد رکاوٹ سودی بنکاری نظام کے غیر اسلامی ہونے کا فتویٰ تھی۔اسلامی بنکاری کی موجودشکل جس میں مارک اپ کی شرح مروج سود کی طرح libor یا kibor سے منسلک ہے اس کا ''حلالہ'' کر کے اسے مشرف بإسلام کرنے کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کی آخری اسلامی رکاوٹ بھی دور ہو گئی. اسلامی بنکاری اس قدر اسلامی ہے کہ ایک معاصر ماہر معاشیات محمد انور عباسی نے اپنی تالیف بنک انٹرسٹ، منافع یا ربا میں بہت تفصیل سے بتایا ہے کہ کمرشل بینکوں کے سود اور اسلامی بنکاری کے منافع میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔اگرچہ ہمیں ان کے ان نتائج سے اتفاق نہیں کہ کمرشل بینکوں کا سود بھی منافع ہے اور حلال ہے تاہم ان کی اس بات میں وزن ہے کہ دونوں میں کوئی فرق نہیں. ہمارے خیال میں دونوں اسلام کے معاشی نظام کی ان اساسیات سے متصادم ہیں جو قرآن نے جابجا بیان کئے ہیں.یہ بہت طویل بحث ہے۔تاہم ہمارے خیال میں اسلامی بنکاری پاکستان کی تخلیق ہے نہ تحقیق۔یہ کاوش ان 8_10خاندانوں کی ہے دنیا بھر میں موجود 80%اثاثوں کے مالک ہیں انہوں نے عرب علماء کرام کی خدمات حاصل کیں تاکہ مسلمانوں کاسرمایہ بنکنگ سسٹم میں شامل کیا جاسکے دوسرے مسلم اہل علم شروع میں نیک نیتی سے شامل ہوئے بعد میں بوجوہ اس دلدل میں پھنستے چلے گئے. اس کو سپورٹ کرنے والی وہ قوتیں ہیں جو ساری دنیا کے تمام مادی سسٹم کو چلا رہی ہیں اس لیے اسے کوئی نہیں روک سکتا۔اگر اس سسٹم میں سرمایہ دولۃ بین الأغنیاء ہے تو ناجائز ہے اور اگر دولت کا بہاؤ اہل حاجت کی طرف ہے تو جائز ہے۔جن لوگوں نے دیانت داری سے اقتصادیات کی مہارت کی روشنی میں متبادل نظام دیا تھا مثلا نجات اللہ صدیقی وغیرہ انہیں اس سے باہر رکھا گیا کیونکہ وہ اسلام اور اقتصاد دونوں کے ماہر تھے۔سسٹم کو مشرف باسلام کرنے کے لیے دنیا بھر سے فقہی بازی گری کی خدمات حاصل کی گئیں اور چلانے کے لیے پرانے بنکار ہی قدیم ڈگر پر کام کر رہے ہیں۔
اسلامی بنکاری میں الفاظ کی جادو گری اور عربی اصطلاحات کی کہکشاں سجا کر یہ تاثر دیا گیا کہ یہ اسلامی نظام معیشت کا حصہ ہے جبکہ اسلامی شریعت میں الفاظ کا اعتبار نہیں ہوتا بلکہ حقائق کا اعتبار ہوتا ہے۔
مختلف اشیاء یا افعال میں شریعت کے حکم شرعی کا تعلق ان اشیاء کی حقیقت سے ہوتا ہے ان کے ناموں سے نہیں۔قرآن نے منہ بولا بیٹا بنانے کی ممانعت کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ جنہیں تم نے منہ بولے بیٹے بنا لیا ہے تمہارے بیٹے نہیں ہیں بلکہ کسی اور کے بیٹے ہیں ان کا نام یا تعلق کا عنوان تبدیل کر دینے سے احکام شرعیہ تبدیل نہیں ہوتے. وہ حقیقی اولاد نہیں ہو جاتے نہ اس رشتے کی وجہ سے محرم ہوجاتے ہیں اور نہ وارث ہو سکتے ہیں۔اس طرح نسی کی رسم تھی کہ قمری سال کو شمسی سال سے ہم آہنگ کرنے کے لئے کبھی ایک اور کبھی دو ماہ کا اضافہ کر دیتے تھے یا اشہر حرم کو اپنی جگہ سے تبدیل کر دیتے یعنی کسی حرمت والے مہینے کو کسی دوسرے مہینے سے بدلنے کا اعلان کر دیتے ان تمام امور کی قرآن میں ممانعت کردی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت شدت سے ممانعت فرماتے ہوئے بتایا کہ میری امت کے کچھ لوگ شراب کا نام بدل کر اسے حلال قرار دے کر پینے لگ جائیں گے جبکہ نام بدلنے سے وہ حلال نہیں ہو جائے گی۔امام مالک سے جب ایک سمندری مچھلی جو سور سے ملتی ہے، کی حلت و حرمت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس کا نام خنزیر تم نے رکھ دیا ہے، اللہ نے اسے حرام نہیں قرار دیا۔کسی بھی حرام شے کا نام بدل کر اسے حلال نہیں قرار دیا جاسکتا اسی طرح کسی حلال شے کا نام بدل کر اسے حرام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
بدلے کی وہ شادیاں جن میں دوطرفہ مہر مقرر کیا گیا ہو نکاح شغار نہیں بلکہ وہ نکاح شغار جس کی ممانعت ہے یہ ہے کہ ایک خاتون کے بدلے میں دوسری خاتون سے نکاح کیا جائے اور یہی مبادلہ مہر ہو۔
مالکیہ نے اس سلسلے میں کئی مالی معاملات کا حوالہ بھی دیا مثلاً وہ کہتے ہیں کہ جس صدقہ میں واپسی کا حق رکھا گیا ہو وہ صدقہ نہیں ہبہ ہوگا اور اگر کسی نے عطیہ میں یہ شرط رکھی کہ میرے مرنے کے بعد تم اس میں تصرف کر سکو گے تو یہ عطیہ نہیں وصیت ہے۔اگر کوئی شخص اپنی بیٹی کے بارے میں کسی سے کہے کہ میں نے یہ تجھے اتنے مہر کے بدلے ہبہ کر دی تو یہ ہبہ نہیں نکاح ہوگا پس الفاظ کے بدلنے سے شرعی حکم نہیں بدلتا۔شریعت مقاصد کو دیکھتی ہے، نام اور عنوان کو نہیں.
