نفسيات
انسانی تعلقات كی پيچيدگی
جويريہ سعيد
انسانی تعلقات بڑی پیچیدہ شے ہیں۔ ازدواجی تعلق ہو یا جماعتی رشتے۔ اگرچہ حسن معاملات ، اچھا اخلاق ان کو سنبھال کر رکھتے ہیں ، اور جہاں یہ نہ ہوں، وہاں ٹوٹنے اور بکھرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ مگر دل نہ ملنے اور تعلق کے مر جانے کی کوئی منطقی وجہ کہیں صاف صاف نہیں لکھی ہوئی۔
پڑھے لکھے، میچور، ہم فکر اور بظاہر نہ لڑنے جھگڑنے والے بھی ایک دوسرے سے نہ سمجھ میں آنے والی باتوں کی وجہ سے اتنی دور ہوجاتے ہیں کہ ان کا ساتھ چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ آپ سمجھتے ہیں آپ بہت محبت والا دل رکھتے ہیں، دوسرے کا خیال کرتے ہیں، اس کو آگے بڑھانے ، اس کی بہتری کی اپنے تئیں کوشش کرتے ہیں، آپ ہنس مکھ ہیں، قربانیاں اور اسپیس دیتے ہیں۔ مگر آپ کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں کہ دوسرے کے دل میں شکوے شکایات، بے زاری، الجھن اور ان کہی سی بے چینی اور چڑ نہ پیدا ہو۔
دوسرا یہ بھی سمجھتا ہے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی، وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ جو تائید اور مقام آپ سمیٹتے ہیں آپ اس کے سزاوار نہیں۔ آپ کا ہنسنا ان کو طنز لگتا ہے۔ آپ کا رونا ان کو چال لگتا ہے۔ آپ کی تائید ان کو دکھاوا اور آپ کا اختلاف ان کو مخالفت لگتی ہے۔ آپ کو بھی لگتا ہے کہ ان کے ہونے سے آپ معدوم ہونے لگے ہیں۔ آپ سمجھتے ہیں کہ آپ جوڑ لیں گے۔ جیسے پہلے بات کرنے سے ، ملاقات سے ،اظہار دل لگی سے سب خوش رنگ اور پرفضا ہوجاتا تھا ، پھر ہوجائے گا۔۔ مگر نہیں ہوتا۔ اگر کوئی تیسرا باہم صلح کروانا چاہے۔ آپ کی اور ان کی شکایات سنے تو کہے کہ الگ ہونے سے بھی کون سا زندگی مکمل اور اس سے زیادہ خوش کن ہوجائے گی؟ جڑے رہنے کی کوشش کرو۔ مگر جن کا خیال کبھی رشتۂ جاں تھا، اب ان کی موجودگی سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ تو کیسے رہیں؟
انسانی احساس اور تعلقات ایسی ہی عجیب اور ان پریڈکٹیبل سی شے ہیں۔
گذشتہ دنوں بظاہر سائنس فکشن پر بنی ایک فلم دیکھی جس کا اصل موضوع انسانی نفسیات ، مجبوریاں ، درد اور اسی میں زندگی کا تسلسل تھا۔ ایک ایسی فلم ہے جس کی کہانی بظاہر زمین پر سات ممالک میں اچانک ایلینز کی آمد پر ہونے والی گلوبل ہلچل کے گرد گھومتی ہے۔ ان ایلینز کی عظیم الشان شپس اور ان کی آمد سے وابستہ خطرات ساری دنیا کی حکومتوں کو ہوشیار کردیتے ہیں۔ امریکی مقام پر ان کی آمد کا مقصد جاننے کو محققین کی ایک ٹیم شپ میں بھیجی جاتی ہے جس میں آرمی آفیسر کے علاوہ ایک مرد فزسٹ اور عورت ماہر لسانیات شامل ہوتے ہیں۔ سائنس دان ظاہر ہے کہ بہت میتھمیٹکل اپروچ رکھتا ہے اور ماہر لسانیات کا فوکس کسی طرح اس مخلوق سے کمیونیکٹ کرنے کی کوشش ہے جس کے لئے وہ زبان کی مختلف شکلوں کو آزماتی ہے اور بالآخر ان سے کمیونیکٹ کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ کہانی کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ خاتون کو مسلسل فلیش بیکس ہوتے ہیں۔ وہ دیکھتی ہے کہ اس کی ایک بیٹی ہے، اس کا شوہر ان کو چھوڑ کر جاچکا ہے کیونکہ اس نے اسے کوئی “سچ” بتادیا تھا۔ جس بیٹی کو محبت سے پالا اور جو ماں باپ کی دوری کو محسوس کرتی رہی اسے ٹین ایج میں کینسر ہوگیا اور وہ مر گئی۔ذہن میں وقتاً فوقتاً ہونے والے یہ جھماکے، عورت کو مسلسل تھکا کر اور کنفیوز رکھتے ہیں۔ کیونکہ اس کو سمجھ نہیں آتا کہ یہ واقعات کب ہوئے؟ بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ ماضی کے فلیش بیکس ہیں۔
فلم کے یہ دونوں مرکز ی کردار انتہائی سوفیسکٹیڈ، نرم مزاج، مہذب دکھائے گئے ہیں۔ سائنس دان عورت کی طرف سے فکر مند رہتا ہے اور عورت اپنے فلیش بیکس اور داخلی اضطراب کو مسلسل چھپاتی ہے۔ دونوں ہمدرد ہیں اور زندگی سے محبت کرتے ہیں۔
