آئیے آج آپ کو دشمنِ اسلام و فرعونِ امت ابو جہل کی بہو کا قصہ سناتے ہیں۔ ابو جہل نے اپنے بیٹے سیدنا عکرمہؓ کا نکاح اپنی بھتیجی ام حکیمؓ بنت حارث بن ہشام بن مغیرہ مخزومی سے کیا۔ یہ ام حکیمؓ جہاں رشتے میں ابو جہل کی بھتیجی و بہو تھیں وہی سیدنا خالدؓ بن ولید کی بھانجی بھی تھیں کیونکہ ان کی والدہ سیدہ فاطمہؓ بنت ولید بن مغیرہ سیدنا خالدؓ بن ولید بن مغیرہ کی بہن تھیں جیسا کہ اُسدُ الغابہ میں علامہ ابن اثیر جزری نے سیدہ ام حکیم کے ترجمے میں تصریح کی ہے۔ واقدی نے کتاب المغازی میں لکھا ہے کہ یہ ماں بیٹی سیدہ ہندؓ بنت عتبہ اور قریش کی دیگر خواتین کے ساتھ فتح مکہ کے موقع پر ایمان لائیں اور سیدہ ہندؓکی سرکردگی میں نبی ﷺکی بیعت کے لیے حاضر ہوئیں۔
اسلام قبول کرنے کے بعد سیدہ ام حکیمؓ نے نبیﷺ سے اپنے شوہر عکرمہؓ بن ابی جہل کے لیے امان طلب کی جو فتح مکہ کے بعد نبیﷺ کے خوف سے یمن کی طرف فرار ہوگئے تھے۔ نبیﷺ نے سیدہ ام حکیمؓ کی سفارش پر سیدنا عکرمہؓ کے لیے امان کا اعلان کردیا ۔ سیدنا عکرمہؓ کا قبولِ اسلام کا جو واقعہ علامہ واقدی نے کتاب المغازی میں روایت کیا ہے وہ نہایت رقت آمیز ہے۔ ان شاءاللہ کبھی سیدنا عکرمہ ؓ سے متعلق تفصیلی تحریر لکھی تو وہ واقعات اپنی تمام جزئیات کے ساتھ نقل کرونگا۔ خیر آمدم برسر مطلب! سیدہ ام حکیم ؓ نبیﷺ سے اپنے شوہر کے لیے امان کا پروانہ ملتے ہی اپنے رومی غلام کے ساتھ عازمِ یمن ہوئیں علامہ واقدی کہتے ہیں کہ راستے بھر ان کا رومی غلام ان کو بہکاتا اور ورغلاتا رہا لیکن وہ شریف عورت اس سے اپنا دامن بچاتی رہیں یہاں تک کہ قبیلہ عک کے ایک محلے تک جا پہنچیں پھر ان قبیلے والوں سے انہوں نے اپنے غلام کے خلاف مدد مانگی تو انہوں نے اس کو رسیوں سے باندھ دیا۔ اتنے میں سیدہ ام حکیمؓ کو سیدنا عکرمہؓ بھی مل گئے جو تہامہ کے کسی ساحل تک جاپہنچے تھے اور کشتی کے طوفان میں پھنسنے کے سبب واپس آگئے تھے۔ سیدہ ام حکیمؓ نے جناب عکرمہؓ کو نبیﷺ کی امان سے مطلع کرکے آپﷺ کے اوصافِ حمیدہ گنوائے اور ان کو واپس مکہ چلنے پر آمادہ کر لیا۔مکہ واپسی پر عازمِ سفر ہوتے ہوئے سیدنا عکرمہؓکو جب اس رومی غلام کی حرکت کا پتہ چلا تو انہوں نے اس کو قتل کردیا۔ براستہ مکہ جناب عکرمہؓ نے کئی دفعہ سیدہ ام حکیمؓ سے خلوت کا مطالبہ کیا لیکن سیدہ ام حکیمؓ ہر دفعہ یہ کہہ کر آپ کے مطالبے کو سختی سے رد کرتی رہیں کہ تم کافر ہو اور میں مسلمان ہوں، جب تک تم اسلام قبول نہیں کرلیتے، ہمارے درمیان تعلقاتِ زن و شو قائم نہیں ہوسکتے۔ سیدنا عکرمہؓ ا ن کے اس جواب پر نہایت حیران ہوتے اور کہتے کہ واللہ جس معاملے نے تجھے مجھ سے روک دیا ہے، وہ یقیناً کوئی بڑا معاملہ ہے۔تاہم علامہ ابن عبدالبر الاستیعاب میں لکھتے ہیں کہ جب سیدنا عکرمہؓ نے نبیﷺ کی خدمت میں پہنچ کر اسلام قبول کیا تو آپﷺ نے سیدہ ام حکیمؓ اور سیدنا عکرمہؓ کے نکاح کو برقرار رکھا ۔
