پھلوں کا بادشاہ آم مئی جون جولائی اور اگست تک دھوم مچاتا ہوا آتا ہے ذوق و شوق سے کھایا جاتا ہے اور چار مہینوں کے لئے اپنے ذائقے , اقسام اور رنگ ڈھنگ دکھا کر سات آٹھ مہینوں کے لئے پھر روپوش ہو جاتا ہے ۔
آم کھاؤ پیڑ مت گنو "کے مصداق بہت سے لوگوں کو علم ہی نہیں کہ آم کو پال ڈال کے پکایا جاتا ہے بس کھانے والے اپنے مطلب سے مطلب رکھتے ہیں اور صرف آم ہی کھاتے رہتے ہیں ۔ ہم جس شکل میں پکا ہوا میٹھا آم بازار سے خرید کر کھاتے ہیں درخت پہ نہیں پکتا بلکہ اسے پال لگا کے پکایا جاتا ہے- درخت پہ پکنے والا آم ٹپکے کا آم کہلاتا ہے وہ اس قدر رسیلا ہوتا ہے کہ اسے محفوظ نہیں کیا جاسکتا نہ ہی پیٹی میں بند کر کے ادھر ادھر بھیجا جا سکتا ہے اسے درخت سے ٹپکتے ہی کھانا ہوتا ہے اسکے رکھنے کی عمر یعنی (شیلف لائف)چند گھنٹے سے زیادہ نہیں ہوتی- شاخ سے گرنے کے بعد اس پہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا آم کا گودا گھلتا جائے گا اور اس کا ذائقہ خراب ہوتا جائے گا تاہم بہت سے لوگوں کو پال کا علم نہیں ہے ۔
عموماً مارچ میں بُور سے کیریاں بننے کا عمل شروع ہوتا ہے جس میں سے نو فیصد تک جھڑ جاتا ہے صرف ایک فیصد آم بننے کی طرف جاتا ہے- آم کے درخت پہ جتنا بور لگتا ہے اگر وہ سب کا سب پھل بن جائے تو شاید پھل کے بوجھ سے تمام کی تمام ڈالیاں ٹوٹ جائیں ۔ مارچ تا مئی چلنے والی طوفانی ہواؤں سے درخت کا بیشتر بور جھڑ جاتا ہے جو شاخوں کو ہلکا کرنے کا قدرتی عمل ہے - جون میں آم کی فصل اترائی کے لئے تیار ہونا شروع ہوجاتی ہے- آم اگرچہ ہرے رنگ کا ہی رہتا ہے-اس کا سائز اپنی نسل کے برابر ہو جائے تو ان آموں کو اتار کر لکڑی کی پیٹیوں میں بھرائی کی جاتی ہے یعنی تہہ میں اخبار کا دوہرا کاغذ بچھایا جاتا ہے اور آم کی تہہ لگا دی جاتی ہے اور اسکی اطراف میں کیلشیم کاربائیڈ کی اخبار میں لپٹی پڑیاں رکھی جاتی ہیں پھر اخبار سے ڈھانپ کے آموں کی دوسری تہہ لگائی جاتی ہے کاربائیڈ کا عمل دہرایا جاتا ہے پھراخبار کی تہہ اور پھر کاربائیڈ ۔ پیٹی کی اونچائی کے سائز کے مطابق تین چار یا پانچ تہیں دی جاتی ہیں اور پھٹی کے تختے میخوں سے لگا کے پیٹی بن کر دی جاتی ہے ۔
آم میں موجود ایتھلین گیس اور کیلشیم کاربائیڈ کےانٹر ایکشن سے آم کا پھل تین سے چار دن میں پک جاتا ہے اتنے دنوں میں آم خوشنما اور خوشبو دار پیلا رنگ اختیار کر لیتا ہے اور کلیشیم کاربائیڈ گیس کی ڈلیاں گھل کر پاؤڈر کی شکل اختیار کر جاتی ہیں ۔ پیٹی کھولتے ہی آم بے حد رسیلا , میٹھا اور فوری کھانے کے لئے تیار ہوتا ہے ۔ اسے اچھی طرح صاف پانی سے دھو کر اور پانی میں بھگو کر کھایا جاتا ہے تاکہ آم میں موجود رہی سہی گیسز بھی تحلیل ہو جائیں - یہ پکا ہوا آم ریفریجریٹر میں ہفتہ بھر محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے ۔
ہم آم کی جو پیٹیاں خرید کر لاتے ہیں وہ مارکیٹ میں اسی حساب سے پہنچائی جاتی ہیں کہ جس شہر یا جس علاقے میں بھیجی جائیں وہاں سے منڈی اور گاہک تک پہنچنے میں کتنے دن لگیں گے اس حساب سے کاربائیڈ کی مقدار کو پیٹی میں رکھا جاتا ہے یہی کچا آم جسے ہم پال ڈال رہے تھے ایک دو کچن میں یا کیبنٹ میں رکھ دیں وہ تین چار دنوں میں قطعاً نہیں پکے گا نہ صرف ہرا اور کھٹا رہے گا بلکہ اس کے اندر سفید سا فنگس بھی لگ جائے گا کیونکہ شاخ سے توڑنے کے بعد اس میں ایتھین گیس بننے کا عمل رک گیا تھا ۔ شاخ سے توڑنے کے بعد اس کے اندر موجود گیس کو کیلشیم کاربائیڈ سے ملاپ اور گرمی کی ضرورت تھی جو نہیں مل سکی اس لئے آم خراب ہو کے ضائع ہوگیا
تمام پڑھنے والوں کے ذہن میں سوال کلبلا رہا ہے کہ کیلشیم کاربائیڈ ہے کیا بلا ؟
میرے محدود علم کے مطابق یہ گیس سے بھرا پتھر کی شکل کا ٹکڑا ہوتا ہے اور آئرن ویلڈنگ سمیت صنعت کاری کے متعدد کاموں میں استعمال ہوتا ہے ۔ اسے ائیر ٹائیٹ محفوظ کیا جاتا ہے ہوا لگتے ہی اسکی گیس اڑنا شروع ہو جاتی ہے اگر کھلا رکھ دیا جائے تو چوبیس گھنٹوں میں بھر بھری راکھ میں بدل جاتا ہے ۔