چائے کی تاریخ

مصنف : ظفر سید

سلسلہ : تاریخ

شمارہ : فروری 2019

 

تاریخ
چائے کی تاریخ
ظفر سید

                                                                                                                        

لمبے تڑنگے رابرٹ فارچیون نے قلی کے آگے سر جھکا دیا۔ اس نے ایک زنگ آلود استرا نکالا اور فارچیون کے سر کا ابتدائی حصہ مونڈنے لگا۔ یا تو استرا اتنا کند تھا یا پھر قلی ہی ایسا اناڑی تھا کہ فارچیون کو لگا کہ ’جیسے وہ میرا سر مونڈ نہیں رہا بلکہ کھرچ رہا ہے۔‘ اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو کر گالوں پر ڈھلکنے لگے۔
یہ ستمبر 1848 میں چین کے شہر شنگھائی سے کچھ دور واقع ایک علاقے کا واقعہ ہے۔ فارچیون ایسٹ انڈیا کمپنی کا جاسوس ہے جو چین کے اندر ممنوعہ علاقے میں جا کر وہاں سے چائے کی پتیاں چرانے کی مہم پر آیا ہوا ہے۔ لیکن اس مقصد کے لیے اسے سب سے پہلے بھیس بدلنا ہے جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ وہ چین کے رواج کے مطابق ماتھے کے اوپری حصے سے بال منڈوا دے۔ اس کربناک عمل سے گزرنے کے بعد فارچیون کے مترجم اور رہنما نے اس کے بالوں میں ایک لمبی مینڈھی گوندھ کر اسے چینی لبادہ پہنا دیا اور اسے تنبیہ کی کہ وہ اپنا منھ بند رکھے۔
ایک مسئلہ اب بھی باقی تھا جسے چھپانا آسان نہیں تھا۔ فارچیون کا قد عام چینیوں کے مقابلے پر ایک فٹ سے بھی لمبا تھا۔ اس کا حل اس نے کچھ یوں نکالا کہ لوگوں سے کہہ دیا جائے کہ وہ دیوارِ چین کے دوسری طرف سے آیا ہے جہاں کے لوگ طویل قامت ہوتے ہیں۔
اس مہم میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ اگر فارچیون کامیاب ہو جاتا تو چائے پر چین کی ہزاروں سالہ اجارہ داری ختم ہو جاتی اور ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں چائے اگا کر ساری دنیا میں فراہم کرنا شروع کر دیتی۔ لیکن دوسری طرف اگر وہ پکڑا جاتا تو اس کی صرف ایک ہی سزا تھی۔ موت!
اس کی وجہ یہ تھی کہ چائے کی پیداوار چین کا قومی راز تھی اور اس کے حکمران صدیوں سے اس راز کی حفاظت کی سرتوڑ کوششیں کرتے آئے تھے۔
ایک تحقیق کے مطابق پانی کے بعد چائے دنیا کا مقبول ترین مشروب ہے اور دنیا میں روزانہ دو ارب لوگ اپنے دن کا آغاز چائے کی گرماگرم پیالی سے کرتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس دوران کم ہی لوگوں کے دماغ میں یہ خیال آتا ہو گا کہ یہ مشروب جو ان کے مزاج کو فرحت اور دماغ کو چستی بخشتا ہے، ان تک کیسے پہنچا۔
چائے کی یہ کہانی کسی سنسنی خیز ناول سے کم نہیں۔ یہ ایسی کہانی ہے جس میں حیرت انگیز اتفاقات بھی ہیں، پرفریب جاسوسی مہم جوئیاں بھی، سامراجی ریشہ دوانیاں بھی، خوش قسمتی کے لمحات بھی اور بدقسمتی کے واقعات بھی۔
چائے کا آغاز کیسے ہوا، اس کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ ایک کے مطابق قدیم چینی دیومالائی بادشاہ شینونگ کو صفائی کا اس قدر خیال تھا کہ اس نے تمام رعایا کو حکم دیا کہ وہ پانی ابال کر پیا کریں۔ ایک دن کسی جنگل میں بادشاہ کا پانی ابل رہا تھا کہ چند پتیاں ہوا سے اڑ کر دیگچی میں جا گریں۔ شینونگ نے جب یہ پانی پیا تو نہ صرف اسے ذائقہ پسند آیا بلکہ اسے پینے سے اس کے بدن میں چستی بھی آ گئی۔یہ چائے کی پتیاں تھیں اور ان کے فوائد کے تجربے کے بعد بادشاہ نے عوام کو حکم دیا کہ وہ بھی اسے آزمائیں۔ یوں یہ مشروب چین کے کونے کونے تک پھیل گیا۔
