آج 28 مئی، یومِ تکبیر ہے۔ آج سے ٹھیک 24 سال پہلے، پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرکے برصغیر میں طاقت کا توازن برابر کردیا۔ لیکن اس کارنامے میں کئی ایسے نام بھی آتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ یہ تحریر ایسے ہی کرداروں اور واقعات کا تعارف پیش کرتی ہے۔
’’اگر ہندوستان ایٹم بم بناتا ہے تو ہم گھاس کھائیں گے، بھوکے رہ لیں گے لیکن اپنا ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔‘‘
یہ تاریخی الفاظ اس وقت کے وزیر خارجہ، جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1965ء میں مانچسٹر گارجیئن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہے اگرچہ قیام پاکستان کے فوراً بعد دوسرے درپیش مسائل کے پیش نظر کسی کو اس طرف دھیان دینے کا موقع نہ ملا، لیکن بھارت 1954ء سے ہی ’’ہومی بھابھا‘‘ کی سربراہی میں اپنا نیوکلیائی تحقیقی پروگرام شروع کرچکا تھا۔ 1954ء میں اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم، مشہور زمانہ ایٹمی سائنسدان نیلز بوہر سے ملنے کوپن ہیگن بھی گئے۔بہرحال، 1948ء میں جب قائد اعظم کی درخواست پر پروفیسر ڈاکٹر رفیع محمد چودھری پاکستان منتقل ہوئے، تو گورنمنٹ کالج لاہور میں ’’ہائی ٹینشن لیبارٹری‘‘ کی بنیاد رکھ کر انہوں نے پاکستان میں نیوکلیائی سائنس کی بنیاد رکھ دی تھی۔ یہیں سے فارغ ہونے والے، آپ کے قابل شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نے آگے چل کر ایٹم بم بنانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ آپ کے براہ راست شاگردوں میں ڈاکٹر اشفاق احمد (سابق چیئرمین، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن ، پروفیسر طاہر حسین (سربراہ شعبہ طبیعیات، گورنمنٹ کالج لاہور)، ڈاکٹر این ایم بٹ (پی اے ای سی)، ڈاکٹر جی ڈی عالم (پی اے ای سی اور کے آر ایل)، ڈاکٹر احسن مبارک (پی اے ای سی)، ڈاکٹر حمید اے خان (پی اے ای سی)، ڈاکٹر انعام الرحمن (پی اے ای سی)؛ اور پھر بالواسطہ شاگرد مثلاً ڈاکٹر طاہر حسین اور ڈاکٹر اشفاق احمد کے شاگرد، جن میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند (ایٹمی دھماکہ کرنے والی ٹیم کے سربراہ)، ڈاکٹر جے اے مرزا (سابق چیئرمین کے آر ایل) اور ڈاکٹر ایم ایم بیگ (نیسکوم کے سابق رکن) شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ وہ ہیں جو کسی تعریف کے محتاج نہیں۔
تاہم پاکستان نے ’’ایٹم برائے امن‘‘ کے پروگرام کے تحت 1955ء میں پر امن مقاصد کیلئے ایٹمی توانائی حاصل کرنے کیلئے ڈاکٹرنذیر احمدکی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی۔ کمیٹی کے مشورے پر 1956ء میں اعلیٰ اختیاراتی ’’اٹامک انرجی کونسل‘‘ قائم کی گئی جو گورننگ باڈی اور اٹامک انرجی کمیشن پر مشتمل تھی۔ ڈاکٹر نذیر احمد کو پاکستان اٹا مک انرجی کمیشن کا پہلا سربراہ مقرر کیا گیا۔ کمیشن کے مقاصد میں ایٹمی توانائی کے حصول کی منصوبہ بندی، تابکار مواد کا حصول، نیوکلیائی تحقیق سے متعلق ادارے کا قیام اور پاور ری ایکٹر (ایٹمی بجلی گھر) کی تعمیر شامل تھے۔کمیشن کو توانائی کے حصول اور تحقیقی پروگرام میں صبرآزما مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ملک میں تربیت یافتہ سائنسدانوں اور انجینئروں کا فقدان تھا۔ بہر حال، جب ایوب خان اقتدار میں آئے تو دسمبر 1958ء کی ایک سرد شام، ایوب کابینہ کے اجلاس میں معدنیات اور قدرتی وسائل کے وزیر، ذوالفقار علی بھٹو نے تقریر کرتے ہوئے کہا: ’’اگر دنیا میں یہودی بم ہوسکتا ہے، عیسائی بم ہوسکتا ہے، ہندو بم ہوسکتا ہے تو اسلامی بم کیوں نہیں۔‘‘
