۴احادیث کے متعلق اکابر صحابہ کا یہ مسلک معلوم ہے کہ وہ ان کو کثرت سے روایت کرنے اور عمومی دینی تعلیم کا حصہ بنانے کے خلاف تھے۔ دیگر اسباب کے علاوہ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بات کسی خاص موقع پر اور خاص تناظر میں ارشاد فرمائی، اس کو ملحوظ رکھنا حدیث کی مراد اور مطلب کے تعین میں ضروری ہوتا ہے، جبکہ کثرت روایت کی صورت میں یہ پہلو نظر انداز ہو جاتا ہے اور جب مختلف ذہنی سطح کے لوگ بات کو سنتے ہیں تو کئی قسم کی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
احادیث کی مراد ومفہوم میں اسی نزاکت کی وجہ سے اکابر صحابہ ان کی عمومی روایت کے خلاف تھے۔ اسی لیے تدوین حدیث کے بعد محدثین اور فقہاء کو جمع شدہ احادیث کا مفہوم اور ان کا موقع ومحل واضح کرنے کے لیے بہت محنت کرنا پڑی اور شروح الحدیث کا ایک وسیع ذخیرہ اسلامی علمی روایت میں شامل ہوا۔
جدید دور میں دینی مصادر تک، اہل علم کے علاوہ عام لوگوں اور جدید تعلیم یافتہ طبقوں کی رسائی سے ملے جلے مثبت اور منفی نتائج سامنے آئے ہیں۔ ان میں ایک پہلو بعینہ یہی تھا کہ کسی حدیث کی مراد اور مطلب کو کیسے سمجھا جائے۔ بہت سے اہل علم نے جو علم حدیث کی نزاکتوں اور اس کے pitfalls سے واقف ہیں، عام لوگوں کو منع کیا کہ وہ کتب حدیث کا براہ راست مطالعہ نہ کریں۔ اس مشورے میں، یہ بدگمانی کی جا سکتی ہے کہ علمی اجارہ داری کی ذہنیت کارفرما تھی، لیکن ہمارے خیال میں اس کا وہ پہلو بھی نظر انداز کرنے قابل نہیں جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔بہرحال، ذخیرہ حدیث کی بہت سی روایات پر جدید دور میں سامنے آنے والے اشکالات واعتراضات میں یہ بنیادی کمزوری صاف نظر آتی ہے کہ حدیث کے درست موقع ومحل اور مجموعی ذخیرہ حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے مفہوم متعین کرنے کے بجائے کسی ایک حدیث کے الفاظ کو ایسا مفہوم پہنا کر اعتراض یا اشکال وارد کر دیا جاتا ہے جو تعبیر وتشریح کی علمی شرائط کو پورا نہیں کرتا۔ یہ انداز استدلال ہمارے ہاں بعض ایسے حضرات نے بھی اختیار کیا جو ذخیرہ حدیث کے مجموعی استناد کو مشتبہ سمجھتے ہیں، لیکن بہت سے ایسے حضرات بھی اس طریق استدلال کی پیروی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن کے خیال میں اسلام کی بہت سی تعلیمات جدید دور کے معروف ومسلم اخلاقی معیارات سے متصادم ہیں اور وہ مثال کے طور پر مختلف احادیث پیش کر کے اپنا یہ مقدمہ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک دو مثالوں سے اس انداز استدلال کی بہتر وضاحت ہو سکے گی۔
مثال کے طور پر ہم درج ذیل چند احادیث کو سامنے رکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ایک خاص ذہنی سانچے میں، ان کی بنیاد پر اسلام کی اخلاقی تعلیمات یا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاقی رویے پر کیسے سوال یا اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔
1- حضرت عائشہؓ کی ملکیت میں ایک غلام اور ایک باندی تھی جو دونوں میاں بیوی تھے۔ سیدہ نے ان دونوں کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ غلام کو پہلے آزاد کریں اور باندی کو بعد میں۔ (سنن النسائی الکبری، حدیث نمبر 4915)
(اسلام میں ضابطہ یہ مقرر کیا گیا تھا کہ اگر مالک نے اپنی باندی کا نکاح کسی غلام سے کیا ہو اور پھر اسے آزاد کر دے تو آزاد ہونے پر باندی کو اختیار ہوگا کہ وہ چاہے تو اپنے شوہر کے نکاح میں رہے اور چاہے تو نکاح فسخ کر دے- مذکورہ واقعہ میں شوہر کے، پہلے آزاد ہو جانے کی وجہ سے بیوی نکاح فسخ کرنے کے اختیار سے محروم رہ گئی۔)