یہاں سیدنا عکرمہؓ سے متعلق ایک واقعہ کا ذکر ضروری ہے جس میں ہمارے آج کے ان ناصحین کے لیے سبق پوشیدہ ہے جو کسی بھی مردہ شخصیت سے اپنے الجھن و تنفر کے سبب اس کا نام غلط انداز سے لیتے ہیں یا اس کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ جس سے اس مردہ شخص سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے والوں کی دل آزاری یا ان کو تکلیف پہنچتی ہے۔ واقدی اپنی کتاب المغازی میں لکھتے ہیں کہ جب سیدہ ام حکیمؓ اور سیدنا عکرمہؓ مکہ کے قریب پہنچے اور آپﷺ کو اس کی خبر ہوئی تو رسول اللہﷺ نے اپنے صحابہؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس عکرمہؓ بن ابی جہل ایمان کی غرض سے ہجرت کر کے آرہا ہے۔ سو تم اس کے باپ کو برا بھلا مت کہنا کیونکہ میت کو گالی دینے سے زندہ کو تکلیف ہوتی ہے اور یہ گالی میت کو نہیں پہنچتی۔ یہ ہے ہمارے نبیﷺ کا اخلاق اور انسانی نفسیات سے کماحقہ واقفیت کہ جہاں وہ ابو جہل جیسے دشمنِ اسلام و فرعونِ امت کو بھی اس کی اولاد کے سامنے برا بھلا کہنے سے منع کرتے ہیں۔ سبق ہے اس واقعہ میں ان اشخاص کے لیے جنہوں نے امت کے بعض مسلمان اشخاص کے ذکر کو برائی سے مختص کررکھا ہے اور انکا ذکر کسی برائی کے سابقہ لاحقہ کے بغیر نہیں کرتے جیسے یزید پلید کہنا اور اسی کے مثل ۔ جبکہ حدیثِ نبویﷺ اور سنت رسول اللہﷺ کے تحت یہ فعلِ نہی ہے جس کی نبیﷺ نے مذمت و مناہی فرمائی ہے۔
طبقاتِ صحابہ کے تمام سیرت نگار اس بابت متفق ہیں کہ سیدہ ام حکیمؓ حالتِ کفر میں دوسری قریشی خواتین کی طرح جنگِ احد میں مسلمانوں کے مد مقابل آئی تھیں۔ تاہم ایامِ جاہلیت میں کیے گئے اپنے ان تمام کردہ گناہوں کو اس عظیم المرتبت خاتون نے اسلامی جنگوں میں بھرپور حصہ لیکر یوں دھو دیا جیسے کہ وہ کبھی ہوئے ہی نہ تھے۔ واقدی کتاب المغازی میں اور علامہ ابن عبدالبر الاستیعاب میں لکھتے ہیں کہ سیدنا عکرمہؓ جب جنگ اجنادین میں شہید ہو گئے تو سیدہ ام حکیمؓ نے چار ماہ دس دن کی عدت مکمل کی۔ بعد از عدت خاندانِ بنو امیہ کے دو سادات سیدنا یزید بن ابی سفیانؓ اور سیدنا خالد ؓبن سعید بن العاص نے سیدہ ام حکیمؓ کو پیغامِ نکاح بھیجا۔ سیدہ ام حکیمؓ نے سیدنا خالد بن سعید کے رشتے کو قبول کیا اور بعوض مہر چار سو دینار آپؓ کے حبالۂ عقد میں آگئیں۔ جب یہ نکاح ہوا اس وقت مسلمان مرج الصفر کے معرکے میں شریک تھے۔ سیدنا خالدؓ نے سیدہ ام حکیمؓ سے رخصتی و شبِ زفاف اختیار کرنا چاہی۔ سیدہ ام حکیمؓ نے کہا کہ اگر آپؓ اس معرکے کے اختتام تک اس مرحلے کو مؤخر کردیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ خالدؓ بن سعید نے کہا کہ میرا دل کہتا ہے کہ میں اس معرکے میں شہید ہوجاؤنگا۔ ام حکیم نے انہیں اجازت دے دی اور الصفرمیں موجود ایک پل جس کو بقول ابن عبدالبر فی الاستیعاب و ابن حجر فی الاصابہ" قنطرہ ام حکیم "کہا جاتا ہے، کے نیچے سیدنا خالد ؓ نے سیدہ ام حکیمؓ سے ایک خیمے میں ملاقات کی اگلے روز سیدنا خالدؓ نے دعوتِ ولیمہ کی۔ ولیمہ کے کھانے سے فارغ ہوئے تو رومیوں سے مقابلے کے لیے اپنی صفیں سیدھی کرلیں اور گھمسان کا رن پڑا۔ سیدنا خالد بن سعید آگے بڑھے اور جانفشانی سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ جب ان کا جسدِ خاکی لایا گیا تو سیدہ ام حکیمؓ نے اپنے ہاتھوں سے ان کی میت تیار کی، اس وقت ان کے ہاتھوں پر شادی کی مہندی اور خوشبو لگی ہوئی تھی۔ اس وقوعہ سے یہ فقہی مسئلہ بھی مستنبط ہوتا ہے کہ وفات کے بعد میاں بیوی کا رشتہ قائم رہتا ہے اور بیوی شوہر کو چھو بھی سکتی ہے اور اسکو غسل بھی دے سکتی ہے۔
علامہ ابن حجر عسقلانی نے الاصابہ میں سیدہ ام حکیم کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ یہ لڑائی اسی نہر کے کنارے چل رہی تھی جس کے
پل کے نیچے سیدہ ام حکیمؓ کا وہی خیمہ نصب تھا جس میں سیدنا خالدؓ کے پاس وہ رخصت ہو کر آئی تھیں۔ سیدنا خالد کی وفات کے بعد جب دشمن اس خیمے تک پہنچا تو سیدہ ام حکیمؓ نے خیمے کی چوب نکال لی اور نہایت دلیری سے لڑتے ہوئے سات رومیوں کو اس چوب سے واصلِ جہنم کیا یہاں تک کہ لڑتے لڑتے اسی خیمے میں آپ نے بھی جامِ شہادت نوش فرمایا۔ یوں فتح مکہ پر ابو جہل جیسے دشمنِ اسلام و فرعونِ امت کی ایمان لانے والی یہ عظیم المرتبت بہو سرخرو ہوئی۔ ایسے واقعات میں ان تمام لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نہایت ڈھٹائی اور دھڑلے سے فتح مکہ کے موقع پر ایمان لانے والوں کو طلقاء قرار دے کر کبھی ان کے اسلام پر شک کرتےہیں تو کبھی سورۃ المنافقون کی آیات کو ان جلیل القدر ہستیوں پر چسپاں کرتے ہیں۔ واللہ ایسی بزرگ ہستیوں کی پاؤں کی دھول کے برابر بھی ہم نہیں ہوسکتے کہ جنہوں نے ایام جاہلیت میں نبیﷺ کی مخالفت کی تو اسلام قبول کرتے ہی ان کی ایسی کایا پلٹی کہ خوشی خوشی شہادت کا جام پی لیا۔