اس وقت ایوب خان نے اپنے نوجوان وزیر کی اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا؛ لیکن اس سے اندزہ ہوتا ہے کہ بھٹو، ہندوستان میں اس حوالے سے جاری پیش رفت سے آگاہ تھے۔ 1960ء میں ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی (ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی) کو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین، اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام (واحد نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان)کو صدر کا مشیر برائے سائنسی امور مقرر کیا گیا۔ ان دونوں صاحبانِ علم و دانش نے مل کر اس راستے میں حائل مشکلات دور کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔
آئی ایچ عثمانی نے ’’پنسٹیک‘‘ (پاکستان انسٹیٹیوٹ فار نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) کی بنیاد رکھی جہاں امریکہ سے ’’ایٹم برائے امن‘‘ پروگرام کے تحت ملنے والا، پانچ میگاواٹ کا تحقیقی ری ایکٹر نصب کیا گیا۔ ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام کے ساتھ مل کر نیوکلیائی سائنس اورانجینئرنگ میں افرادی قوت تیار کرنے کا جامع منصوبہ بنایا۔ چنانچہ 1960ء سے 1976ء کے دوران تقریباً چھ سو ذہین پاکستانی طالب علموں کو منتخب کرکے بیرون ملک تربیت کیلئے بھیجا گیا۔ عشرہ 1960ء کے اواخر میں ان کی اکثریت جب نیوکلیائی سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگریوں اور عملی تربیت سے لیس ہوکر وطن واپس آئی تو اس میدان میں پاکستان کے پاس قابل افراد کی کوئی کمی نہ رہی۔1963ء میں ذوالفقار علی بھٹو وزیر خارجہ بن گئے۔ اکتوبر 1965ء میں بھٹو صاحب کی ملاقات، ویانا میں منیر احمد خان سے ہوئی۔ منیراحمد خان اُس وقت عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے ری ایکٹر ڈویژن میں سینئر افسر کی حیثیت سے کام کررہے تھے۔ منیر اے خان نے بھٹو صاحب پر زور ڈالا کہ پاکستان کوایٹم بم بنانے کیلئے سنجیدگی سے سوچنا چاہئے۔دسمبر 1965ء میں، جب ایوب خان لندن کے دورے پر تھے، تو بھٹو صاحب نے منیر احمد خان کے ساتھ صدر کی ایک ملاقات کا اہتمام کیا۔ منیر احمد خان نے صدر کو اس پر قائل کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ اب پاکستان کواپنے دفاع کیلئے ایٹم بم بنانا چاہئے مگر وہ ناکام رہے۔ تب بھٹو صاحب نے منیر احمد خان کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا ’’آپ پریشان نہ ہوں، ہماری باری بھی آئے گی۔‘‘
20 دسمبر 1971ء کو جب ذوالفقار علی بھٹو نے ٹوٹے پھوٹے پاکستان کا اقتدار سنبھالا، تو گویا انہیں اپنا یہ عہد پورا کرنے کا موقعہ بھی مل گیا۔ انہوں نے 9 فروری 1972ء کے روز نامور پاکستانی ایٹمی سائنسدانوں کا ایک اجلاس، ملتان میں منعقد کیا۔ منیر احمد خان کو ویانا سے بلا کر پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کا نیا چیئرمین مقرر کرتے ہوئے، بھٹو صاحب نے سائنس دانوں کو یہ ہدف دیا کہ انہیں جلد سے جلد ایٹم بم چاہئے۔
عہدہ سنبھالنے کے دو مہینے کے اندر اندر ہی منیر احمد خان نے ایٹم بم بنانے کا ایک تفصیلی منصوبہ، تحریری طور پر بھٹو صاحب کے سامنے پیش کردیا۔ اس منصوبے میں کئی ایک نئی تجربہ گاہوں اور تحقیقی اداروں کے قیام کی تجویز دی گئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ کینیڈا اور فرانس سے نیوکلیئر پروسیسنگ پلانٹ خریدنے کے معاہدے بھی کئے گئے۔ شومئی قسمت کہ جب پلانٹ کی تنصیب کا وقت آیا، تو مئی 1974ء میں ہندوستان نے ’’مسکراتا بدھا‘‘ (Buddha Smiles) کے نام سے، پوکھران (راجستھان) میں ایٹمی دھماکے کردیئے۔جواباً پاکستان نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی سے متعلق بین الاقوامی معاہدے (این پی ٹی) پر دستخط کرنے سے انکار کردیا، جس کی وجہ سے یہ معاہدہ بھی منسوخ ہوگیا۔
(یوں لگتا ہے جیسے ہندوستانی حکومت نے اپنے اوّلین ایٹمی دھماکوں کو گوتم بدھ سے منسوب کرکے بدھ ازم کا مذاق اُڑایا تھا؛ کیونکہ بدھ مت کی تعلیمات میں عدم تشدد اور امن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔)
ہندوستان کے ایٹمی دھماکوں کے فوراً بعد پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کیلئے ضروری تھا کہ پاکستان کے پاس بھی اپنے دفاع کیلئے ایٹم بم ہو۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کی وجہ سے قوم کے حوصلے بھی پست تھے۔ اور قوم کا حوصلہ بلند کیلئے ضروری تھا کہ جلد از جلد کوئی خوشخبری سنائی جاتی۔ چنانچہ ایٹمی پروگرام پر کام کی رفتار تیز کردی گئی۔فروری 1975ء میں منیر احمد خان نے ذوالفقار علی بھٹو سے ایک منصوبے کے تحت 450 ملین ڈالر (45 کروڑ ڈالر) منظور کروائے۔ اس منصوبے کے تحت پلوٹونیم اور یورینیم کی کھدائی اور کان کنی کا ایک پلانٹ؛ اور ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کچدھات کو یورینیم ہیگزا فلورائیڈ (UF-6) گیس میں تبدیل کرنے کا ایک پلانٹ لگایا گیا۔ (یورینیم ہیگزا فلورائیڈ گیس کو بعد ازاں یورینیم کی افزودگی میں استعمال کیا جاتا ہے۔) اکتوبر 1974ء میں ’’کہوٹہ پروجیکٹ‘‘ کے نام سے سینٹری فیوج تکنیک کے ذریعے یورینیم افزودگی کیلئے سائنسدانوں کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا؛ جس کی سربراہی سلطان بشیر الدین محمود کو سونپی گئی۔چکلالہ ایئربیس کے نزدیک، دوسری جنگ عظیم کے دوران بنائی گئی فوجی بیرکوں میں، جو تب تک خستہ حال ہوچکی تھیں ’’ایئرپورٹ ڈیویلپمنٹ ورک شاپ‘‘ کے نام سے کام کا آغاز کیا گیا۔ بقول سلطان بشیر الدین محمود، شروع میں عمارتیں بنانے سے زیادہ توجہ کام کو سر انجام دینے اور اسے خفیہ رکھنے پر دی گئی۔
جولائی 1976ء میں جب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو اس منصوبے کی سربراہی دی گئی تو اُس وقت تک سینٹری فیوج مشین کا ڈیزائن اور پروسیس پلانٹ کا کام مکمل ہوچکا تھا۔ شروع میں پلوٹونیم سے بم بنانے کا منصوبہ تھا، لیکن 1974ء میں ایک نیا واقعہ رونما ہوگیا۔
پاکستانی نژاد سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو، جو بنیادی طور پر دھات کاری کے ایک ماہر (میٹالرجسٹ) تھے، 1972ء میں ’’فزیکل ڈائنامکس ریسرچ لیبارٹری‘‘ (ایف ڈی او)، ایمسٹرڈیم میں ملازمت ملی۔ یہ کمپنی ’’یورینکو‘‘ نامی یورینیم افزودگی پلانٹ کیلئے سینٹری فیوج مشینیں بنانے کا کام کرتی تھی۔ یہاں ابتداء میں خان صاحب کو دو سینٹری فیوج مشینوں ’’CNOR‘‘ اور ’’SNOR‘‘ پر کام کرنے کام موقع ملا۔ جلد ہی خان صاحب نے یہاں اپنا اعتماد قائم کرلیا۔ کئی دوسری زبانوں میں مہارت کے باعث خان صاحب کو متعدد خفیہ دستاویزات ترجمہ کرنے کا موقع بھی ملا۔ ڈاکٹر خان وہاں کام کے دوران اپنے نوٹس بھی تیار کرتے رہتے۔ ستمبر 1974ء میں ڈاکٹر خان نے بھٹو صاحب کا خط لکھ کر اپنی خدمات پاکستان کیلئے پیش کیں۔جنوری 1976ء میں ڈاکٹر خان نے پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن میں شمولیت اختیار کرلی۔ شروع میں انہیں کہوٹہ پروجیکٹ میں ریسرچ ڈائریکٹر کی ملازمت ملی۔ تاہم، جلدی ہی انہیں یہاں کام کرنے کے انداز اور صورتحال سے اختلاف ہونے لگا۔ اس پر بھٹو صاحب نے اس گروپ کو اٹامک انرجی کمیشن سے الگ کرکے ایک خودمختار ادارہ بنانے کی منظوری دے دی؛ جس کی سربراہی خان صاحب کو سونپی گئی۔
یوں ’’پروجیکٹ 706‘‘ کے خفیہ نام سے 31 جولائی 1976ء کو اسلام آباد سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر، کہوٹہ کے مقام پر ’’انجینئرنگ ریسرچ لیبارٹریز‘‘ (ای آر ایل) کے قیام کا آغاز ہوا۔
کہوٹہ پروجیکٹ میں کام کرنے والے قابل ترین سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی خدمات جس میں جی ڈی عالم، جے اے مرزا اور انور علی شامل تھے ای آر ایل منتقل کردی گئیں۔ 1976ء کی آخری ششماہی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کیفیت یہ تھی کہ بھٹو صاحب کے زیر نگرانی دو متوازی راستوں پر ایٹم بم تیار کرنے کی جدوجہد شروع ہوچکی تھی: ایک طرف ری پروسیسنگ پلانٹ کیلئے سفارتی محاذ پر جنگ لڑی جارہی تھی تو دوسری جانب سہالہ میں یورینیم انرچمنٹ پلانٹ پر نہایت تیز رفتاری سے کام شروع ہوچکا تھا۔
اپنی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے بھٹو صاحب نے اسے دنیا کی نظروں سے اوجھل رکھا۔1976ء ہی میں جرمنی نے بھی یورینیم کی فراہمی سے انکار کردیا۔ تاہم پاکستان اُس وقت تک جنوبی پنجاب میں یورینیم کے اپنے ذخائر دریافت کرچکا تھا۔ 23 دسمبر 1976ء کو کینیڈا نے بھی کینپ (کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ) کیلئے ایندھن فراہم کرنے سے معذرت کرلی۔ 15 جون 1978ء کو فرانس نے بھی پاکستان کو چشمہ کے مقام پر تنصیب کیلئے ری پروسیسنگ پلانٹ فراہم کرنے سے منع کردیا۔لیکن تب تک اٹامک انرجی کمیشن کے با صلاحیت سائنسدان اپنا نیوکلیئر فیول سائیکل بنا چکے تھے۔ کہوٹہ میں افزودگی پلانٹ کی تنصیب کا کام بھی آخری مراحل میں تھا۔ افزودگی پلانٹ کیلئے زیادہ تر سامان انتہائی کامیاب حکمت عملی کے تحت بیرونِ ملک سے منگوایا گیا: مختلف جگہوں پر آرڈر دیئے جاتے تاکہ اگر ایک جگہ سے ٹھیکہ منسوخ ہو بھی جائے، تو دوسری جگہ سے مال پہنچ جائے۔
1976ء کے شروع میں پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی جانب سے ایٹم بم کے آزمائشی دھماکے کیلئے جگہ کا انتخاب کرنے کی غرض سے ڈاکٹر اشفاق احمد خان کو بلوچستان بھیجا گیا اور یہ اعزاز ’’راس کوہ رینج‘‘ میں، چاغی کے حصے میں آیا۔ سار ا پروگرام خفیہ رکھتے ہوئے وہاں مشینیں پہنچائی گئیں، اور غاریں بنانے کا کام شروع ہوا۔اسی دوران 5 جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے بھٹو صاحب کی حکومت برطرف کردی اور مارشل لاء لگادیا۔ تاہم انہوں نے بھی ایٹمی پروگرام کی راہ میں کوئی رکاوٹ آنے نہ دی اور یہ کام جاری رہا۔ یہ صبر آزما مراحل تمام ہونے کے بعد، 4 اَپریل 1978ء کو کہوٹہ میں ڈاکٹر جی ڈی عالم نے پہلا سینٹری فیوج کامیابی سے چلالیا۔ 1979ء کے اختتام تک ’’کہوٹہ انرچمنٹ پروجیکٹ‘‘ ہر لحاظ سے مکمل ہوچکا تھا اور یہاں سے افزودہ یورینیم کی پیداوار شروع ہوچکی تھی۔ڈاکٹر خان اچھے منتظم تھے؛ اور پھر انہیں ’’پنسٹیک‘‘ سے انتہائی قابل افراد کی ٹیم بھی مہیا کی گئی تھی۔ یہ تمام افراد فنی نوعیت کے کاموں میں ماہر تھے جن کی تربیت ڈاکٹر آئی ایچ عثمانی کے دور میں بیرون ملک انتہائی اعلیٰ تجربہ گاہوں میں، نیوکلیائی سائنس کے مانے ہوئے ماہرین نے کی تھی۔دوسری طرف اٹامک انرجی کمیشن کے سائنسدانوں نے یورینیم کی کان کنی اور صفائی (ریفائنمنٹ) کے بعد، بالآخر اسے UF-6 گیس میں تبدیل کرلیا۔ یہ گیس اب افزودگی کیلئے کہوٹہ والوں کے حوالے کی جانی تھی جہاں جی ڈی عالم اور جے اے مرزا کی نگرانی اور ڈاکٹر خان کی رہنمائی میں افزودگی کا کام جاری تھا۔ پی اے ای سی کے سائنسدان اس کے ساتھ ساتھ ایٹم بم کے دوسرے حصوں پر بھی کام شروع کرچکے تھے۔یورینیم افزودگی سے بہت پہلے، 1974ء میں، منیر احمد خان نے ایک اجلاس بلایا تھا جس میں حفیظ قریشی، ڈاکٹر عبدالسلام اور ریاض الدین شامل تھے۔اس اجلاس میں حفیظ قریشی کی نگرانی میں ’’واہ گروپ‘‘ بنایا گیا جسے ’’ویپن امپلوژن سسٹم‘‘ (weapon implosion system) ڈیزائن کرنے کاکام سونپا گیا۔ واہ گروپ نے 1983ء کے اختتام تک اپنا کام مکمل کرلیا تھا۔11 مارچ 1983ء کو پی اے ای سی کے سائنسدانوں نے ڈاکٹر اشفاق احمد کی قیادت میں سرگودھا کے قریب ’’کیرانہ ہلز‘‘ کے مقام پر ’’کیرانہ-1‘‘ کے نام سے ایٹم بم کا پہلا ’’کولڈ ٹیسٹ‘‘ کامیابی سے انجام دیا۔ 1983ء ہی میں دوسرا کولڈ ٹیسٹ بھی کیا گیا، جسے دیکھنے کیلئے غلام اسحاق خان، جنرل کے ایم عارف اور منیر احمد خان بھی موجود تھے۔ 1983ء سے 1990ء کے اوائل تک پی اے ای سی نے 24 کولڈ ٹیسٹ مکمل کرلئے تھے۔ یوں 1983ء کے اختتام تک پاکستان کا ایٹم بم دھماکے کیلئے تیار تھا۔یکم مئی 1981ء کو جنرل ضیاء الحق نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کے اعتراف میں ای آر ایل کا نام بدل کر ’’خان ریسرچ لیبارٹریز‘‘ (کے آر ایل) رکھنے کی منظوری دی۔ اگرچہ یہ دعوٰی کیا جاتا ہے کہ مارچ 1984ء میں کے آر ایل نے بھی پی اے ای سی سے جداگانہ طور کولڈٹیسٹ کئے تھے، لیکن 1998ء میں ایٹمی دھماکوں کی تمام تر ذمہ داری پی اے ای سی نے سنبھالی ہوئی تھی، اور ان ہی کے بنائے ہوئے بم یہاں ٹیسٹ کئے گئے۔ کے آر ایل کا پروگرام یا تو اضافی نوعیت کی (بیک اپ) کوشش تھی یا پھر، جیسا کہ بعض ناقدین کا کہنا ہے، ڈاکٹر خان کی جانب سے ایک دکھاوا اور اپنی بڑائی ثابت کرنے کی مہم کا حصہ تھا۔
