مذاہب نے انسان اور زمین کی برتر حیثیت کے حوالے سے جو خوش رنگ تصویر پیش کی ہے اس کی جدید علوم سے تائید نہیں ہو رہی
مذہبی تصورِ انسان کو نیچے دیے گئے چند بڑے دھچکوں میں سے پانچ کا ذکر پیش خدمت ہے جو عِلمی و فِکری انقلابات سے کم نہیں ہیں
پہلا دَھچکا اور سب سے زور دار دھچکا
جب ڈارون نے کہا کہ انسان ازل سے بنا بنایا اشرف المخلوقات نہیں بلکہ ایک ارتقا پذیر جانور ہےجو زمین کی پَستی سے دوسرے حیوانوں کی طرح ارتقا کرتا ہوا آج انسان کی شکل و صورت اختیار کر گیا ہے جس کی تصدیق Fossil Records اور DNA سے ہوئی ہے
ارتقا ہنوز جاری ہے اور انجامِ ارتقا کیا ہوگا، کس سمت میں ہوگا یہ حَتمی طور پر اِس لیے نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ایک جاندار اپنے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالتا ہے تاکہ وہ زندہ رہ کر اپنی نَسل بڑھائے-آج سے لاکھوں بَرس بعد کیسے حالات ہوں گے، جاندار بشمول انسان کیسے ان حالات میں خود کو ڈھالیں گے یا اثر انداز ہوں گے-
کون سی انواع نیست و نابُود ہوں گی اور کون سی زندہ اور کس ہیّت میں ہوں گی یہ تو وقت ہی بتائے گا
دوسرا دَھچکا
جب کیپلر اور گلیلیو نے ثابت کیا کہ زمین کائنات کا مرکز و مَحور نہیں اور نہ ہی سورج اس کے گرد گھومتا ہےبلکہ اس وسیع و عریض کائنات میں زمین کی کوئی حیثیت نہیں یہ سمندر میں ایک چھوٹی سی کَنکری کی مانند ہے اور خود زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں-اس کے علاوہ جدید تحقیق کے مطابق ہمارا سورج خود ہماری کہکشاں کا ایک ادنیٰ ستارہ ہے اور کائنات میں کروڑوں کی تعداد میں کہکشائیں ہیں جو ہماری کہکشاں سے بھی بڑی ہیں-جب اتنی وسیع کائنات میں ہمارے سورج کی ہی کوئی حیثیت نہیں تو ہماری زمین کی کیا ہوگی-
تیسرا دَھچکا
جب کارل مارکس نے کہا کہ انسانی سماج ارتقا کر کے آگے بڑھا ہے اور اس کے پیچھے مُحرکات مادی ہیں-یہ سارا مادی وسائل پہ دسترس اور قبضے کی بات ہے جو ہاتھ بدلتے رہتے ہیں-تقدیر محض ایک قِصّہ ہے جو اوپر والے/حُکمران طبقے نے لوگوں کو اپنے حالات پہ خوش رہنے کے لئے گَھڑا ہے تاکہ وہ بغاوت نہ کر سکیں-اور اپنے موجودہ حالات پہ خوش رہ سکیں یا یوں کہیں کہ لوگ خود ہی اپنی تقدیر بناتے ہیں محنت سے، بغاوت سے اور ذرائع پیداوار پہ قابض ہو کے-
چوتھا دَھچکا
جب سگمنڈ فرائڈ نے کہا کہ انسان جسے عقل و شعور کی وجہ سے اَشرف المخلوقات مانا جاتا ہے دراصل اس کے شعور پہ جِبلی خصلتیں حاوی ہیں-روز مرہ کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات زیادہ تر انسان کی جبلی و نفسانی خواہشات کا مظہر ہیں اور عقل تو جیسے ان خواہشات کی لونڈی ہے جو ان کی تسکین و تسلی کے لیے راہ ہموار کرتی ہے
انسانی ذہن ان جِبلی قوتوں، جن کا منبع سیکس ہے کی آماجگاہ ہےجو فرد کے اندر سے معاشرے میں اپنی رونمائی چاہتی ہیں-
ان کے بِلا روک ٹوک باہر آنے سے تہذیب کو خطرہ ہے اور ان کو بے جا دَبانے سے انسانی شخصیت/ذہن کو خطرہ ہے-
اس لیے عقل وقتاً فَوقتاً کوئی نہ کوئی راہ نکالتی رہتی ہے جس سے ان جِبلی خواہشات کی تسکین ہوتی رہتی ہے-
پانچواں دھچکا
جب Evol: Psychology, Neuroscience اور Cognitive Science نے تحقیق سے ثابت کیا کہ انسانی ذہن ہمیشہ اپنے ماحول کو اپنے حساب سے ترتیب Order دیتا ہے-واقعات میں کوئی مقصد نہ ہوتے ہوئے بھی مقصد ڈھونڈھ لیتا ہے اور چیزوں میں مخصوص ترتیب Patterns دیکھتا ہے-جیسے کہ آسمان میں چہرے دیکھنا، دیواروں پر سائے میں سے کسی کی تصویر تلاش کرنا وغیرہ-یعنی یہ سب انسانی ذہن کی کرشمہ سازی ہے جسے ارتقا نے ایسے بنایا ہے -