امام شافعی کتاب الأم باب اختلاف الحدیث میں لکھتے ہیں کہ جب کوئی خلیفہ راشد کسی معاملے میں کوئی فیصلہ کر لیتے تو دیگر صحابہ کرام اس سے اختلاف کا اظہارِ نہیں کرتے تھے. اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں خلیفہ راشد کے فیصلے پر اطمینان ہوتا تھا یا اپنی رائے بدل لیتے تھے بلکہ اختلاف کو پسند نہیں کرتے تھے. انہوں نے متعدد ایسی مثالیں بیان کی ہیں جن میں بعد کے خلفاء نے اپنے پیشرو کی زندگی میں اختلاف نہ کرنے کے باوجود اپنے عہد میں اس سے مختلف فیصلہ کیا. امام شافعی کی رائے میں ایسی صورتوں کو اجماع سے تعبیر کرنا درست نہیں.
ہمارے خیال میں یہ تحقیق کا بہت عمدہ موضوع ہو سکتا ہے-
اولاً ایسی مثالیں تلاش کی جائیں جہاں بعد کے خلفاء راشدین نے اپنے پیش رو خلفاء سے اختلاف کیا-
مثلاً حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مانعین زکوۃ کے ساتھ غیر مسلموں والا سلوک کیا اور ان کے قیدی غلام باندیاں بنا لئیے. حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو شروع سے تحفظات رکھتے تھے اپنے عہد میں ان غلام باندیوں کو آزاد کر دیا تھا.
شیخین آیت غنیمت میں ذوی القربیٰ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذوی القربیٰ مراد لیتے تھے جبکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نزدیک للہ و للرسول سے حکومت مراد تھی اور ذوی القربیٰ سے خلیفہ کے ذوی القربی مراد تھے. (تفسیر کبیر)
منی میں پوری نماز پڑھنے کے مسئلہ پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے دیگر صحابہ کرام کا اختلاف اور اس کے باوجود اقتدا میں نماز پڑھنا اس کی ایک مثال ہے. شراب نوشی پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ولید بن عقبہ کو چالیس کوڑے لگوانا جبکہ اسی کوڑوں کا طریقہ رائج ہو چکا تھا بھی اس کی مثال ہے-یکبارگی کی تین طلاق کو تین قرار دینا اور بعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اختلاف بھی اسی نوعیت کی بات ہوگی.
اس طرح کی خاصی مثالیں جمع کی جا سکتی ہیں-
اس تحقیق کا دوسرا پہلو زیادہ نتیجہ خیز ہو سکتا ہے کہ جب کسی مسلم ریاست کی اسمبلی یا ھیئت حاکمہ کسی مجتھد فیہ مسئلہ میں ایک قانون نافذ کر دے تو فقہاء اور علماء کو اپنے
علمی اختلافات کے باوجود فتویٰ ریاستی قانون کے مطابق دینا چاہیے-
یہ پہلو زیادہ مفید اور تفصیل طلب ہو سکتا ہے.یاد رہے کہ اس قسم کے موضوع پر کوئی مفتی صاحب تحقیق نہ کریں، ان کے لئیے مناسب موضوع نہیں ہے.