کیا شریعت کا یہ اصول اسلامی بنکاری کی اصطلاحات پر لاگو نہیں ہوتا۔
غیر سودی بنکاری میں فنانسنگ (تورق)
حکومت مثلاً ایک سڑک کی مرمت کرنا چاھتی ھے۔اس کے لئے فنڈز چاھئے ۔ پہلے جب حکومت کو فنڈز کی ضرورت ہوتی تو وہ بنکوں سے سود پر قرض لے کر سڑک بنا لیتی تھی۔اب اسلامی بنکاری کے زیر سایہ حکومت ایک کمپنی S P Vسپیشل پرپز وھیکلز بناکر اسے رجسٹرڈ کرواتی ھے یہ کمپنی دو ایک بندوں پر مشتمل ہوتی ھے۔یہ حکومت کی وکیل ہوتی ھے۔حکومت وہ سڑک کمپنی کو منتقل کر دیتی ھے اور کمپنی اسے فروخت کرنے کے لئے حکومت کی وکیل ہوتی ھے۔اس کے لئے کمپنی صکوک جاری کرتی ھے جو بنک خریدتے ھیں۔اب بنک جو Investers ہیں اس سڑک کے مشترکہ مالک ہیں لیکن اس کے لئے بیع نامہ نہیں ھوتا۔اب وہی کمپنی Investers کی وکیل ہوجاتی ھے اور انکی طرف سے سڑک متعین مدت کے لئے حکومت کو کرائے پر دے دیتی ھے۔یہ کرایہ شرح سود کے برابر ہوتا ھے اور بنکوں کو جاتا ھے۔مدت کرایہ داری کی تکمیل تک سڑک مکمل ہو چکی ہوتی ھے اور حکومت صکوک واپس لے کر ان کی قیمت ادا کردیتی ھے۔ان دونوں صورتوں میں سوائے اس کے کہ بیچ میں کچھ ایجنٹ آ گئے ھیں کوئی فرق نہیں ھے۔ حرام کو حلال کرنے کا حیلہ کیا گیا ھے ورنہ دونوں جگہ کا ما حصل ایک ھے کہ بنک فنڈز مہیا کرتے ہیں اور حکومت اس پر اضافہ دیتی ھے ایک کا نام Intrest اور دوسرے کا کرایہ ھے۔
مفتی محمد شفیع رح لکھتے ھیں
حیلے اسی وقت جائز ھوتے ھیں جب انہیں شرعی مقاصد کے ابطال کا ذریعہ نہ بنایا جائے اگر حیلہ کا مقصد یہ ھو کہ کسی صریح فعل حرام کواس کی روح برقرار رکھتے ھوئے اپنے لئے حلال کر لیا جائے تو ایسا حیلہ بالکل ناجائز ھے۔ چونکہ مقاصد شرعیہ کو باطل کرنے کی کوشش ھے اس لئے اس کا وبال شایدزیادہ بڑا ھو۔(معارف القرآن 7=523
اسلامی بنکاری میں جسے التزام تصدق کہا جاتا ہے اصل میں وہ الزام صدقہ ہے جس کا اختیار صرف شارع کے پاس ہے. نہ معلوم شرک کس کا نام ہے؟
سنا ھے اسلامی بنکاری نے ایک نئی ٹرانزیکشن متعارف کروائی ھے۔کرنسی سلم. بیع سلم کے معاہدے کے تحت بنک آپ کو دس لاکھ کی کرنسی دے گا اور ایک سال بعد آپ مال سلم کے طور پر بنک کو 12 لاکھ کرنسی سپلائی کریں گے۔یہ سود نہیں بلکہ مرابحہ کی طرح کی ایک جائز بیع ھے بیع سلم۔راوی ثقہ ھے نہ معلوم روایت کس درجے کی ھے۔
اسلامی بنکاری پر تبصرہ کرتے ہوئے حمزہ صیاد کا ایک جملہ ہے جو پوری لائبریری اپنے اندر سموئے ہے۔
اسلامی بینکاری سے اس(سرمایہ دارانہ بنکاری) نظام کو جو اخلاقی سپورٹ ملی ہے وہ سرمایہ داروں کے لیے ان پیسوں اور ڈالروں سے بھی زیادہ اہم ہے۔اسلامی بنکاری کا جو سب سے بڑا نقصان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ یہ تصور ذہن سے محو ہو جائے گا کہ
اسلام کا ایک اپنا اور الگ معاشی نظام ہے جو سرمایہ داری اور سوشلزم سے یکسر الگ ہے۔کاش جماعت اسلامی مولانا مودودی کے نقطہ نظر کا احترام کرتی۔