کہنے لگا: زندگی کی بھاگ دوڑ میں اچانک پلٹ کر دیکھا تو اپنے آپ کو چالیس کے پیٹے میں پایا۔ پھر یہ عمر پنتالیس ہوئی اور پھر پنتالیس سے بڑھ کر پچاس ہو گئی۔ عمر کے ایسے ایسے ہندسے سننے پڑے جو پہلے کبھی نا سنے تھے۔ ساٹھ کا ہونے سے پہلے تو مجھے باقاعدہ خوف سا آنے لگا۔ سبزی بیچنے والا مجھے حاجی صاحب کہہ کر پکارنے لگا، لڑکے بالے چاچا کہنے لگے، معاملات تب بد سے بد تر ہوتے گئے جب مہذب قسم کے نوجوانوں نے مجھے بسوں یا گاڑیوں میں اپنی جگہ سے اُٹھ کر نشست پیش کرنا شروع کر دی۔ سچ جانیئے یہ مجھ پر بہت ہی سخت لمحات تھے۔ میں اپنے ہی دیس میں پردیسی ہو رہا تھا، بوڑھا بنتا جا رہا تھا۔ مجھے حیرت کا جھٹکا تب لگا جب میں نے یورپ کی طرف ہجرت کی۔ وہاں جا کر دیکھا کہ لوگ تو اس عمر تک پہنچنے کیلئے بڑی بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، وہ عمر جس کو وہاں پر سینیئرز" کہا جاتا ہے۔ وہاں پر ان کیلئے یہ عمر ایسے ہی ہے جیسے ان کی ایک اور جوانی کا مرحلہ شروع ہو رہا ہو۔ اور یہ مرحلہ ساٹھ کے بعد شروع ہوتا ہے۔ وہاں پر عمر کا یہ مرحلہ تب شروع ہوتا ہے جب ان کے بچے جوان ہو چکے ہوں، کسی قسم کی کوئی بڑی ذمہ داری باقی نا بچتی ہو۔ اب ایسے میں ان کی زندگی کا ایک نیا رنگ شروع ہوتا ہے، سیاحتیں، رت جگے، گروپ بندیاں، کلب بازی۔ بالکل ایسے ہی جیسے زندگی ایک بار پھر سے شروع ہو رہی ہو۔ عمر اپنی جگہ مگر طرز نیا اور پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت۔ میلوں ٹھیلوں سے مزین زندگی اپنی بھر پور مستی کے ساتھ۔ ہلڑ بازی تو ہوتی ہے مگر عمر رُکی ہوئی۔ اور ہمارے ہاں: ساٹھ شروع نہیں ہوتا کہ ہار پہلے مان لیتے ہیں۔ بلکہ عربی کی ایک کہاوت تو یوں ہے ہے کہ ساٹھے چھری کے دھار تلے۔ یہ کہاوت کسی اور طریقے سے سچ ہو یا نا ہو مگر ہم وقت کی تیز دھار چھری کو ضرور اپنی گردن پر رکھ دیتے ہیں، تاکہ اولاد پر بوجھ نا بنیں خود ہی وقت کے ہاتھوں ذبح ہو جائیں۔ بلکہ ہم تو، نا بھی ہو تو، اس عمر میں جا کر، اپنے آپ کو اولاد پر بے سود بوجھ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ بلکہ میں تو یوں بھی کہونگا کہ ہمارے وطن عزیز میں کچھ ایسے نوجوان بھی ہیں جن کی عمر بھلے بیس ہوگی مگر روحانی طور پر وہ ساٹھ کی عمر میں رہ بس رہے ہوتے ہیں۔
سچ پوچھیئے تو میں نے بس یہی جانا ہے کہ : عمر سوائے دنوں کی گنتی کے اور کچھ بھی نہیں۔ حقیقی زندگی کا مزا یہی ہے کہ آپ کا دل اور آپ کی روح جوان رہے۔ اور دانشمندی تو یہی ہے کہ بڑھاپے تک بچپنے کو برقرار رکھا جائے، تاکہ زندگی کا جوش و خروش برقرار رہے۔ بھول جائیے کہ لوگ آپ کو کیسے دیکھتے ہیں، ضروری بس یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو کیسے دیکھتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ عورت کی نسوانیت کی تکمیل اور حسن کی جاذبیت و جادو کی تو ابتداء ہی ان کی عمر کے تیس سالوں کے بعدسے شروع ہوتی ہے۔ میرا سلام ہر اس مرد و زن کو جو اپنی عمر کے چالیس، پچاس یا ساٹھ سال پورے کر چکے ہیں۔ ایک فرانسیسی کہاوت ہے کہ: مرد کی عمر اتنی ہے جتنی وہ محسوس کرتا ہے اور عورت کی عمر اتنی ہوتی ہے جتنے کی وہ نظر آتی ہے۔ دعا ہے اللہ رب العزت ہر ایک کو اس کی دنیا میں رضا اور سعادت کا شعور بخش دے اور ان کی آخرت میں ان سے راضی ہو کر انہیں حقیقی سعادت بخش دے۔ آمین