یورپ سب سے پہلے 16ویں صدی کی ابتدا میں چائے سے آشنا ہوا جب پرتگالیوں نے اس کی پتی کی تجارت شروع کر دی۔ ایک صدی کے اندر اندر چائے دنیا کے مختلف علاقوں میں پی جانے لگی۔ لیکن خاص طور پر یہ انگریزوں کو اتنی پسند آئی کہ گھر گھر پی جانے لگی۔
ایسٹ انڈیا کمپنی مشرق سے ہر قسم کی اجناس کی تجارت کی ذمہ داری تھی۔ اسے چائے کی پتی مہنگے داموں چین سے خریدنا پڑتی تھی اور وہاں سے لمبے سمندری راستے سے دنیا کے باقی حصوں میں ترسیل چائے کی قیمت میں مزید اضافہ کر دیتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ انگریز شدت سے چاہتے تھے کہ خود اپنی نوآبادی ہندوستان میں چائے اگانا شروع کر دیں تاکہ چین کا پتہ ہی کٹ جائے۔اس منصوبے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ تھی کہ چائے کا پودا کیسے اگتا ہے اور اس سے چائے کیسے حاصل ہوتی ہے، سرتوڑ کوششوں کے باوجود اس راز سے پردہ نہ اٹھ سکا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اب کمپنی نے رابرٹ فارچیون کو اس پرخطر جاسوسی مہم پر بھیجا تھا۔اس مقصد کے لیے اسے چین کے ان علاقوں تک جانا تھا جہاں شاید مارکوپولو کے بعد کسی یورپی نے قدم نہیں رکھا تھا۔ اسے معلوم ہوا تھا کہ فوجیان صوبے کے پہاڑوں میں سب سے عمدہ کالی چائے اگتی ہے اس لیے اس نے اپنے رہبر کو وہیں کا رخ کرنے کا حکم دیا۔
سر منڈوانے، بالوں میں نقلی مینڈھی گوندھنے اور چینی تاجروں جیسا روپ دھارنے کے علاوہ فارچیون نے اپنا ایک چینی نام بھی رکھ لیا، سِنگ ہُوا۔ یعنی ’شوخ پھول۔‘
ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسے خاص طور پر ہدایات دے رکھی تھیں کہ ’بہترین چائے کے پودے اور بیج ہندوستان منتقل کرنے کے علاوہ آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ آپ اس پودے کی کاشت اور چائے کی پتی کی تیاری کے بارے میں ہر ممکن معلومات حاصل کر کے لائیں تاکہ انھیں بروئے کار لا کر ہندوستان میں چائے کی نرسریاں قائم کرنے میں ہر ممکن مل سکے۔‘اس کام کا معاوضہ اسے پانچ سو پاؤنڈ سالانہ ادا کیا جانا تھا۔
فارچیون کا کام آسان نہیں تھا۔ اسے چین سے چائے کی پیداوار کے طریقے ہی نہیں سیکھنا تھے بلکہ وہاں سے اس نایاب جنس کے پودے چوری کر کے لانے تھے۔ فارچیون تربیت یافتہ ماہرِ نباتیات تھا اور اس کے تجربے نے اسے بتا دیا تھا کہ چند پودوں سے کام نہیں چلے گا، بلکہ پودے اور ان کے بیج بڑے پیمانے پر سمگل کر کے ہندوستان لانا پڑیں گے تاکہ وہاں چائے کی پیداوار بڑے پیمانے پر شروع ہو سکے۔
یہی نہیں، اسے چینی مزدوروں کی بھی ضرورت تھی تاکہ وہ ہندوستان میں چائے کی صنعتی بنیادوں پر کاشت اور پیداوار میں مدد دے سکیں۔
اس دوران اسے خود چائے کے پودوں کی تمام اقسام، اگنے کے موسم، کاشت، پتی کی پیداوار، سوکھانے کے طریقوں وغیرہ کے بارے میں تمام علم حاصل کرنا تھا، چاہے وہ سبز چائے ہو یا کالی، سفید ہو یا سرخ چائے۔