ابتدائی رابطوں کے دوران ایک وقفے میں جب وہ شپ سے باہر آتے ہیں ، تو سائنس دان ایک نرم سی مسکراہٹ کے ساتھ ماہر لسانیات کو بتاتا ہے کہ اس کے لئے سب سے اہم اور قیمتی واقعہ ایلینز سے ملاقات نہیں بلکہ اس عورت سے ملنا تھا۔ گویا ایک سائنس دان کے لیے کسی ایکسٹرا ٹیرسٹریل مخلوق سے ملاقات، کائناتی اسرار کی جستجو اور ایک متوقع شدید گلوبل خطرے سے زیادہ اہم شے انسانی تعلق کا بننا ثابت ہوتا ہے۔یہ انسانی تعلق اور احساس کی نازکی کے باوجود اس کی اہمیت کی طرف اشارہ ہے جسے عقل بھی ایکسپلین نہیں کرسکتی۔ سائنس دان ماہر لسانیات کی تعریف کرتا ہے کہ اس نے کس خوبی اور ذہانت سے وربل اور وژول کمیونیکیشن کے سادہ طریقے وضع کرکے ایلینز سے بالآخر گفتگو کر لی۔ ظاہر ہے ایک فزسٹ کے لیے اس مشاہدے سے قبل فزکس اور ریاضی کے مقابلے لسانیات کی کیا اہمیت رہی ہوگی۔ وہ کہتا ہے ۔
“I’m not good at communication, maybe this is why I’m single”.ماہر لسانیات جو اپنے ذہنی زلزلے سے بے حال تھی، اس پر نظر ڈال کر کہتئ ہے۔ “Trust me, if you understand communication , you can still end up single”.میں نے جب یہ مکالمہ سنا تو میری سانس رک گئی۔
کہانی آگے بڑھتی ہے اور علم ہوتا ہے کہ ایلینز اس خاتون کو ایک تحفہ دے گئے تھے اور وہ یہ کہ ان کے یہاں وقت کا لینیر نہیں بلکہ دائروی تصور تھا۔ اور عورت کو جو جھماکے ہورہے تھے، وہ ماضی کے فلیش بیکس نہیں بلکہ مستقبل کی جھلکیاں تھیں۔ جو اسے تحفتا ًعطا کی گئیں۔ مستقبل کا اندازہ۔ وہ اس مرد سے شادی کرے گی۔ ان کی بیٹی ہوگی جسے ٹین ایج میں ایک ناقابل علاج کینسر ہوگا۔ ظاہر ہے عورت کو اس کا علم ہوگیا ہے۔ لیکن یہ بات وہ اپنے شوہر کو بچے کی پیدائش کے بعد ہی بتائے گی اور وہ صدمے اور غصے سے انھیں چھوڑ جائے گا۔ اور پھر ان کی بچی بیمار ہو کر مر جائے گی۔
یہاں آپ رکتے ہیں ۔ اور میری تحریر کے ابتدائیے کی طرف لوٹتے ہیں۔ میں جو مسلسل انسانی تعلقات کی ان پیچیدگیوں پر سوچتی اور اکثر دکھی ہوتی رہتی ہوں۔ میرے ذہن میں کچھ گرہیں کھلتی ہیں۔ یہ سادہ سی مگر بہت کچھ کہتئ کہانی ایک دم ذہن میں بہت سی سوچی باتوں کی تائید کرتی ہے۔
دو انتہائی تعلیم یافتہ، مہذب ، مخلص ، ایک دوسرے سے محبت اور ایک دوسرے کی پرواہ کرنے والے افراد بھی کسی نہ سلجھنے والی گرہ کے سبب جدا ہوجاتے ہیں۔ بالکل قراةالعین کی کہانیوں کی طرح۔ایک ماہر لسانیات ، اجنبی مخلوق سے مکالمہ کرلیتی ہے مگر اپنے محبوب شوہر سے کنيکٹ نہیں ہوپاتی۔
فلم کا اختتام بھی خاصے کی شے ہے۔ اس مستقبل سے آگاہ ہونے کے باوجود عورت وہی راستہ چنتی ہے۔ اسی مرد سے تعلق اور اولاد کا فیصلہ۔اس اختتام سے قبل وہ سائنس دان سے ایک سوال پوچھتی ہے ۔
"If you could see your whole life from start to finish, would you change things?"
وہ تو میں نہیں جانتا کہہ دیتا ہے۔ مگر عورت یہ فیصلہ کرتی ہے کہ تعلق سے ملنے والے درد کے باوجود اس کی لذت ایسی پیاری شے ہے ، کہ وہ اس سے دستبردار ہونے کے بجائے ، اسی کا انتخاب کرے گی۔
محبت درد لاتی ہے۔ مگر محبت ایسی خوشبو دار، خوش رنگ اور پر کیف شے ہے۔ کہ انسان اس کے کیف کی خاطر فراق کو بھی انعام سمجھ کر جھیل لیتا ہے۔
کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو--عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے
پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم--برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے
پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق--سامانِ صد ہزار نمک داں کیے ہوئے
پھر بھر رہا ہوں خامۂ مژگاں بہ خونِ دل--سازِ چمن طرازیِ داماں کیے ہوئے
دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے--پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے
پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب--عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے
پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں--سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے