ریاکاری ‘ پوشیدہ شر ک

مصنف : محمد سلیم

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2022

عرب لوگ بصرہ میں  تیسری صدی ہجری کے ایک عالم "احمد بن مسکین" کا قصہ خود اسی کی زبانی  بیان کرتے ہیں۔ 
احمد بن مسکین رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: سن 219 ہجری میں مجھ پر غربت اور افلاس کا امتحان آن پڑا۔ میں، میری بیوی اور میرا ایک بچہ: ہم فاقوں کا شکار ہو گئے۔ ہمارے گھر میں بھوک ناچتی تھی اور میں کسی سے نظریں نہیں ملا سکتا تھا۔ بہت سوچ سوچ کر میں نے اپنا گھر بیچ دینے کی ٹھانی تاکہ شکم پُری کا تو بندوبست تو ہو۔ 
خریدار ڈھونڈھنے کیلیئے گھر سے چلا تو راستے میں میری ملاقات ابو نصر سے ہو گئی۔ اسے سارا ماجرا سنایا اور گھر بیچنے کی اپنی نیت کا بتایا۔ ابو نصر نے مجھے دو روٹیاں اور ان روٹیوں کے درمیان میں کچھ میٹھا رکھ کر دیتے ہوئے کہا: پہلے یہ تو گھر لیجاؤ اور ان کو کھلاؤ، مکان کا بھی دیکھتے ہیں۔ 
گھر جاتے ہوئے راستے میں مجھے ایک عورت ملی جس کے ساتھ اس کا بچہ تھا۔ عورت نے میرے ہاتھ میں اُٹھائی ہوئی روٹیوں کو دیکھتے ہوئے کہا: آقا، میرا یہ یتیم بچہ بھوکا ہے اور اب اس سے بھوک پر صبر نہیں ہو رھا۔ اللہ آپ پر رحم کرے اس کو کچھ کھانے کیلیئے دیدیجیئے۔  بچے نے میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جسے میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔ میں نے روٹیاں عورت کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: یہ لو، تم تو اپنے بچے کو کھلاؤ۔ اللہ گواہ ہے میرے پاس اس کے علاوہ کچھ بھی گیلا سوکھا نہیں ہے۔ اور خود میرے اپنے گھر میں جو بیٹھے ہیں ان روٹیوں کی خود ان کو اشد ضرورت ہے۔  میری بات سن کر عورت کے تو آنسو چھلک پڑے لیکن روٹیوں کو لیکر بچے کا چہرہ چمک رہا تھا۔ 
پریشانی کے عالم میں، میں ادھر سے آگے بڑھا، راستے مین ایک چھوٹی سی دیوار پر چڑھ کر بیٹھ گیا اور سنجدیگی سے اپنے مکان کو بیچنے کے بارے میں سوچنے لگا۔ ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ ابو نصر کا ادھر سے گزر ہوا۔ 
خوشیاں اس کے چہرے سے پھوٹ رہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی بولا: ابو محمد، ادھر بیٹھے کیا کر رہے ہو اور تمہارے گھر میں دھن دولت اور خیر کے انبار لگے پڑے ہیں۔ 
میں نے سبحان اللہ پڑھا اور ابو نصر سے پوچھا: یہ کیسے ہوا ہے اور میرے گھر میں دولت کہاں سے ٹپک پڑی ہے؟ کہنے لگا: ابھی خراسان سے ایک شخص آیا ہے اور لوگوں سے تیرے والد یا تیرے والد کے کسی بھی لگتے کا پوچھ رہا تھا اور ساتھ ہی مال متاب اور سامان لدوائے پھر رہا تھا۔ 
پوچھا: وہ یہ سارا مال کس چکر میں لائے پھر رہا تھا؟ ابو نصر نے بتایا: یہ شخص بصرے کا ہی تاجر ہے۔ اسے تیرے والد نے کوئی تیس سال پہلے کچھ مال ادھار دیا تھا۔ یہ اب بصرہ واپس آیا ہے اور اپنا مال حلال کرنا چاہتا ہے۔ تمہارے ادھار کو واپس اور اس ادھار کو کاروبار میں لگا کر کمائے ہوئے منافع کو لوٹانا چاہتا ہے۔ 
احمد بن مسکین کہتا ہے: میں نے اللہ پاک کا شکر ادا کیا، بھاگ کر اس محتاج عورت اور اس کے یتیم بچے کو تلاش کیا۔ ان کی مقدور بھر مدد کی۔ اس کے بعد اپنے مال کو تجارت میں لگایا، اچھے طریقے سے محنت کے ساتھ مال کو بڑھایا اور کبھی کمی نہ دیکھی۔ 
میں صدقہ و خیرات بھی بڑھ چڑھ کر کرتا تھا اور مجھے پورا گمان تھا کہ میرا نامہ اعمال نیکیوں سے بھرا ہوا اور میرا شمار اللہ کے نزدیک صالحین میں ہوتا ہوگا۔ 