فارچیون کا مقصد عام چائے کے پودے حاصل کرنا نہیں تھا بلکہ وہ عمدہ ترین چائے حاصل کرنا چاہتا تھا تاکہ ہندوستان میں بڑے پیمانے پر چائے کا بین الاقوامی کاروبار عمدہ ترین چائے سے کیا جائے۔
آخر کشتیوں، پالکیوں، گھوڑوں اور دشوار گزار راستوں پر پیدل چل کر تین ماہ کے دشوار گزار سفر کے بعد فارچیون کوہِ وویی کی ایک وادی میں قائم چائے کے ایک بڑے کارخانے تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں چائے کی تیز مہک کے علاوہ دروازے پر لگے لکڑی کے ایک تختے نے فارچیون کا استقبال کیا۔ اس پر چائے کی تعریف میں ایک قدیم نظم کندہ تھی:
اعلیٰ چائے کی پتی میں
شکنیں ہونی چاہییں
جیسے کسی تارتار کے چمڑے کے جوتے میں
لہریں ہوں
جیسے کسی توانا بیل کی گردن کا لٹکتا گوشت
یہ یوں کھِلتی ہو
جیسے کسی وادی میں دھند اٹھتی ہے
یہ یوں چمکتی ہو
جیسے کسی جھیل پر صبا کا جھونکا
یہ ایسی ملائم اور نم ہو
جیسے تازہ بارش کے بعد زمین
اس سے قبل یورپ میں سمجھا جاتا تھا کہ سبز چائے اور کالی چائے کے پودے الگ الگ ہوتے ہیں۔ لیکن یہ دیکھ کر فارچیون کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ دونوں اقسام کی چائے ایک ہی پودے سے حاصل کی جاتی ہے۔ اصل فرق دونوں کے سوکھانے اور پکانے کے طریقوں میں ہے۔
فارچیون یہاں چائے بننے کے ہر مرحلے کا گہرا مگر خاموش مشاہدہ کرتا رہا اور نوٹس لیتا رہا۔ اگر اسے کسی بات کی سمجھ نہیں آتی تھی تو وہ اپنے رہبر کی وساطت سے پوچھ لیتا تھا۔
فارچیون کی محنت رنگ لائی اور بالآخر وہ حکام کی آنکھ بچا کر چائے کے پودے، بیج اور چند مزدور بھی ہندوستان سمگل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس کی نگرانی میں آسام کے علاقے میں یہ پودے اگانا شروع کر دیے۔لیکن انھوں نے اس معاملے میں ایک سنگین غلطی کر دی تھی۔فارچیون جو پودے لے کر آیا تھا وہ چین کے بلند و بالا پہاڑی سلسلوں کے ٹھنڈے موسموں کے عادی تھے۔ آسام کی گرم موطوب ہوا انھیں راس نہیں آئی اور وہ ایک کے بعد ایک کر کے سوکھتے چلے گئے۔
اس سے قبل کہ یہ تمام مشقت بے سود چلی جاتی، اسی دوران ایک عجیب و غریب اتفاق ہوا۔اسے ایسٹ انڈیا کمپنی کی خوش قسمتی کہیے یا چین کی بدقسمتی کہ اسی دوران میں اس کے سامنے آسام میں اگنے والے ایک پودے کا معاملہ سامنے آیا۔
اس پودے کو ایک سکاٹش سیاح رابرٹ بروس نے 1823 میں دریافت کیا تھا۔ چائے سے ملتا جلتا مقامی پودا آسام کے پہاڑی علاقوں میں جنگلی جھاڑی کی حیثیت سے اگتا تھا۔ تاہم زیادہ تر ماہرین کے مطابق اس سے بننے والا مشروب چائے سے کمتر تھا۔
فارچیون کے پودوں کی ناکامی کے بعد کمپنی نے اپنی توجہ آسام کے اس پودے پر مرکوز کر دی۔ فارچیون نے جب اس پر تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ چینی چائے کے پودے سے بیحد قریب ہے، بلکہ ان کی نسل ایک ہی ہے۔
چین سے سمگل شدہ چائے کی پیداوار اور پتی کی تیاری کی ٹیکنالوجی اور تربیت یافتہ کارکن بے حد کارآمد ثابت ہوئے۔ جب ان طریقوں کے مطابق پتی تیار کی گئی تو تجربات کے دوران لوگوں نے اسے خاصا پسند کرنا شروع کر دیا۔
