چھاؤنیاں کالونیل نظام کی دین تھیں۔ ہندوستان میں سرکار انگلیشیہ اپنے آپ کو سپر ہیومن سمجھتے ہوئے کالونیاں بناتی تھی جس میں حفاظت سے اسلحہ سٹور رکھا جا سکے نیز افسران اور ان کے اہل خانہ کے واسطے گیٹڈ کمیونٹی ہو۔ قابض کو محکوم سے خطرہ رہتا ہے۔ اسی خطرے کے پیش نظر چھاؤنیاں بنائیں جاتی تھیں۔مراکو فرنچ کالونی تھا۔ یہاں فرانسیسی افواج نے چھاؤنیاں بنائیں تھیں۔ افریقہ کے بیشتر ممالک یا تو برطانوی کالونی تھے یا فرانس کے زیر تسلط تھے۔ آپ ساری مہذب دنیا گھوم لیں۔ قدم قدم پر چھاؤنیاں آپ کو صرف مملکت خداداد پاکستان میں ہی ملیں گی جو آج بھی پوری آب و تاب سے درخشاں و تاباں ہیں۔ باقی دنیا نے آزادی پاتے ہی چھاؤنیاں لپیٹ دیں۔ افواج رکھنا ہر ملک کا حق ہے اگر وہ اور اس کی عوام سمجھتے ہیں کہ دشمن سے خطرہ ہے تو ممالک فوج رکھتے ہیں مگر چھاؤنیاں نہیں پالتے۔یہ طبقاتی نظام کب کا ختم ہو چکا۔ مراکو کی فوج ہے اور سرحدوں پر ہے۔ یہاں ایک بھی چھاؤنی نہیں۔ فوجی افسران و سپاہی شہری آبادی میں عام انسانوں کی مانند سویلینز کے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ ترکی دیکھ لیں۔ ملائیشیا دیکھ لیں۔ آپ مسلم ممالک اٹھا لیں۔ سب پر نظر دوڑا لیں۔
ہمارے ہاں طبقاتی نظام کو گہرا کرنے والے ہی اس ملک کے نجات دہندہ ہونے کے دعویٰ دار ہیں اور ملک کی یہ حالت ہے۔ پھر کچھ کہیں تو بُرا بھی منا جاتے ہیں۔ سارا ملک اندھیروں میں ڈوب جائے چھاؤنیوں کے لئے سپیشل فیڈرز ہیں۔ عوام بھوک سے مر جائیں مگر چھاؤنیوں کے اپنے راشن ڈپو ہیں، ذخیرے ہیں۔ افواج پاکستان بہترین کاروبار کرنا جانتی ہے اور اچھی بات ہے ضرور کریں، کرتے رہیں، ان کے سارے ادارے منافع بخش اور عوام کے سارے ادارے خسارے میں۔ پھر بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ چورن بیچنا بند کر دیں کہ آپ نجات دہندہ ہیں۔ آپ بس پروفیشنل فوج ہیں، مسلح افواج ہیں اور خود کو سپر ہیومن سمجھتے ہوئے سپیشل سٹیٹس کے متقاضی ہیں۔