اس پاکستان میں بہت سی چیزیں آہستہ آہستہ ایسے بدل گئی ہیں کہ کسی کو احساس بھی نہیں ہوتا اور اکثر لوگ بالخصوص نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ اس میں ایسا کیا ہے۔ کونسی ایسی تبدیلی آئی ہے ہماری زندگیوں میں جس کا احسان مند ہوا جائے۔جو اچھا ہوا ہے وہ تو ہمیشہ ہی سے اچھا ہو رہا تھا اور جو برا ہے وہ تو ہمیشہ ہی برا تھا۔ شاید ایسا نہیں ہے۔مثلاً آج کسی کو یقین نہیں آتا کہ اس ملک میں ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ محلے میں اگر کسی شخص کے بارے میں یہ تاثر عام ہوجاتا تھا کہ اس نے اپنا عالیشان دو منزلہ مکان رشوت کے پیسے سے بنایا ہے تو ایک کمرے کے کوارٹر میں سرخ مرچوں کی چٹنی پر گزارہ کرنے والے مفلوک الحال شرفا بھی اپنے بچوں کو اس خوشحال شخص کے پاس سے گزرنے کو معیوب سمجھتے تھے۔ خود وہ شخص بھی اپنی تمام تر خوشحالی کے باوجود محلے میں جھینپا جھینپا سا رہتا تھا۔
اگر کسی طلبا تنظیم کے بارے میں یہ تاثر پختہ ہوجاتا تھا کہ وہ بدمعاشی کرتی ہے تو طلبا اسے ووٹ دینے سے کتراتے تھے.
کسے یقین آئے گا کہ اس پاکستان میں عام آدمی کا ایک خواب یہ بھی تھا کہ کسی طرح اسے پاسپورٹ مل جائے۔کسی طرح اس کے گھر میں ٹیلی فون لگ جائے۔جسے ان دونوں میں سے ایک بھی چیز میسر آجاتی تھی لوگ اس کے اثرو رسوخ کے قائل ہوجاتے تھے۔
اس معاشرے میں تین پیشوں کی بہت عزت تھی۔لوگ ڈاکٹر ، وکیل اور فوجی سے اٹھ کر ملتے تھے اور فخر سے دوسروں کو بتاتے تھے کہ میرا کزن ڈاکٹر ہے۔ میرا داماد وکالت سے وابستہ ہے یا میرا بیٹا فورسز میں ہے۔رشتوں کی دوڑ میں بھی اکثر انہی پیشوں سے وابستہ لوگ جیتتے تھے۔
گڈ گورننس کی اصطلاح کسی نے نہیں سنی تھی لیکن نلکے میں پانی ، بلب میں بجلی ، گندے پانی کی نکاسی ، مچھر مار اسپرے ، کتے مار مہم ، اسکول میں داخلہ ، سرکاری اسپتال میں پرچی پر کالا شربت اور گولی، بس میں باوردی کنڈیکٹر کا جاری کردہ ٹکٹ کوپن سب جانتے تھے۔کیا زمانہ تھا جب سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں ریلوے کا ٹائم ٹیبل بھی شامل تھا۔ یہ تمام سہولتیں جو بیسویں صدی میں فار گرانٹڈ سمجھی جاتی تھیں آج انہی کی فراہمی کے وعدے پر اکیسویں صدی کا ووٹر ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔
حالانکہ اس زمانے میں کوئی نہیں جانتا تھا کہ سول سوسائٹی کیا بلا ہوتی ہے۔ہیومین رائٹس کس پرندے کا نام ہے۔مگر لوگ زیادتی کے خلاف سڑک پر ضرور آتے تھے۔پتھراؤ بھی کرتے تھے۔پولیس فائرنگ میں مرتے بھی تھے مگر یہ تب کی بات ہے جب روزانہ ہڑتال کے مقابلے، دھوکے کی معیشت ، رہنماؤں کے دہرنے کردار اور اسٹیبلشمنٹ کی بے حسی نے عام آدمی کی کمر نہیں توڑی تھی۔
ہاں عدلیہ ویسی آزاد نہیں تھی جیسی اب ہے مگر لوگوں کو ہر مسئلے کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کی ضرورت بھی تو نہیں پڑتی تھی۔مخالف کی چھینک کو عدالت میں چیلنج کرنے کا فیشن بھی نہیں تھا۔سیاسی دشمنیاں ضرور تھیں لیکن انہیں ذاتی دشمنیوں کے خانے سے الگ رکھا جاتا تھا۔دشمن کے گھر والوں پر کوئی انگلی اٹھانے کی اخلاقی جرأت نہیں کرتا تھا۔کوئی سیاسی دشمنی جانی دشمنی نہیں تھی۔
ہاں اس زمانے میں جمہوریت بھی کم کم تھی۔ حکمرانوں کو کرسی سے اتارنا آسان نہیں تھا۔ہر راہ چلتا صاحب کو منہ بھر کے گالی بھی نہیں دے سکتا تھا۔ایوان صدر کجا ڈی سی آفس کے سامنے بھی دھرنا ناقابل تصور تھا۔پولیس کے پاس ربڑ کی گولیاں نہیں تھیں اور اسے مجمع کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی تکنیک بھی نہیں سکھائی جاتی تھی۔
ہاں اس دور میں بولنے کی آزادی کم کم تھی۔آج بولنے کی آزادی بہت ہے لیکن بولنے کے بعد کی آزادی اتنی کم کبھی نہیں تھی۔ہاں اس دور میں بھی کسی کو کسی کی بات بری لگ جاتی تھی اور ہاتھا پائی بھی ہوجاتی تھی۔لیکن آج بات دلیل اور ہاتھا پائی کے بعد بھی ختم نہیں ہوتی۔جب سر میں گولی اترتی ہے تب پتہ چلتا ہے کہ دلیل کی جنگ کس نے جیتی۔ہاں اس زمانے میں کبھی کبھی کسی طرف سے آواز آجاتی تھی کہ اسلام خطرے میں ہے۔لیکن آج اسلام خطرے میں ہو نا ہو مسلمان ضرور خطرے میں ہے۔
مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ پہلے عام آدمی کے جیب میں پیسے بہت کم ہوا کرتے تھے لیکن اس کی بنیادی ضروریات پوری ہو جایا
کرتی تھیں۔اب جیب پیسوں سے پھٹ جاتی ہے لیکن نہ سکت پوری ہے نہ ہوس کو پورا پڑ رہا ہے۔معلوم نہیں ہم آگے جارہے ہیں ، پیچھے جارہے ہیں یا دائرے میں گھومنے کو سفر سمجھ رہے ہیں۔ آپ کو یہ ماضی خواب سا لگتا ہے ناں ؟ مجھے بھی لگتا ہے۔ شاید میں عجیب ہوں، شاید آپ عجیب ہیں۔
اپنی تلاش کا سفر ختم بھی کیجئے کبھی خواب میں چل رہے ہیں آپ آپ بہت عجیب ہیں