رسولؐ اللہ کی حیاتِ طیبہ میں صرف ایک شخصیت ہیں جو آنحضرت صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت سے وفات تک آپ کے ساتھ تھیں- اس شخصیت کا نام برکہ ہے لیکن تاریخ انہیں زیادہ تر ان کی کنیت ام ایمن سے جانتی ہے-
جس وقت سیدّہِ کائنات آمنہ سلام اللہ علیہا کے بطن سے مصطفیٰ کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا ظہور ہوا، اس وقت اس کمرے میں سیدّہ آمنہ کے علاوہ صرف ایک شخصیت تھی اور وہ برکہ تھیں- رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی سب سے پہلے زیارت کرنے اور مصطفیٰ کو سب سے پہلے گود میں لینے کی سعادت برکہ کو ہی حاصل ہوئی-
برکہ دراصل رسولؐ اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے والدِ گرامی جنابِ عبداللہ کی واحد کنیز تھیں- ان کا وطن حبشہ تھا اور وہ خالص سیاہ فام تھیں- آپ کو بچپن میں ڈاکوؤں نے اغوا کرکے بیچ دیا تھا لیکن اللہ کی رحمت سے آپ جنابِ عبداللہ اور سیدّہ آمنہ کے گھر پہنچ گئیں جہاں انہیں کنیز نہیں بلکہ بہن سمجھا گیا-
رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی ولادت کے وقت سیدّہ آمنہ انیس برس کی تھیں جبکہ برکہ کی عمر تیرہ برس تھی- سیدّنا عبداللہ انتقال فرما چکے تھے. گھر میں صرف تین ہی لوگ تھے : جنابِ آمنہ، برکہ اور رحمتِ دو جہاں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم- آنحضرت کی پرورش میں برکہ جنابِ آمنہ کے ساتھ معاون و مددگار تھیں-
سیدّنا عبداللہ تجارت سے واپس آتے ہوئے، صرف پچیس سال کی عمر میں یثرب کے اندر اپنے ننھیال بنونجار کے ہاں فوت اور دفن ہوئے تھے- آقا کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم چھ سال کی عمر کو پہنچے تو جنابِ آمنہ آپ کو لے کر جنابِ عبداللہ کی قبر مبارک کی زیارت کے لیے یثرب گئیں- واپس مکہ آتے ہوئے ابوا کے ویرانے میں اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ گرامی کو بھی اپنے پاس بلا لیا-ان مشکل ترین لمحات میں صرف برکہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ تھیں- آپ نے ہی جنابِ آمنہ کی تدفین فرمائی اور رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو لے کر مکہ واپس آئیں- تصور کیجئیے عرب کے چٹیل پہاڑ اور میلوں تک ویرانہ ۔۔۔ ایک یتیم بچہ اپنی ماں کو کھو رہا ہے ۔۔۔ ایسے میں اس بچے کو صرف ایک ہستی گلے لگانے اور دلاسہ دینے والی ہے- اس انسان سے اس بچے کا کیسا گہرا رشتہ جڑ گیا ہوگا-
دو اڑھائی برس بعد رسولؐ اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے کفیل، انتہائی شفیق دادا ابا جنابِ عبدالمطلب علیہ السلام بھی جدا ہوگئے. رسول اللہ جنابِ ابوطالب کے گھر آگئے- برکہ بھی آقا کے ساتھ چلی آئیں. اس گھر میں رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی دو مائیں تھیں : فاطمہ بنت اسد اور برکہ۔ مصطفیٰ کو دونوں ماؤں سے اور دونوں ماؤں کو مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے شدید محبت تھی-
پچیس برس کی عمر میں جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا نکاح ہوا تو برکہ اسی طرح خوش تھیں جس طرح ایک ماں اپنے بیٹے کی خانہ آبادی پر ہوتی ہے- رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے جنابِ خدیجہ سے برکہ کو ملوایا تو برکہ کا تعارف یوں کروایا
یا خدیجہ، یہ میری ماں کے بعد میری ماں ہیں- رسول اللہ یہ بات تاحیات کہتے رہے