ایک رات مین نے نیند میں خواب میں ایسے دیکھا جیسے قیامت قائم ہو چکی ہو اور لوگ حساب و کتاب کیلیئے جمع ہوں۔ لوگ  اپنی پیٹھوں پر اپنے گناہ و ثواب لادے پھر رہے تھے۔ میزان لگا دیا گیا اور میرے اعمال تُلنا شروع ہو گئے اور مجھے ایک ہاتھ میں میری نیکیاں اور دوسرے میں گناہ پکڑا دیئے گئے۔ میرے گناہ ایک پلڑے پر رکھ دیئے گئے۔ فرشتے ایک ایک کر کے نیکیوں کے پلڑے میں ڈالنے کیلیئے میری نیکیاں اٹھاتے لیکن نیکی کے نیچے سے میری چھپی ہوئی ہوس، میری ریاکاری، میرا غرور، میری خوشامد اور تعریف کی خواہش نکلتی جس نے نیکی کو ضائع کر رکھا ہوتا تھا۔ میرے گناہوں کا پلڑا بھاری اور نیکیوں والا ہلکا تھا۔ میری نیکیاں ختم ہو گئی تھیں اور میں برباد ہو گیا تھا۔ میں نے منادی کرنے والے کی آواز سنی جو کہہ رہا تھا کہ ہے کچھ اور اس کے پاس؟ 
فرشتوں نے نے کہا: ہاں بس یہ تھوڑا سا بچا ہوا ہے۔ میں نے دیکھنا کیا کہ کیا بچا ہوا ہے۔ دیکھا تو وہی دو روٹیاں تھیں جو میں نے ایک عورت اور اس کے بچے کو دی تھیں۔ میری مایوسی بڑھ گئی کہ اتنی چھوٹی سی دو روٹیاں میرے گناہوں کے پہاڑوں کے مقابلے میں کیا کریں گی؟ روٹیاں پلڑے میں ڈالی گئیں، کچھ فرق پڑا لیکن اتنا زیادہ بھی نہیں۔ اس کے بعد اس عورت کے آنسو پلڑے میں ڈالے جو میرے ایثار کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے نکلے تھے۔ اس بار میری نیکیوں والا پلڑا ایسا بھاری ہوا کہ جھکتا ہی چلا گیا اور حتی کہ میں نے منادی کی آواز سن لی جو کہہ رہا تھا۔ یہ جیت گیا، یہ جیت گیا۔ 
****
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے  لوگو ! اس شرک سے بچ جاؤ کیونکہ یہ چیونٹی کی چال سے بھی زیادہ پوشیدہ ہےتو صحابہ نے آپﷺ سے پوچھایا رسول اللہ ﷺ اگر یہ چیونٹی کے رینگنے کی آواز سے بھی زیادہ مخفی ہے تو ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا یہ دعا کیا کرو: ’’یا اللہ ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ہم جانتے بوجھتے کسی کو تیرا شریک ٹھہرائیں اور لا علمی میں ہونے والی خطاؤں سے تجھ سے بخشش کے طلب گار ہیں۔ (صحيح الترغيب:36)
**** 
سنن ابن ماجہ میں شِداد بن أوس کی سند کے ساتھ روایت ہے کہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اپنی امت کے لیے جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ پوشیدہ شرک ہے، لیکن میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ تم کسی بت یا پتھر کی پوجا کرو گے، معاملہ یہ ہے کہ تم بت یا پتھر کو پوجتے تھے والا معاملہ ختم ہو گیا، وہ حالات ختم ہو گئے، لیکن پوشیدہ شرک (ریاکاری) باقی ہے اور یہ چھپی ہوئی ہوس اور اللہ کے علاوہ کیئے جانے والے کام ہیں۔ 
****
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں‌ تم پر سب سے زیادہ جس چیز کا خطرہ محسوس کرتا ہوں‌ وہ شرک اصغر کا خطرہ ہے اور وہ ریاکاری ہے، قیامت کے دن جب لوگوں‌ کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا تو ریا کاروں‌ سے اللہ تعالی کہے گا : ان لوگوں‌ کے پاس جاؤ جن کو دکھانے کے لئے تم دنیا میں اعمال کرتے تھے اوردیکھو 
کیا تم ان کے پاس کوئی صلہ پاتے ہو۔ (صحيح الجامع:1555)
****
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو ایسی چیز کے بارے میں نہ بتا دوں جو میرے نزدیک مسیح دجال سے بھی زیادہ خطرناک ہے؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ پوشیدہ شرک ہے جو یہ ہے کہ آدمی نماز پڑھنے کھڑا ہوتا ہے، تو اپنی نماز کو صرف اس وجہ سے خوبصورتی سے ادا کرتا ہے کہ کوئی آدمی اسے دیکھ رہا ہے
۔****
سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا : ”عنقریب میری امت کو بھی سابقہ امتوں کی بیماری لگ جائے گی ۔ “ صحابہ نے کہا : امتوں کی بیماری سے کیا مراد ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ، اترانا ، تکبر کرنا ، مال و دولت کی بہتات ، دنیا میں مبالغہ و فریب سے کام لینا ، بغض کرنا ، حسد کرنا اور بغاوت و ظلم ۔ “