دیسی چائے کی کامیابی کے بعد کمپنی نے آسام کا بڑا علاقہ اس ہندوستانی پودے کی کاشت کے لیے مختص کر کے اس کی تجارت کا آغاز کر دیا اور ایک عشرے کے اندر یہاں کی پیداوار نے چین کو مقدار، معیار اور قیمت تینوں معاملات میں پیچھے چھوڑ دیا۔برآمد میں کمی کے باعث چین کے چائے کے باغات خشک ہونے لگے اور وہ ملک جو چائے کے لیے مشہور تھا، ایک کونے میں سمٹ کر رہ گیا۔
انگریزوں نے چائے بنانے میں ایک ’بدعت‘ متعارف کروا دی۔ چینی تو ہزاروں برس سے کھولتے پانی میں پتی ڈال کر پیا کرتے تھے، انگریزوں نے اس مشروب میں پہلے چینی اور بعد میں دودھ ڈالنا شروع کر دیا۔سچ تو یہ ہے کہ آج بھی چینیوں کو یہ بات عجیب لگتی ہے کہ چائے میں کسی اور چیز کی آمیزش کی جائے۔ جہاں ہندوستانیوں نے انگریزوں کی دوسری بہت سی عادات اپنا لیں، وہیں وہ اپنے حکمرانوں کی دیکھا دیکھی چائے میں بھی یہ ملاوٹیں کرنے لگے۔اردو کے صاحبِ طرز ادیب و دانشور مولانا ابوالکلام آزاد اپنی کتاب ’غبارِ خاطر‘ میں اس بارے میں لکھتے ہیں:’چائے چینیوں کی پیداوار ہے اور چینیوں کی تصریح کے مطابق پندرہ سو برس سے استعمال کی جا رہی ہے لیکن وہاں کسی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں گزری کہ اس جوہرِ لطیف کو دودھ کی کثافت سے آلودہ کیا جا سکتا ہے۔۔۔ مگر سترھویں صدی میں جب انگریز اس سے آشنا ہوئے تو نہیں معلوم ان لوگوں کو کیا سوجھی کہ انھوں نے دودھ ملانے کی بدعت ایجاد کی۔ اور چونکہ ہندوستان میں چائے کا رواج انھی کے ذریعے ہوا، اس لیے یہ بدعتِ سئیہ یہاں بھی پھیل گئی۔ رفتہ رفتہ معاملہ یہاں تک پہنچا کہ لوگ چائے میں دودھ ڈالنے کی بجائے دودھ میں چائے ڈال کر پینے لگے۔’لوگ چائے کی جگہ ایک طرح کا سیال حلوہ بناتے ہیں، کھانے کی جگہ پیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے چائے پی لی۔ ان نادانوں سے کون کہے ہائے کم بخت تم نے پی ہی نہیں!‘
چائے کی کہانی میں ہندوستان کے اہم کردار کا ایک ثبوت انڈیا کے سابق وزیرِ اعظم راجیو گاندھی نے 1985 میں امریکہ کے دورے کے دوران پیش کیا جب انھوں نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انڈیا میں پیدا ہونے والی چائے نے امریکیوں کی برطانیہ سے آزادی کے جذبے کو ہوا دی تھی۔
ان کا اشارہ 1773 کی طرف تھا جب ایسٹ انڈیا کمپنی امریکہ میں چائے فروخت کرتی تھی لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتی تھی۔ آخر تنگ آ کر ایک دن کچھ امریکیوں نے بوسٹن کے ساحل پر کھڑے بحری جہاز پر چڑھ کر کمپنی کی ملکیتی چائے کی پیٹیاں سمندر میں پھینک دیں۔ برطانوی حکومت نے اس کا جواب ’آہنی ہاتھوں‘ سے دیا جس سے امریکی نوآبادی میں وہ بے چینی پھیلی کہ بالآخر تین سال بعد امریکی آزادی پر اختتام پذیر ہوئی۔تاہم جیسے کہ اوپر بیان کردہ کہانی سے واضح ہو گیا ہو گا، راجیو گاندھی کو غلط فہمی ہوئی تھی۔ 18ویں صدی میں ہندوستانیوں نے چائے اگانا نہیں شروع کی تھی اور ایسٹ انڈیا کمپنی چین سے براہِ راست چائے خریدتی تھی۔یہی وجہ ہے کہ نریندر مودی نے جب 2016 میں کانگریس سے طویل خطاب کیا، تو انھوں نے اس دوران چائے کا ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ بعض لوگوں کے مطابق چائے سے اپنے پرانے تعلق کی بنا پر اس معاملے پر ان کا حق اپنے پیش رو راجیو گاندھی سے کہیں زیادہ تھا!(بشکریہ بی بی سی ڈاٹ کام)**