رسولؐ اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی جنابِ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے شادی کی وقت برکہ کی اپنی عمر اڑتیس برس کے لگ بھگ تھی- رسولؐ اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی پرورش کی دھن میں برکہ نے کبھی اپنی شادی کے بارے سوچا بھی نہ تھا لیکن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم چاہتے تھے کہ برکہ کا گھر بھی بس جائے- پہلے تو وہ رسول اللہ کو چھوڑ کر جانے پر تیار نہ تھیں لیکن رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور جنابِ خدیجہ سلام اللہ علیہا نے آخر منا لیا- برکہ کو باقاعدہ طور پر آزاد کرکے ان کی شادی یثرب کے قبیلہ خزرج کے ایک شریف اور خوشحال مرد عبید بن زید سے کی گئی- یہ رشتہ سیدّہ خدیجہ سلام اللہ علیہا نے کروایا تھا- عبید کو سیدّہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا غالباً تجارت کے حوالے سے جانتی تھیں- یہ شادی خوشگوار تھی- برکہ کے ایک بیٹے ایمن اس شادی سے پیدا ہوئے- یوں آپ ام ایمن ہوگئیں- ایمن رضی اللہ عنہ ، اصحابِ رسول اور مجاہدینِ اسلام میں سے ہیں. جنگِ حنین میں شہید ہوئے-
پہلی وحی کے آس پاس کے دور میں عبید بن زید وفات پاگئے. ام ایمن اپنے بیٹے کے ساتھ یثرب سے واپس مکہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس آگئیں اور کلمہ پڑھ لیا- آپ سابقون الاولون یعنی انتہائی ابتدائی مسلمانوں میں سے ہیں-
اس وقت برکہ کی عمر کوئی پچپن چھپن برس کے لگ بھگ تھی لیکن جب رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ کون جنت کی عورت ام ایمن سے نکاح کرے گا ؟ تو زید بن حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جو اس وقت تک زید بن محمد کہلاتے تھے) آگے بڑھے اور عمر میں ام ایمن قریب تئیس برس کم ہونے کے باوجود بیوہ ام ایمن سے نکاح کرلیا۔ سیدّنا زید اور سیدّہ ام ایمن کی عمر میں بہت فرق تھا لیکن دونوں کی شخصیت بہت ملتی تھی- دونوں بچپن میں اغوا ہوئے اور غلام بازار میں بیچے گئے، دونوں رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے آزاد کردہ غلام تھے اور دونوں آقا کو بہت پیارے تھے، دونوں اول درجے کے مومن اور عاشقِ رسولؐ تھے۔
ام ایمن کی عمر کے پیش نظر کسی کو امید نہ تھی کہ اس نکاح سے کوئی اولاد ہوگی لیکن اللہ نے زید بن حارث اور ام ایمن کو ایک بیٹا اسامہ بن زید عطا فرمایا- اسامہ رسولؐ اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کو بے حد پیارے تھے- رسولؐ اللہ اسامہ کو کندھوں پر سوار کرتے، اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلاتے، چہرہ دھوتے اور پیار کرتے- لوگوں نے رسولؐ اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے کوئی سفارش کروانی ہوتی تو اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کرواتے- اسامہ سے آقا کی اس غیر معمولی محبت کی وجہ یہ ہے کہ اسامہ کے ماں اور باپ دونوں ہی رسولؐ اللہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی کے عزیز ترین اور انتہائی قریبی لوگوں میں سے تھے- اسامہ بن زید رضی اللہ تعالٰی عنہ بہت سی جنگوں میں مسلمانوں کے سپاہ سالار بھی رہے ہیں
یہ ہر جنگ میں سرکار کے ساتھ رہتی تھیں اور انکی نظر سرکار پر ٹکی رہتی تھی۔ انکی عربی بھی کمزور تھی تبھی بہت سے مزاحیہ واقعات روایت کیئے گئے ہیں۔ انکے شوہر موتہ اور بیٹے ایمن حنین میں شہید ہوئے۔ اونٹنی کے بچے والا واقعہ بھی ان کے ساتھ پیش آیا ہے۔ اور سب سے اعلٰی بات انکی قبر بقیع میں ایسے رخ پر ہے کہ سرکار کی قبر کی طرف چہرہ ہے یعنی ساری عمر سرکار کو آنکھوں کے
سامنے رکھا اور مرنے کے بعد بھی سامنے ہیں۔