نفسيات
نیوروسائنس
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی دماغ ایک بلیک باکس کی طرح ہے۔ جس طرح ہوائی جہاز کے بلیک باکس میں بہت سے راز مخفی ہوتے ہیں اسی طرح انسانی دماغ میں بھی انسانی ذات کے بہت سے راز پوشیدہ ہوتے ہیں کیونکہ انسانی دماغ انسانی جسم کے ساتھ بھی جڑا ہوتا ہے انسانی ذہن کے ساتھ بھی انسانی شعور کے ساتھ بھی ملا ہوتا ہے انسانی لاشعور کے ساتھ بھی انسان کی داخلی زندگی کے ساتھ بھی وابستہ ہوتا ہے اور خارجی زندگی کے ساتھ بھی اسی وجہ سے انسانی دماغ بہت پراسرار سمجھا جاتا ہے۔
پچھلی چند دہائیوں میں جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے سائنسدانوں اور ماہرین نفسیات نے مل کر انسانی دماغ پر جو تحقیق کی ہے اس نے ایک نئی سائنس کو جنم دیا ہے جس کا نام نیوروسائنس ہے۔ اس نئی سائنس کی وجہ سے ہم انسانی دماغ کی ان خصوصیات سے واقف ہوئے ہیں جن سے ہم پہلے نابلد تھے۔ ان خصوصیات کی وجہ سے ہم پر انسانی دماغ کے انسانی جسم ’انسانی ذہن اور انسانی شخصیت کے ساتھ خصوصی رشتوں کے راز منکشف ہوئے ہیں۔ ان رازوں کی وجہ سے ماہرین نفسیات نے نہ صرف بہت سے نفسیاتی مسائل اور ذہنی بیماریوں کی تشخیص کی ہے بلکہ ان کے علاج کے بھی قابل ہوئے ہیں۔ میں اس کالم میں نئی تحقیق کے چند گوشوں کا اختصار سے ذکر کروں گا تاکہ آپ انسانی دماغ کی چند خاصیتوں اور پیچیدگیوں سے بہتر طور پر متعارف اور نیوروسائنس کے جدید علم سے واقف ہو سکیں۔
نیوروسائنس کے ماہرین نے ہمیں بتایا ہے کہ انسانی دماغ میں ایک سو ارب نیورونز پائے جاتے ہیں اور ہر نیورون بہت سے اور نیورونز کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔
انسانی دماغ کا ہر نیورون ایک اکائی ہے اور اس کے مندرجہ ذیل حصے ہیں
نیورون کی شاخیں ڈنڈرائٹز DENDRITESنیورون کا جسم سیل باڈی CELL BODYنیورون کا تنا ایکسون AXONاورنیورونز کے ملاپ کی جگہ سائینیپس SYNAPSESکہلاتے ہیں۔
نیورونز میں پیغامات ڈینڈرائٹز کی وساطت سے آتے ہیں، وہ پیغامات سیل باڈی اور ایکسون سے گزرتے ہوئے اگلے سیل کی ڈینڈرائٹز تک پہنچ جاتے ہیں۔دو نیورونز کے درمیان سائینیپس میں پیغام رسانی یا تو بجلی کے پیغامات کے حوالے سے اور یا کیمیائی مادوں کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ کیمیائی مادے ایک نیورون کی ایکسون سے اگلے سیل کی ڈینڈرائٹز کے درمیان قاصد کا کام کرتے ہیں۔ ان کیمیائی مادوں کی مثالیں ڈوپامین ’ایپی نیفرین اور سیروٹونن ہیں۔جب نیورونز کے درمیان ان کیمیائی مادوں کی کمی پیدا ہو جائے اور توازن بگڑ جائے تو انسان نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے جس کا علاج ادویہ اور تھراپی سے کیا جاتا ہے تا کہ انسانی دماغ اور ذہن کا توازن برقرار رکھا جائے۔
ماہرین نفسیات اور ماہرین دماغ ہمیں بتاتے ہیں کہ انسانی دماغ کے دو حصے ہیں
