پاکستان میں جو بھی سیاسی صورتحال ہے اس پر بات کرنے کے بجائے آئیے آپ کو آج کی صورتحال بتاتا ہوں۔
آج یونیورسٹی میں انٹرنیشنل ریلیشنز آفس نے پروگرام رکھا تھا کہ یونیورسٹی کے کسی ایک پروفیسر کو "کیرئیر ڈویلپمنٹ کارپوریشن" ایوارڈ دیا جانا تھا اور میرے سپروائزر چونکہ بطور صدر اس پروگرام کے ہوسٹ تھے تو میں بھی اسی اشتیاق میں پہنچ گیا۔
میری عادت ہے کہ آس پاس کی چیزوں کا بغور مشاہدہ لئے بنا نہیں رہ سکتا۔ پروگرام کے لئے پہنچا تو پتہ چلا بیلجیئم کی وفاقی وزیر برائے ڈیویلپمنٹ کارپوریشن اینڈ میجر سِیٹیز محترمہ مریمے کِتِر بھی آ رہی ہے۔ کانفرنس ہال سے پہلے گراؤنڈ فلور پر یونیورسٹی کے ڈویلپمنٹ پروگرام کے کچھ سٹوڈنٹ نے اپنے اپنے پروجیکٹ کے پوسٹر لگائے تھے۔ وزیر صاحبہ پہنچی تو بس ایک سیکرٹری ساتھ تھا جس نے چند فائلیں اٹھائی تھی اور وزیر صاحبہ نے بیگ کندھے سے لٹکایا تھا اور اپنا کوٹ اتار کے ہاتھ میں پکڑا تھا۔ نہ کوئی ہٹو بچو کا شور بلند ہوا اور نہ ہی آگے پیچھے چمچوں کی فوج ساتھ دوڑ رہی تھی۔ وزیر صاحبہ نے سٹوڈنٹس کے پراجیکٹ دیکھے اور کوٹ کے وزن سے ہاتھ تھک گیا تو کوٹ بیگ کے ساتھ لٹکا دیا۔ پراجیکٹس دیکھنے کے بعد ہم ہال میں گئے تو سٹیج اور پہلی قطار چھوڑ کر وزیر صاحبہ جا کے دوسری قطار میں بیٹھ گئی۔ یہاں بھی کسی نے آگے بڑھ کر منتیں نہیں کی کہ آپ وفاقی وزیر ہیں تو سٹیج پر یا پہلی صف میں بیٹھیں۔ پروگرام شروع ہوا تو ایوارڈ جیتنے والے پروفیسر کے نام کے اعلان کے بعد اس پروفیسر کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی۔ پھر وزیر صاحبہ کو ایوارڈ دینے کے لئے سٹیج پر بلایا گیا تو ایوارڈ دینے سے پہلے وہ پوچھنے لگی کہ کیا میں کچھ بول سکتی ہوں؟ ساتھ کھڑے پروفیسرز نے کہا ضرور۔ تو ایوارڈ جینے والے پروفیسر کے کام اور تعریفوں پر چند جملے کہے اور اسے ایوارڈ دے کر سٹیج سے اتر کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ پھر ایوارڈ جیتنے والے پروفیسر نے تقریر کی تو مجھے لگا کہ یہ واقعی "حق بہ حقدار رسید" والی بات ہے۔
اب ہم کیا کرتے ہیں، آئیے وہ بھی بتاتا ہوں۔
ہماری کسی یونیورسٹی میں وفاقی یا صوبائی وزیر آئے تو پروٹوکول میں 10 گاڑیاں اور 20 چمچے ساتھ چل رہے ہوتے ہیں- یہ وہ چمچے ہوتے ہیں جنہیں مخلص سیاسی کارکن یا مفاد پرستوں کا ٹولہ کہا جا سکتا ہے۔ کوئی اسسٹنٹ کمنشر بھی اپنا کوٹ خود اٹھانا یا دوسری صف میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ ہمارا پاکستان قرض لے لے کر وزیروں، مشیروں اور فوجی و سول افسران کو پالتا ہے کہ وہ اچھی سے اچھی شاہی زندگی گزار سکیں کہ ان کو صبح کافی پلانے کے لئے ایک ملازم اور دفتر چھوڑنے کے لئے ڈرائیور اور دفتر میں صاحب کو قلم پکڑانے کے لئے الگ نائب قاصد موجود ہوں تاکہ موصوف ملک و قوم کی خدمت کر سکیں۔
سابق چیف جسٹس "ڈیم والی سرکار" نے جب نوٹس لیا کہ افسران بڑے بڑے سرکاری بنگلوں میں رہتے ہیں تو پتہ چلا کہ سرگودھا کے کمشنر صاحب کی رہائش گاہ 104 کنال اور 33 ملازم، ساہیوال کے SSP کی رہائش گاہ 98 اور میانوالی اور فیصل آباد کے ڈپٹی کمشنرز 95-95 کنال کی رہائش گاہوں میں مقیم ہیں۔ اس لسٹ میں وہ محکمہ تو موجود ہی نہیں جہاں جانے سے سب کے پر جلتے ہیں۔ وزیروں کے ناز و نخرے ان سب کے علاوہ ہے جو پاکستان جیسا غریب ملک برداشت کر رہا ہے۔ "ڈیم والی سرکار" نے نوٹس لے کر خود کو خبروں کی زینت تو بنایا تھا لیکن نتیجہ صفر۔ کاش وہ یہ نوٹس بھی نہ لیتا بلکہ ایک آدھ غریب کے کیس کی شنوائی ہی کر لیتا کہ پاکستان کے وسائل اس نوٹس کی وجہ سے مزید ضائع ہونے سے بچ جاتے۔
اب اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ ہمارا ملک قرضے لے لے کر ان شاہ خرچیوں کا کب تک متحمل ہو سکے گا ؟ کیا یہ شاہانہ زندگی گزارنے والے حضرات کرپشن کئے بنا رہ سکتے ہیں جب ان کو صاف نظر آ رہا ہو کہ ریٹائرمنٹ کے بعد کچھ نہیں رہنا تو اس کا انتظام ابھی سے کر لو۔
پاکستان میں دیگر مسائل کا انبار ہے جن کے لئے فنڈز بھی چاہئیے اور انہیں سمجھنے اور حل کرنے والے دماغ بھی۔ لیکن کیا سادگی اپنانے کے لئے بھی ہمیں فنڈز کی ضرورت ہے؟ اپوزیشن میں رہ کر سائیکل پر دفتر جانے والوں کی مثالیں دینے والے خود بھی سابقہ حکمرانوں جتنا پروٹوکول استعمال
کرتے ہیں۔
ایک طرف دنیا کی بہترین معشیت کی وفاقی وزیر کی سادگی کو رکھ لیں اور دوسری طرف قرضوں میں جکڑے پاکستان کے کسی اسسٹنٹ کمشنر کے نخروں کو دیکھ لیں تو سر شرم سے خود بخود جھک جائے گا۔ پاکستان میں جس کا جہاں اور جیسے بس چل رہا ہے وہ پاکستان کو کھا رہا ہے۔ نہ کسی کو کوئی خوف ہے نہ دکھ۔ آئیے مل کر پاکستان کے لئے رو لیتے ہیں۔