2- ایک صحابی نے وصیت کی کہ ان کے مرنے کے بعد وہ چھ غلام جو ان کی ملکیت میں ہیں، آزاد کر دیے جائیں۔ ان غلاموں کے علاوہ ان کا کوئی اور مال نہیں تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اس فیصلے کو کالعدم کر دیا اور چھ میں سے صرف دو غلاموں کو قرعہ اندازی کر کے آزاد قرار دیا، جبکہ باقی چار کو ان کے ورثا کی ملکیت میں دے دیا اور وصیت کرنے والے کے متعلق سخت تبصرہ فرمایا۔ (مسند احمد، حدیث نمبر 19381)
3- حضرت علیؓ نے، ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کا ارادہ کیا تو سیدہ فاطمہؓ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ آپ نے اس پر سخت ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا کہ میری بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک آدمی کے نکاح میں جمع نہیں ہو سکتیں۔ (مسند احمد، حدیث نمبر 15787)
4- ایک مخنث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کے پاس آتا جاتا تھا۔ اس نے بعض خواتین کے جسمانی محاسن کا ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے، اپنے گھروں میں آنے پر پابندی لگا دی۔ (موطا امام مالک، حدیث نمبر 1407) بعض روایات کے مطابق اس کو مدینہ سے باہر ایک آبادی میں بھیج دیا گیا اور پابند کیا گیا کہ وہ کھانے پینے کا سامان لوگوں سے مانگنے کے لیے ہفتے میں ایک یا دو دفعہ مدینہ میں آ جایا کرے، اور پھر واپس چلا جائے۔
5- ایک صحابی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی چچا زاد سے نکاح کے متعلق مشورہ طلب کیا جو خوب صورت تھی، لیکن بانجھ تھی اور اولاد پیدا نہیں کر سکتی تھی۔ آپ نے ان کے بار بار پوچھنے پر بھی ان کو اس کا مشورہ نہیں دیا، بلکہ فرمایا کہ کسی کالے رنگ کی عورت سے جو بچے جن سکتی ہو، نکاح کرنا بہتر ہے کیونکہ قیامت کے دن میں اپنی امت کی کثرت پر فخر جتاوں گا۔ (مصنف عبد الرزاق، حدیث نمبر 10098)
جن احادیث کا ذکر کیا گیا، ان کا جدید دور کی بعض اہم حساسیتوں کے ساتھ تعلق ہے، یعنی فرد کی تکریم اور سماج کے کمزور اور محروم طبقوں کا تحفظ۔ یہ دونوں قدریں اسلام کے نظام اخلاق کا بھی حصہ ہیں، تاہم مجموعی نظام اخلاق میں ان کی حیثیت اور دیگر اخلاقی قدروں کے ساتھ ان کے تعلق کے ضمن میں اسلام اور جدید تہذیب کے مابین اہم اور جوہری فروق موجود ہیں۔
ان اصولی اور نظری فروق کو مدنظر رکھتے ہوئے دونوں نظام ہائے اخلاق کا تقابل کیا جائے تو یہ ایک علمی اور تہذیبی بحث بنتی ہے۔ تاہم علمی تقابل کی ضروری شرائط کو پس پشت ڈال کر جدید تہذیبی حساسیت کو ایک معیار مان لیا جائے اور اس کے ساتھ احادیث میں منقول کسی واقعے یا قول وعمل کے پورے سیاق کو بھی نظر انداز کر کے صرف اس خاص پہلو پر ارتکاز کیا جائے جو جدید ذہن کے لیے، نہایت طاقتور نفسیاتی conditioning کی وجہ سے، باعث توحش ہے تو طرز استدلال کا وہ خاص نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے جس پر یہاں گفتگو کی جا رہی ہے۔
اس پس منظر میں آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ زیر بحث انداز فکر میں کسی باندی کے ایک قانونی اختیار میں رکاوٹ پیدا کرنا اور آزاد شدہ غلاموں کی آزادی کو رد کر دینا کیسے ''غلاموں پر ظلم'' قرار پاتا ہے، دشمن کی بیٹی کے اپنی بیٹی کی سوکن بننے پر اعتراض کیسے ''دوہرا اخلاقی معیار'' بن جاتا ہے، مخنث کو آبادی سے دور بھیج دینا کیسے اس طبقے کو marginalize کرنے کی مثال باور کیا جاتا ہے اور بانجھ عورت سے نکاح نہ کرنے کا مشورہ کیسے خواتین کے انفرادی حقوق اور تکریم کی نفی قرار پاتا ہے۔ اس انداز نظر کے ساتھ مذہب سے عمومی تنفر یا الحاد کا تڑکا بھی شامل ہو جائے تو اس نوعیت کی مثالیں اسلام کی اخلاقی تنقید کے ایک ہتھیار کی حیثیت بھی اختیار کر لیتی ہیں۔
اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مذکورہ احادیث کا مفہوم اور سیاق وسباق کیا ہے اور اسلام کے اپنے نظام اخلاق میں ان کی تفہیم کیسے کی جا سکتی ہے۔
1، 2- غلاموں کو آزاد کرنا اسلام کی سماجی اصلاحات کا ایک بنیادی حصہ تھا اور اس ضمن میں کیے گئے اقدامات معلوم و متعارف ہیں۔ تاہم پہلے سے موجود غلامی کے ادارے کو قانونی طور پر کلیتاً کالعدم نہیں کیا گیا۔ اسی طرح قانونی اصولوں یا اصلاحات میں غلاموں کی ہر حال میں اور ہر قیمت پر آزادی اہم ترین ترجیح نہیں تھی، بلکہ دوسرے سماجی یا انفرادی مصالح کی بھی پوری رعایت ملحوظ رکھی گئی۔ چنانچہ جس صحابی کے پاس چھ غلاموں کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا، اس کی طرف سے ان سب کی آزادی کے فیصلے کو قانوناً نافذ نہیں کیا گیا، بلکہ ورثا کے حق کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف ایک تہائی ورثے میں اس کی وصیت کو نافذ کیا گیا۔ اسی طرح آزادی سے بہرہ مند ہونے والی باندیوں کو اصولاً فسخ نکاح کا حق دیا گیا، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی خاص مقدمے میں باندی کو یہ اختیار ملنا قرین مصلحت ہے یا نہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے بلوغت کو پہنچنے والے ہر فرد کو اس کے اپنے مال پر اختیار دینے کے بجائے قرآن نے یہ ہدایت کی ہے کہ جب وہ مالی معاملات میں سمجھ بوجھ پیدا کر لیں تو تبھی ان کو اپنے مال کا مختار بنایا جائے۔ سیدہ عائشہؓ کی مثال میں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی ہی کسی مصلحت کے پیش نظر انھیں تجویز دی کہ وہ شوہر کو پہلے اور بیوی کو بعد میں آزاد کریں تاکہ بیوی، فسخ نکاح کا اختیار استعمال نہ کر سکے۔ یہ واضح رہے کہ باندیوں کے لیے فسخ نکاح کا اختیار اسلام نے ہی متعارف کروایا تھا، جاہلی معاشرت میں ایسا کوئی تصور پہلے سے موجود نہیں تھا۔ اگر باندیوں کو اس حق سے عموماً محروم رکھنا مقصود ہوتا تو سرے سے انھیں یہ اختیار دیا ہی نہ جاتا۔
3- سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ ابو جہل کی بیٹی کے، سیدنا علیؓ کے نکاح میں یکجا ہونے پر اعتراض ایک عام اور بالکل جائز انسانی جذبے کی رعایت سے تھا۔ یہاں نہ تو ‘‘دشمن کی بیٹی ’’سے نکاح پر اعتراض کیا گیا، نہ اس کے ساتھ نکاح کرنے سے عموماً مسلمانوں کو روکا گیا اور نہ یہ کہا گیا کہ فاطمہ کے ہوتے ہوئے علی، کسی دوسری عورت سے شادی نہیں کر سکتے۔ اس میں ایک دشمن کی موت کے بعد اس کی اولاد سے انتقام لینے کا جذبہ بھی ہرگز موجود نہیں تھا۔ ابوجہل کا بیٹا عکرمہ فتح مکہ کے موقع پر خوف سے مکہ سے فرار ہو گیا تھا، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف غائبانہ امان دے کر اسے مکہ واپس آنے کی اجازت دی، بلکہ مسلمانوں کو اس سے بھی منع فرما دیا کہ اب وہ ابوجہل کو برا بھلا نہ کہا کریں کیونکہ اس سے اس کے خاندان کے لوگوں کو اذیت پہنچتی ہے۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ سیدہ فاطمہ نے مکی دور میں ابوجہل کی طرف سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا براہ راست مشاہدہ اور تجربہ کیا تھا اور اس مجوزہ نکاح کی صورت میں ان تلخ یادوں کا دوبارہ ان کے ذہن میں تازہ ہو جانا شدید تکلیف کا باعث ہوتا۔ اسی لیے انھوں نے خاص اس نکاح پر اعتراض کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی۔ اس کی نظیر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ فرمائش ہے جو بعض تاریخی روایات کے مطابق آپ نے سیدنا حمزہؓ کے قاتل، وحشی بن حرب سے کی تھی کہ وہ مدینے سے باہر کہیں رہائش اختیار کر لے، کیونکہ اس کو دیکھنے سے آپ کے دل میں اپنے شہید چچا کا غم تازہ ہو جاتا ہے۔
