عبدالرحمن بن ناصر السعدی الناصری التمیمی دور حاضر میں ہی (1889-1956) سعودی عالم ہو گزرے ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ان کی مایہ ناز تالیف "تفسیر السعدی" ہے جو انہوں نے اپنے عالم شاب (35 سال) کی عمر میں لکھنا شروع کی اور 2 سال بعد (37 سال) کی عمر میں مکمل کی۔ یہ تفسیر پرانی اشاعت میں 9 جلدوں میں اور نئی اشاعت میں 8 جلدوں میں دستیاب ہے۔ اس کا اسلوب بالکل سادہ، مختصر اور تفسیر ہر قسم کی غیر مصدقہ روایات، قصے کہانیوں یا اسرائیلی حکایات سے پاک ہے۔ مفسر نے نص سے باہر نکلنے کی کوشش ہی نہیں کی اور قرانی مطالب کو آیات قرانی کی روشنی میں ہی سادگی کے ساتھ سمجھایا ہے۔ ان کی یہ تفسیر اہل سنت والجماعت کے ہاں ایک مستند تفسیر کا درجہ رکھتی ہے۔
شیخ عبدالرحمن السعدی کہتے ہیں: میں نے کتاب و سنت میں جتنا غور اور تدبر کیا ہے تو مجھے بس یہی 6 اذکار ہی ایسے ملے ہیں جن کو کثرت اور شدت کے ساتھ کرنے کی وصیت کی گئی ہے۔ یہ اذکار کسی بھی انسان کیلیئے اپنی زندگی کی ہر آزمائش، امتحان اور کٹھن مرحلے سے گزرنے کیلیئے لازمی ہتھیار ہیں۔ یہ اذکار ہر قسم کے غم، پریشانیوں، روحانی اور جسمانی امراض اور گناہوں سے لڑنے، نمٹنے اور حاوی ہونے کیلیئے اشد ضروری، ممد، مجرب اور شافی و کافی ہیں۔
پہلا ذکر: اللَّہمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَاركِ علی نَبِيِّنَا مُحمَّد
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام - اس ذکر کو ہر حال میں اور سارا دن پابندی اور کثرت کے ساتھ جاری رکھنا ہے۔
دوسرا ذکر: أسْتَغْفِرُ اللهَ وَأتُوبُ إلَيْهِ
کثرت سے استغفار اگر اللہ پاک آپ کو فرصت اور توفیق دیں تو اس ذکر کی کثرت کیجیئے۔
تیسرا ذکر: يَاذا الجَلاَلِ والإكْرامِ
اللہ رب العزت کی عظمت اور بزرگی بیان کرنا۔ یہ ذکر بھول چکی سنت ہے جس کی آقا علیہ السلام باقاعدگی سے کرنے کی تلقین ان الفاظ (ألظّوا بـ يا ذا الجلال والإكرام – یا ذا الجلال والاکرام کہنے کی کثرت کیا کرو) میں فرمایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت میں بہت سارے راز پوشیدہ ہیں- یا ذالجلال کا مطلب اے جمال کمال جلال اور عظمت والے، اور الاکرام کا مطلب اے کرم و جود و عطاء اور سخاء والے رب۔ اس ذکر کے معنی میں جتنا غور کریں اتنے عجائب سامنے آتے ہیں۔ سوچیئے کہ آپ دن میں سینکڑوں بار اس کو دہراتے ہیں اور ہر بار اللہ پاک آپ سے خوش ہو کر عطا کرتے جاتے ہیں۔
چوتھا ذکر: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلاَّ بِاللَّہ
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو یہ کلمہ پڑھتے رہنے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کرتے تھے کہ یہ کلمہ جنت کے خزانوں میں سے اایک خزانہ ہے۔ اگر آپ اسے کہنا اپنا وطیرہ بنا لیتے ہیں تو آپ کو اللہ سبحانہ و تعالی کی قدرت کے عجائب، انعامات اور کمالات دیکھنے کو ملیں گے۔
پانچواں ذکر: لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ اور یہ ذکر حضرت یونس علیہ السلام کی دعا ہے۔ یہ دعا غموں کی فاتح اور خوشیوں کی بارش لانے والی دعا ہے۔
چھٹا ذکر: سبحانَ اللهِ ، والحمدُ للهِ ، ولا إله إلا اللهُ ، واللهُ أكبرُ
اذکار کا بنیادی قاعدہ اللہ سے رجوع، اس کی عظمت اور قدرت کا اعتراف کرتے ہوئے اس سے التجا اور مانگ ہوتی ہے۔ عطا کی مقدار مانگنے کے انداز (الحاح) اور طلب کی شدت سے مشروط ہوتی ہے۔ ذاکر سے شیطان دور بھاگتے ہیں، نظر، حسد، جادو، زہر خورانی کے اثرات ختم ہوتے ہیں۔ غموں سے نجات ملتی ہے، خوشیوں کی برسات ہوتی ہے، اللہ کی رحمت کا سایہ دراز ہوتا ہے۔