دایاں دماغ اور بایاں دماغ -دونوں دماغوں کے درمیان ایک پل ہے جو کارپس کلوسم کہلاتا ہے-دماغ کا اعلیٰ حصہ جو سیریبرل کارٹکس کہلاتا ہے چار لوبز پر مشتمل ہوتا ہے اور ہر لوب اپنا مخصوص کام کرتا ہے۔
فرنٹل لوب کا تعلق انسانی اخلاقیات اور دانائی سے ہے-پیرائٹل لوب کا تعلق تھری ڈائیمنشنل چیزوں کو سمجھنے سے ہے-ٹیمپورل لوب کا تعلق جذبات سے ہے
اوکسیپیٹل لوب کا تعلق بصارت سے ہے-بعض ماہرین کا خیال ہے کہ انسانی دماغ ایک اورکسٹرا کی طرح ہے جس میں دماغ کے مختلف حصے مل کر ایک داخلی موسیقی اور انسان کی ایک جداگانہ شخصیت تخلیق کرنے میں مدد کرتے ہیں۔
ایمبریولوجی کے علم کے جو ماہرین رحم مادر میں بچے کی پیدائش سے پہلے اس کی نشوونما کا جائزہ اور تجزیہ کرتے ہیں وہ ہمیں بتاتے ہیں انسانی بچہ نو مہینے اور سات دن میں کئی مراحل سے گزرتا ہے-پہلے مرحلے میں ماں کا اووم اور باپ کا سپرم آپس میں مل کو ذائگوٹ بناتے ہیں اور پھر ذائگوٹ کا وہ خلیہ بہت سے خلیوں میں تقسیم ہوتا چلا جاتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ خلیے تین حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں وہ حصے ایکٹوڈرم ’میزوڈرم اور اینڈوڈرم کہلاتے ہیں۔ایکٹوڈرم دھیرے دھیرے انسانی دماغ بنتا ہے جس کے آثار حمل کے اٹھارہویں دن سے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ پہلے وہ ایک نیورل ٹیوب بناتے ہیں اور پھر وہ مختلف حصوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں جس سے دماغ کے مختلف حصے بنتے ہیں۔
دوسرے مرحلے میں نیورل ٹیوب بند ہو جاتی ہے اور دماغ کے خلیے تقسیم ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ ماہرین کے لیے یہ بات نہایت حیران کن تھی کہ ان خلیوں کی تقسیم حد درجہ تیزرفتاری سے ہوتی ہے۔ ان کے لیے ایک منٹ میں ایک خلیے کا دو لاکھ پچاس ہزار خلیوں میں تقسیم ہونا ناقابل یقین تھا۔ اس تیزی سے خلیے تقسیم ہوتے ہیں کہ رحم مادر میں دماغ کے خلیے حمل کے ایک سو پچیسویں دن تک ایک سو ارب خلیے بن جاتے ہیں۔
تیسرے مرحلے میں وہ خلیے نیورل ٹیوب میں نیچے سے اوپر کی طرف سفر کرتے ہیں
چوتھے مرحلے میں وہ خلیے دماغ کے مختلف حصے اور مختلف لوب بناتے ہیں۔
ایک وہ زمانہ تھا جب ماہرین یہ سمجھتے تھے کہ پیدائش کے وقت دماغ کی جو کیفیت اور ساخت ہوتی ہے وہی ساری عمر رہتی ہے۔ ان کا خیال تھا کہ پیدائش کے بعد انسانی دماغ کے خلیوں میں کمی بیشی نہیں ہوتی لیکن نیوروسائنس کی جدید تحقیق نے ہمیں بتایا ہے کہ انسانی دماغ میں مختلف کیفیتوں سے مختلف تبدیلیاں آتی رہتی ہیں جو نیورپلاسٹیسٹی کہلاتی ہیں۔ اس خاصیت کی وجہ سے انسانی دماغ کے مختلف نیورونز میں نئے رشتے اور سائینیپسز بنتے ہیں جو ذہنی بیماری کی شفایابی میں ممد ثابت ہوتے ہیں۔ اب ان بیماریوں کا علاج ممکن ہے جو پہلے لاعلاج سمجھی جاتی تھیں۔