4- جس مخنث کو گھروں میں آنے سے جانے روک دیا گیا اور بعد میں اسے مدینہ سے باہر کسی دوسری آبادی کی طرف بھیج دیا گیا، اس کی وجہ روایات میں بالکل واضح بیان ہوئی ہے اور وہ یہ نہیں ہے کہ وہ مخنث تھا، بلکہ یہ ہے کہ وہ خواتین کے جسمانی محاسن کا جائزہ لے کر ان کی تشہیر کرتا تھا۔ ابتداءً اس کو ازواج مطہرات کے ہاں آنے جانے کی اجازت تھی، لیکن ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنا کہ وہ طائف کی ایک باندی کے جسمانی محاسن بیان کر رہا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ میں سمجھتا تھا کہ ان مخنث لوگوں کو ایسی صنفی باتوں میں دلچسپی نہیں ہوتی، لیکن یہ تو ایسی باتوں کو پوری طرح سمجھتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس کے، اپنی ازواج کے حجروں میں آنے پر پابندی لگا دی، کیونکہ اس قماش کے افراد کی یہ عادت معلوم ہے کہ وہ گھروں میں دیکھی ہوئی باتوں کا افشا کرنے میں خاص دلچسپی رکھتے ہیں۔
قرآن نے گھروں کی پرائیویسی کی حفاظت کے لیے یہ ہدایت اسی تناظر میں فرمائی تھی کہ گھروں میں آنے جانے والی خواتین بھی وہی ہونی چاہییں جو بااعتماد اور راز رکھنے والی ہوں۔ (نساۂن) بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ اس مخنث کی ایسی ہی حرکتوں یا شکایتوں کی وجہ سے اس کو مدینہ سے باہر بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا جو اسلامی تعزیرات کے عمومی ضابطے یعنی علاقہ بدر کر نے کے تحت تھا۔ خلاصہ یہ کہ اس اقدام کی بنیاد نہ اس کا مخنث ہونا تھا اور نہ مخنثوں کے متعلق ایسی کوئی عمومی تعلیم اسلام میں دی گئی ہے کہ انھیں عام آبادی سے الگ اور دور رکھا جائے۔ یہ ایک انفرادی قضیہ تھا جس میں ایک شخص کی عادات اور اطوار کے تناظر میں یہ احتیاطی تدبیر اختیار کی گئی اور مدینہ منورہ میں منافقین کی طرف سے مسلمانوں کی خواتین او رخصوصاً ازواج مطہرات سے متعلق فتنہ پردازی اور اخلاقی اسکینڈل کھڑے کرنے کا جو عمومی فتنہ برپا تھا، وہ ایسے احتیاطی اقدامات کو مزید جواز فراہم کرتا تھا۔جہاں تک اس اعتراض کا تعلق ہے کہ خواتین کے جسمانی محاسن کا ذکر تو خود خواتین بھی آپس میں کرتی رہتی ہیں تو ایسی خواتین کو کیوں علاقہ بدر کرنے کی سزا نہیں دی گئی؟ تو یہ اعتراض بھی اسی نکتہ چینی کے ذہنی رویے سے پیدا ہوتا ہے جو دراصل کوئی نہ کوئی وجہ اعتراض ڈھونڈنا ہی چاہتی ہے۔ علاقہ بدر کرنے کی سزا کی بنیادی حکمت یہ ہے کہ کسی شخص کے شر یا فتنے سے اس ماحول کو محفوظ بنایا جائے جہاں اس کا فتنہ موثر ہو سکتا ہے۔ ایسے افراد اپنی سماجی پوزیشن اور دائرہ کار کے لحاظ سے ایک جیسے نہیں ہوتے، اس لیے ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے کئی پہلووں کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ مخنث لوگ یا غلام اور باندیاں سماج کا ایسا طبقہ تھا جو مستقل خاندانی رشتے نہیں رکھتا تھا، لیکن سماج میں ان کا کردار متحرک ہوتا تھا، یعنی اسے کسی محفوظ جگہ پر رہنے کا پابند نہیں کیا جا سکتا تھا۔ گھریلو خواتین کا معاملہ یہ نہیں تھا۔ وہ باقاعدہ خاندانی نظام کا حصہ تھیں اور اس سے ان کو الگ کر کے کسی دوسری جگہ بھیج دینا مزید فساد او رخرابی کا موجب ہوتا۔ اس تناظر میں گھریلو خواتین کے کسی ممکنہ شر وفساد کے دفعیہ کے لیے مختلف صورتوں میں ان پر نظر رکھنے اور ان کی نقل وحرکت کو محدود کر دینے کا طریقہ اختیار کیا گیا، جبکہ مخنثین اور غلاموں اور باندیوں کی سماجی پوزیشن مختلف ہونے کی وجہ سے یہ آپشن بھی کھلا رکھا گیا کہ بوقت ضرورت انھیں اس علاقے سے دور بھیج دیا جائے۔یہ ایک عملی اور انتظامی حکمت کا مسئلہ ہے۔ جدید اخلاقی حساسیت کا یا مذہب کو اخلاقی تنقید کی سان پر کسا ہوا دیکھنے کی خواہش مند ذہنیت کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ صورت حال کی مجموعی تفہیم کے بجائے صرف اس خاص جزوی پہلو کو بنیاد بنانا چاہتی ہے جو اس کے مقصد کے لیے مفید اور مددگار ہو۔
اس سلسلے میں دو مزید اعتراضات کو بھی دیکھ لینا مناسب ہے۔
پہلا یہ کہ مخنث کو علاقہ بدر کرنے کا واقعہ کوئی انفرادی واقعہ نہیں، بلکہ دو تین اور مخنثین کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیے جانے کا ذکر عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے دور میں ملتا ہے۔ پھر یہ کہ ان میں سے عہد نبوی میں جس مخنث کو علاقہ بدر کیا گیا، اس کا گزر بسر مانگنے تانگنے پر منحصر رہ گیا تھا اور وہ کچھ دنوں کے بعد مدینہ آ کر گزر أوقات کے لیے سوال کر لیتا تھا اور پھر واپس چلا جاتا تھا۔
دوسرا یہ کہ خواتین کے جسمانی محاسن کا ذکر تو عہد نبوی میں مرد بھی کرتے تھے،بلکہ جن باندیوں کی خرید وفروخت میں جنسی تعلق کا مقصد بھی شامل ہوتا تھا، ان کے جسمانی محاسن کا باقاعدہ جائزہ بھی لیا جاتا تھا تو ایسے مردوں کو کیوں جلا وطنی یا علاقہ بدر کرنے کی سزا نہیں دی گئی؟
معمولی غورسے معلوم ہوگا کہ ان دو اعتراضات میں بھی معاملہ نافہمی کا مسئلہ بدستور موجود ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک ‘‘انفرادی’’واقعہ ہے اور اسلام کا کوئی عمومی حکم نہیں ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ مخنثین کے متعلق بطور ایک طبقے کے ایسا کوئی حکم یا پالیسی مقرر نہیں کی گئی کہ وہ عام آبادی کے ساتھ نہیں رہ سکتے یا معاشرے میں معمول کی زندگی بسر نہیں کر سکتے یا ان کے لیے مانگنا تانگنا ہی واحد راستہ ہے۔ انفرادی مسئلے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ایک مثال کی طرح کی کوئی دوسری مثال نہیں ہو سکتی۔ بالکل ہو سکتی ہیں، لیکن دو تین یا چار پانچ جتنی بھی مثالیں ہوں، وہ اسی أصول کے تحت ہوں گی کہ جن افراد کے کردار یا عادات سے کوئی مفسدہ پیدا ہوتا ہو، ان کو تعزیراً علاقہ بدر کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بالکل مختلف بات ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اسلام مخنثوں کے متعلق یہ عمومی ہدایت دیتا ہے کہ ان کو لازماً آبادی سے الگ تھلگ ہی رکھا جائے، بالکل مختلف بات ہے اور اس استنتاج کو کسی علمی أصول کے تحت درست تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
اسی طرح ایسے افراد کے گزر أوقات کا کیا انتظام ہوگا، یہ ایک بالکل الگ سوال ہے اور مختلف حالات کے لحاظ سے اس کا حل مختلف ہو سکتا ہے۔ جس مخنث کو مدینے سے علاقہ بدر کیا گیا، بظاہر وہ اس سے پہلے بھی مانگ تانگ کر ہی گزارا کرتا تھا۔ اب اگر علاقہ بدر ہونے کے بعد بھی اس کی گزر أوقات اسی سے ہوتی تھی تو اس کو ‘‘اسلام کا تجویز کردہ حل’’کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