7 جون 1981ء کے روز عراق کی ایٹمی تنصیبات پر اسرائیلی حملے (آپریشن اوپرا) کے ایک سال بعد پاکستان کی ’’انٹر سروسز انٹیلی جنس‘‘ (آئی ایس آئی) کو خبر ملی کہ اندرا گاندھی نے اپنی فضائیہ کو ’’کہوٹہ پر حملہ‘‘ کے خفیہ نام سے کے آر ایل پر حملے کا عندیہ دے دیا ہے۔ چنانچہ پاک فضائیہ کو فوری طور پر چوکنا کردیا گیا؛ اور ’’آپریشن سینٹی نل‘‘ (Operation Sentinel) کے نام سے بھارتی فضائی حملے کا مقابلہ کرنے کیلئے پاکستان نے اپنا آپریشن شروع کیا۔
1983ء میں منیر اے خان ویانا میں اپنے بھارتی ہم منصب کے ساتھ آئی اے ای اے کی جنرل کانفرنس میں شریک تھے۔ انہوں نے اپنے بھارتی ہم منصب، ڈاکٹر راجہ رامنا (راجہ رامن) کو ایک نجی ملاقات میں بتایا کہ اگر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کیا گیا، تو پاکستان بھی ’’ٹرامبے‘‘ میں بھارت کی نیوکلیائی تنصیبات کو نشانہ بنانے کیلئے تیار ہے۔ واپسی پر راجہ رامنا نے بھارتی وزیراعظم، اندرا گاندھی کو یہ پیغام پہنچایا تو انہوں نے فوراً یہ حملہ منسوخ کرنے کا حکم دے دیا۔اسی طرح دسمبر 1986ء میں ہندوستان نے راجستھان بارڈر پر جنگی مشقیں شروع کیں اور اپنی نو ڈویژن فوج بارڈر پر لے آیا۔ اس سے پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوگئے؛ اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ جنگ چھڑنے کا اندیشہ پیدا ہوگیا۔ 18 جنوری 1987ء کو یہ خبر پھیلی کہ بھارت نے پنجاب میں اپنی فضائی افواج (بھارتیا وایو سینا) کی مدد سے اپنے کمانڈوز اتارنے کا منصوبہ بنالیا ہے۔
تب جنرل ضیاء الحق نے ’’کرکٹ ڈپلومیسی‘‘ کا سہارا لے کر ہندوستان کا دورہ کیا اور اندرا گاندھی کے کان میں کہا: ’’پٹاخہ ہمارے پاس بھی ہے،‘‘ اور اندرا گاندھی کو فوجیں واپس بلانی پڑیں۔اگرچہ عشرہ 1980ء کے وسط میں پاکستان نے اپنا بیلسٹک میزائل پروگرام بھی شروع کردیا تھا، تاہم اس میں کچھ خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔ لیکن جب فروری 1988ء میں ہندوستان نے اپنے ’’پرتھوی میزائل‘‘ کا تجربہ کیا تو چین کو پاکستان کی مدد کرنے کیلئے آگے آنا پڑا۔ چین نے 600 کلومیٹر رینج والے ’’ایم نائن‘‘ (M-9) اور 280 کلومیٹر رینج کے حامل ’’ایم الیون‘‘ (M-11) بیلسٹک میزائل سسٹم، ٹیکنالوجی سمیت پاکستان کو فراہم کردیئے۔
7 فروری 1992ء کو پاکستان کے وزیر خارجہ شہریا ر خان نے واشنگٹن پوسٹ کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان کے پاس ایک سے زیادہ ایٹم بم بنانے کی صلاحیت ہے۔ کسی بھی اعلیٰ پاکستانی عہدیدار کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی موجودگی کا یہ پہلا اعتراف تھا۔1998ء کے اوائل تک پاکستان نے 80 کلومیٹر تک مار کرنے والے ’’حتف اوّل‘‘ اور 300 کلومیٹر تک مار کرنے والے ’’حتف دوم‘‘ بیلسٹک میزائلوں کے کامیاب تجربات کرلئے تھے۔ پھر 6 اپریل 1998ء کو پاکستان نے ’’غوری‘‘ بیلسٹک میزائل کا تجربہ بھی کیا، جو 1,500 کلومیٹر تک کی حدِ ضرب رکھتا ہے۔ یوں پاکستان نے نیوکلیئر وارہیڈ (ایٹمی ہتھیار) ہدف تک پہنچانے اور نیوکلیائی ہتھیاروں کو داغنے کی صلاحیت بھی حاصل کر لی۔
(مزید دیکھئے: اَب دلّی دور نہیں، گلوبل سائنس، شمارہ مئی 1998ء، صفحہ نمبر 10 تا 19، از: علیم احمد۔)
1992ء میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی سربراہی میں ’’نیشنل ڈیویلپمنٹ کمپلیکس‘‘ (NDC) قائم کیا گیا جہاں ’’شاہین‘‘ بیلسٹک میزائل کی تیاری پر کام شروع ہوا۔ اس سلسلے کے پہلے میزائل ’’شاہین اوّل‘‘ کا کامیاب تجربہ 1996ء کے شروع میں کیا گیا۔ اب صرف ایٹم بم کے ٹیسٹ کا انتظار تھا۔11 مئی 1998ء کی سہ پہر، ساری دنیا اس وقت حیران رہ گئی جب اُس وقت کے بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تین نیوکلیائی ٹیسٹ کرنے کا
اعلان کیا۔ مزید حیرانی تب ہوئی جب اگلے دن دو اور ٹیسٹ کرنے کا اعلان کیا گیا۔ جوابی پریس کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ گوہر ایوب نے کہا کہ ہم ہندوستان کو جواب دینے کیلئے ہر وقت تیار ہیں۔اُس وقت کے پاکستانی وزیراعظم، میاں محمد نواز شریف پر ایٹمی دھماکے کرنے کیلئے قوم کی طرف سے بے پناہ دباؤ تھا۔ دوسری طرف امریکہ سمیت، کم و بیش تمام اقوامِ عالم پاکستان پر ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہی تھیں۔ اِس کے باوجود، پورے ملک میں یہ نعرہ گونج رہا تھا: ’’میاں صاحب! دھماکہ کردیجئے ورنہ قوم آپ کا دھماکہ کردے گی۔‘‘
15 مئی 1998ء کے روز کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا ایک اجلاس بلایا گیا۔ چونکہ ڈاکٹر اشفاق احمد صاحب بیرون ملک تھے، اس لئے کابینہ کو بھارتی ایٹمی دھماکوں کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرنے اور جوابی پاکستانی تیاریوں کے بارے میں بتانے کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے کاندھوں ہی پر آن پڑی۔ڈاکٹر ثمر مبارک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ 11 مئی کو ہندوستان کا صرف ایک ہی ٹیسٹ کامیاب ہوا تھا؛ اور اگر پاکستان نے دھماکہ کرنے کا فیصلہ کرلیا تو پاکستان اٹامک انرجی کمیشن صرف دس دنوں میں ایٹمی دھماکہ کرنے کیلئے بالکل تیار ہے۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کے آر ایل کی طرف سے بتایا کہ اگر انہیں یہ ذمہ داری دی جائے تو وہ تین مہینے کے اندراندر دھماکہ کرسکتے ہیں۔ کے آر ایل اور پی اے ای سی، دونوں تیار تھے لیکن پی اے ای سی کو دو وجوہ سے برتری حاصل تھی: ایک تو یہ کہ پی اے ای سی کے پاس کولڈ ٹیسٹ کا وسیع تجربہ موجود تھا؛ اور دوسری یہ کہ چاغی کی سائٹس، پی اے ای سی نے ہی تیار کروائی تھیں۔16 مئی کو وزیر خارجہ نے اعلان کیاکہ پاکستان کی طرف سے دھماکہ تو یقینی ہے؛ صرف وقت کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔ 17 مئی کو میاں نوازشریف نے ڈاکٹر اشفاق احمد اور ڈاکٹر ثمر مبارک کے ساتھ ایک ملاقات میں انہیں ایٹمی دھماکے کیلئے تیار رہنے کو کہا۔ 18 مئی کو چیئرمین پی اے ای سی کو دوبارہ وزیرا عظم ہاؤس بلا کر کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا فیصلہ سنادیا گیا: ’’دھماکہ کردیجئے۔‘‘ چونکہ چاغی میں چھ دھماکے کرنے کی گنجائش تھی، لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ
چھ ٹیسٹ ہی کئے جائیں گے۔
19 مئی کو پی اے ای سی کے 410 سائنسدانوں کی ایک ٹیم چاغی پہنچ چکی تھی۔ وہاں پہلے ہی سے ڈی ٹی ڈی، تھیوریٹیکل گروپ اور واہ گروپ کے لوگ موجود تھے۔ 24 مئی تک نیوکلیئر ڈیوائس کی تنصیب کرکے تاریں بچھائی جاچکی تھیں۔ 26 مئی تک جگہ کو مکمل طور پر سربند (sealed) کردیا گیا۔
27 مئی کو امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو کی گئی، 25 منٹ تک جاری رہنے والی فون کال میں ان سے ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کی گزارش کرتے ہوئے اس کے بدلے میں پاکستان کو بیش بہا امداد دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن اس سے بہت پہلے ہی 28 مئی 1998ء کی سہ پہر تین بجے ایٹمی دھماکہ کرنے کا وقت طے کیا جاچکا تھا۔
چاغی میں اس روز موسم صاف اور خوشگوار تھا۔ گراؤنڈ زیرو (ایٹمی دھماکے والے علاقے) سے متعلقہ لوگوں کے سوا تمام افراد کو ہٹالیا گیا تھا۔ 2 بج کر 30 منٹ پر پی اے ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جاوید ارشد مرزا اور فرخ نسیم بھی وہاں موجود تھے۔ تین بجے تک ساری کلیئرنس دی جاچکی تھی۔ پوسٹ پر موجود بیس افراد میں سے محمد ارشد کو، جنہوں نے ’’ٹرگرنگ مشین‘‘ ڈیزائن کی تھی، بٹن دبانے کی ذمہ داری دی گئی۔ تین بج کر سولہ منٹ پر محمد ارشد نے جب ’’اﷲ اکبر‘‘ کی صدا بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا تو وہ گمنامی سے نکل کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئے۔بٹن دباتے ہی سارا کام کمپیوٹر نے سنبھال لیا۔ اب ساری نگاہیں دس کلومیٹر دور پہاڑ پر جمی ہوئی تھیں۔ دل سہمے ہوئے لیکن دھڑکنیں رک گئی تھیں۔ بٹن دبانے سے لے کر پہاڑ میں دھماکہ ہونے تک صرف تیس سیکنڈ کا وقفہ تھا؛ لیکن وہ تیس سیکنڈ، باقی ساری زندگی سے طویل تھے۔ یہ بیس سال پر مشتمل سفر کی آخری منزل تھی۔ یہ بے یقینی اور شک کے لمحات سے گزر کر، مشکلات اور مصائب پر فتح پانے کا لمحہ تھا۔جونہی پہاڑ سے دھوئیں اور گرد کے بادل اٹھے، آبزرویشن پوسٹ نے بھی جنبش کی۔ پہاڑ کا رنگ تبدیل ہوا اور ٹیم کے ارکان نے اپنی جبینیں، سجدۂ شکر بجالاتے ہوئے خاک بوس کردیں۔ اب وہ لمحہ آن پہنچا تھا جب پاکستان، دنیا کی بڑی طاقتوں
کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرسکتا تھا۔ یہ لمحات پاکستان کی تاریخ میں عزت، وقار اور شان و شوکت کا تاج بن کر تاریخ میں رقم ہورہے تھے- پاکستان بالآخر مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔
سہ پہر تین بجے میاں نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب کا آغاز کیا: ’’آج ہم نے پانچ کامیاب نیوکلیائی دھماکے کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے سنہرا باب ہے۔‘‘ انہوں نے اس پر پوری قوم، پاکستانی سائنسدانوں اور باالخصوص پی اے ای سی اور کے آرایل کے سائنسدانوں کوہدیہ تہنیت پیش کیا۔
ہم نے ایٹم بم تو بنالیا، لیکن ملکی سالمیت آج بھی خطرے میں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب مل کر وطن عزیزکے دفاع کو مضبوط بنائیں اور اس کے خلاف ہونے والی سازشوں کے سامنے اسی جذبے کے ساتھ سینہ سپر ہوجائیں، کہ جس جذبے نے ایٹمی دھماکوں کو ناممکن سے ممکن بنادیا تھا۔
بشکریہ : ماہنامہ گلوبل سائنس، شمارہ جولائی 2013ء میں شائع شدہ تحریر