جب ماہرین نے دماغ کی کیفیتوں کا تجزیہ کیا تو انہیں اندازہ ہوا کہ انسان کے بچپن نوجوانی اور بڑھاپے میں انسانی دماغ میں خاص تبدیلیاں آتی ہیں جو انسانی شخصیت میں خاص خصوصیات پیدا کرتی ہیں۔
بچپن میں انسانی بچے میں معصومیت پائی جاتی ہے نوجوانی میں رومانوی جذبات پیدا ہوتے ہیں بڑھاپے میں دانائی پیدا ہوتی ہے-جب کوئی انسان زندگی کے کسی دور میں مثبت انداز فکر اپناتا ہے یا تخلیقی کام کرتا ہے تو اس کے دماغ میں نئے رستے بنتے ہیں نئی سائینیپسس بنتی ہیں نیورونز کے نئے رشتے بنتے ہیں اور اس انسان کی شخصیت میں نئی خصوصیات اور نئی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ تبدیلیاں انسانی دماغ انسانی ذہن اور انسانی شخصیت کے نئے رشتوں کی وجہ سے معرض وجود میں آتی ہیں۔
ماہرین نفسیات نے اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ جب نفسیاتی مسائل سے پریشان انسان مختلف ادویہ اور تھراپی سے علاج کرواتے ہیں تو ان کے دماغ میں مثبت تبدیلیاں آتی ہیں جن میں اس کی شفایابی کا راز مخفی ہوتا ہے۔
نیوروسائنس کے ماہرین نے انسانی دماغ میں خاص نیورونز کی نشاندہی کی ہے جو مرر نیورونزMIRROR NEURONS کہلاتی ہیں۔ ان نیورونز کی وجہ سے بچے ماں باپ کی عادات کی نقل کرنا اور ایک دوسرے کا خیال رکھنا سیکھتے ہیں۔ وہ دوسروں کے جذبات سے خصوصی تعلق محسوس کرتے ہیں۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ وہ بچے جو آٹزم کا شکار ہوتے ہیں ان میں ان مرر نیورونز کی کمی ہوتی ہے اس لیے ان کا اپنے والدین اور دوسرے بچوں سے جذباتی تعلق قائم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
انسانی ارتقا میں مرر نیورونز نے دوسرے انسانوں کا خیال رکھنے اور ہمدرد انسان بننے میں ہماری مدد کی۔
نیوروسائنس طب کی ایک جدید سائنس کا نام ہے۔نیوروسائنس کی تحقیق کی وجہ سے ہم نےانسانی دماغ کےانسانی ذہن کےانسانی شخصیت کےنفسیاتی مسائل کےذہنی بیماریوں کےاور ان بیماریوں کے علاج کے بہت سے راز جانے۔ان رازوں کی وجہ سے اب ماہرین انسانوں کے دماغی امراض اور نفسیاتی مسائل کی بہتر تفہیم ’تشخیص اور علاج کر سکتے ہیں۔
نیوروسائنس کی تحقیق کی وجہ سے ہم لاکھوں برس کے انسانی ارتقا کو بھی بہتر طور پر سمجھ پائے ہیں۔
جو دوست اس موضوع میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں میں انہیں تین کتابیں پڑھنے کا مشورہ دوں گا۔ ان کتابوں سے میرے شاگردوں اور دوستوں نے بہت استفادہ کیا ہے۔
1. Simpsons Alexander and Annellin: Neuroscience for Clinicians
Springer Science Media New York USA 2013
2۔ Ramachandran Vilayanur: The Emerging Mind بی بی سی Reith Lectures Profile Books London England 2007
3. Doidge Norman: The Brain Than Changes Itself Penguin Books London England 2007