تو کیا فرماتے ہیں جناب بلاول بھٹو بیچ اس مسئلے کے، ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے الیکٹڈ ہیں یا سلیکٹڈ؟جان کی امان پاؤں تو تہتر کے آئین کے تناظرمیں یہی سوال مولانا سے بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ’نکے‘ نے ان بزرگان سیاست کا جو حشر کر دیا ہے، کیا یہ صرف یہود کی سازش ہے یا اس میں ہنود بھی شامل ہیں؟
تحریک انصاف کی مقبولیت کبھی بھی سوالیہ نشان نہیں تھا۔ کسی کو غلط فہمی تھی تو اس الیکشن نے دور کر دی ہو گی۔اصل معاملہ تحریک انصاف کی قیادت کی افتاد طبع ہے۔ یہ کامیابی غیر معمولی ہے لیکن اگر یہ کامیابی اس افتاد طبع کی تہذیب نہ کر سکی تو اس میں سے کوئی خیر برآمد نہیں ہو سکے گا۔کامیابی کے بعد جناب عمران کا بیان معنی خیز ہے۔ فرماتے ہیں:پوری ریاستی مشینری اور الیکشن کمیشن کو شکست دے دی۔ غور فرمائیے ”پوری ریاستی مشینری“۔اور پھر الیکشن کمیشن۔ افتاد طبع کا ایک جہان معنی اس ایک فقرے میں موجود ہے۔
اس وقت پاکستان کی سیاست عمران خان کی مٹھی میں قید ہے۔ وہ مقبول ترین رہنما ہیں۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سیاست میں اگر کوئی رومان باقی ہے تو وہ عمران کی ذات سے وابستہ ہے۔ کسی اور پارٹی کے پاس کوئی ایسا نعرہ نہیں ہے جو کسی رومان کو جنم دے سکے۔ گاڑیوں کے پیچھے لکھا ہوتا ہے: کیا ہم تمہارے غلام ہیں، ایبسولیوٹلی ناٹ۔اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے پاس کیا ہے؟ مولانا کہاں ہیں؟
تمام پرچم عمران خان کے ہاتھ میں ہیں۔حب الوطنی کا پرچم انہوں نے تھام رکھا ہے، امریکہ کی غلامی سے نکلنے کا پرچم ان کے پاس ہے، اسلام دوستی کا جھنڈا بھی وہی اٹھائے ہوئے ہیں، وطن پرستی کا پرچم بھی ان کے پاس ہے۔ ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ کا پرچم ن لیگ اور مولانا تھامے ہوئے تھے، عدم اعتماد کے صدقے وہ پرچم بھی عمران کے پاس ہے۔ سوال یہ ہے کہ باقی جماعتیں اگر سیاست کرنا چاہتی ہیں تو ان کے پاس کون سا رومان، کون سا نظریہ اور کون سا جھنڈا ہے؟
اس غیر معمولی مقبولیت کے باوجود عمران خان کے لب و لہجے میں وہ متانت نہیں آ رہی جو اس پائے کے قومی رہنما میں ہونی چاہیے۔ آج بھی وہ بات کرتے ہیں تو دھمکی کے انداز میں۔ حالانکہ اس معاشرے میں اپنی غیر معمولی مقبولیت کی وجہ سے انہیں غیر معمولی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔تازہ بیان دیکھ لیجیے، کہتے ہیں: آگے بڑھنے کا واحد راستہ قابل اعتماد الیکش کمیشن کے تحت فوری انتخابات ہیں، ایسا نہ ہوا تو مزید سیاسی بے یقینی اور معاشی افراتفری پیدا ہو گی۔یعنی سیاست میں آج بھی وہ ”گن مین تھیوری“ پر یقین رکھتے ہیں۔ میری بات مان لو ورنہ۔۔۔۔ورنہ ہم سری لنکا بنا دیں گے ا ور ورنہ معاشی افراتفری پیدا ہو گی۔جس طرح عوام نے عمران کو ووٹ دیے ہیں، اب لازم ہے کہ ان کا لب و لہجہ بھی بدل جائے۔
الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، الیکشن کے نتائج بھی سامنے ہیں۔ اب کیسا عدم اعتماد؟ اور کیا آئین اس طرح الیکشن کمیشن کو تبدیل کرنے کا کسی بھی حکومت کو اختیار دیتا ہے؟ ایک غیر آئینی مطالبہ اور اس طرح کا دباؤ کسی علاقائی لسانی گروہ کو تو زیب دیتا ہو گا، ملک کے مقبول ترین رہنما کو زیب نہیں دیتا۔اس درجے کے مقبول رہنما کو ریاست کے مفادات کو اون کرنا ہوتا ہے ان کو فالٹ لائن سمجھ کر دھمکی نما مطالبے کا عنوان نہیں بنانا ہوتا۔
جمہوریت ایک طرز زندگی ہے، یہ اکثریت کی آمریت نہیں ہوتی۔ یہ کچھ اصولوں اور چند اعلی قدروں کا نام ہے۔ اس میں احترام باہمی بھی ہے اور بقائے باہمی بھی۔ یہ دوسروں سے اختلاف کرتی ہے لیکن ان کے وجود کی نفی نہیں کرتی۔ یہ ہمہ وقت تذلیل اور تحقیر کا نام نہیں ہے۔ غیر معمولی مینڈیٹ کے ساتھ اگر جمہوری اقدار بھی مل جائیں تو یہ کسی بھی سماج کے لیے نعمت سے کم نہیں ہوتا۔ لیکن مقبولیت کا پہاڑ اگر جمہوریت کے بنیادی اجزائے تراکیبی سے بے نیاز ہو جائے تو وہ معاشرے کو نئے امتحان سے دوچار کر دیتا ہے۔
خدا کی عطا میں کوئی کمی نہیں۔ بات اب تحریک انصاف کی قیادت کی ریاضت اور مجاہدے کی ہے۔ وہ اپنی افتاد طبع پر قابو پا سکے تو وہ اس ملک کے لیے خیر بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ یہ بھاری پتھر نہ اٹھا سکے تو محض عوامی مقبولیت کسی تبدیلی کا عنوان نہیں بن سکے گی۔ یہ المیوں کو جنم دے گی۔
یہ تحریک انصاف کا نیا جنم ہے۔ یہ الیکشن اس نے کسی سہارے کے بغیر جیتا ہے۔ یہ الیکشن اس نے ان موسموں میں جیتا ہے جو اس کو سازگار نہیں تھے۔اس نئے جنم میں اگر نئے رویے دیکھنے کو مل گئے تو یہ قومی زندگی کا ایک شاندار موڑ ہو سکتا ہے۔اگر رویے وہی رہے تو یہ کامیابی بھی ایک سفر رائیگاں کے سوا کچھ نہیں ہو گی۔
تاہم ذمہ داریوں کا یہ سارا بوجھ پی ٹی آئی کی کمر پر نہیں لادا جا سکتا۔ پی ڈی ایم کو بھی اس میں شریک سفر بننا ہو گا۔ پی ڈی ایم کے سوچنے کا سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف جیسی مقبول جماعت کو یکسر نظر انداز کر کے نظام سیاست چلایا جا سکتا ہے؟ کیا انتخابی ڈھانچے میں ایسی اصلاحات اور انتخابی قوانین میں ایسی تبدیلیوں کا کوئی بھرم ہے جس میں تحریک انصاف شامل نہ ہو؟ کیا اب بھی راجہ ریاض صاحب کے نام قائد
حزب اختلاف کی تہمت دھری جا سکتی ہے؟
سیاسی جماعتوں کو اب اس اصول پر آنا ہو گا جو امام شافعی ؒ نے طے کر دیا تھا کہ میں اپنی بات کو درست سمجھتا ہوں لیکن اس میں غلطی کے امکان کو تسلیم کرتا ہوں اور میں دوسرے کی بات کو غلط تصور کرتا ہوں لیکن اس میں صحت کے امکان کو رد نہیں کرتا۔ اہل سیاست میں،یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی کم مقبول ہو جائے اور کسی کی مقبولیت سکڑ جائے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی مکمل خیر ہو اور کوئی مکمل شر کہلائے۔ہر جماعت کے پاس، کم یا زیادہ سہی، اسی ملک کے عوام کا مینڈیٹ ہے۔ اور سارے اختلافات کے باوجود یہ مینڈیٹ تقاضا کرتا ہے کہ اس کا احترام کیا جائے۔ باہمی اختلافات کے باوجود اہم قومی امور پر مل بیٹھنے کی روش اپنانا ہو گی کہ اسی کا نام جمہوریت ہے۔
مقبولیت مٹھی کی ریت ہوتی ہے۔اصل چیز کردار ہے کہ جب قدرت نے موقع دیا تو کس نے کیسے کردار کا مظاہرہ کیا۔ پنجاب میں ایک وقت تھا بھٹو کا راج تھا، پھر یہاں مسلم لیگ ن کو عروج حاصل ہوا۔اب اشاریے بدلتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جو کل تھا آج نہیں ہے تو جو آج ہے یہ بھی کل نہیں ہو گا۔ہمیشہ کی بادشاہی صرف رب کی
ہے۔باقی سب کچھ وقت کے لیے امتحان گاہ میں کھڑے کر دیے جاتے ہیں، کوئی سرخرو ہو جاتا ہے کسی کو وقت پامال کر دیتا ہے۔
تحریک انصاف کو سمجھنا ہو گا، ضمنی انتخابات میں وہ سرخرو نہیں ہوئی بلکہ ان انتخابات کے نتیجے میں وہ ایک بار پھر امتحان گاہ میں بھیجی گئی ہے۔ سرخرو اب اس نے اپنے نامہ اعمال سے ہونا ہے۔