قیامت کی گھڑی آ ن پہنچی ہے۔ طبل جنگ بج چکا ہے۔ بس وہی باقی رہے گا کہ جس نے عقل سے کام لیا اور بروقت سنجیدہ اقدامات کئے۔ غفلت دکھانے والے مٹا دئیے جائیں گے۔وقت کے یزید آپ کو بوند بوند پانی کے لئے ترسانے کے لئے اپنے منصوبوں پر عمل درآمد شروع کر چکے۔ اب آپ نے فیصلہ کرنا ہے کہ ان کے لئے تر نوالہ بننا ہے یاحکمت سے ان کی چالوں کو ناکام بنانا ہے۔دلوں کو تھام لیجئے کہ آپ کے گھر میں پہنچنے والا پینے کا پانی جو کہ ایک بنیادی انسانی ضرورت ہے تیل کی طرح اب ایک انٹرنیشنل کموڈ ٹی بن چکا ہے ۔ اسٹاک ایکسچینج میں پانی کی ایڈوانس خریداری شروع ہو چکی۔ عین ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں آپ کا کوئی ہر دل عزیز حکمران پانی کی چائینا کٹنگ کرتے ہوئے آپ کے حصے کا پانی نیویارک شہر کی کسی کاونٹی کو برسوں پہلے بیچ کر کمیشن پکڑ لے۔ٹینکر مافیا اب ایک شریفانہ گروہ محسوس ہو گا کیونکہ عالمی ساہوکار اب پانی کو کمرشل کرنے کا فیصلہ کر چکےہیں۔
کیا وجہ ہے کہ عالمی بنک سمیت سارے اہم ڈونر ترقی پذیر ممالک میں بڑے ڈیموں کی فنڈنگ روک چکے ہیںجب کہ اس سے پہلے ترقی یافتہ ممالک اپنے دریاؤں کے تمام ممکنہ مقامات پر ڈیم بنا چکے۔پانی ہی اس صدی کا تیل یا’’بلیو آئل “ ہے اور پانی ذخیرہ کرنے والے یہ ڈیم اس کی آئل ریفانریاں۔
پانی کی قیمت کا یہاں سے اندازہ لگائیں کہ ہمارے محکمہ آب پاشی کو صنعتی ادارے صرف ایک کیوسک پانی استعمال کرنے کا کم ازکم ایک کروڑ روپیہ سالانہ ادا کرتے ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام رکھنے والے ہمارے ملک میں چھوٹی سے چھوٹی نہر میں بھی سو پچاس کیوسک ( سو پچاس کروڑ روپے مالیت کا ) پانی سال کے گیارہ مہینے چل رہا ہوتا ہے۔پچھلے سال جب میں نے’’پراپرٹی نہیں واٹر ٹینکر خریدئیے “ کے عنوان سے بڑے شہروں میں پانی کے بحران پر لکھا تو کچھ متعلقہ حلقوں کی طرف اس کو پسند نہیں کیا گیا لیکن اس شئیر کی گئی ویڈیو کو غور سے دیکھ اور سن کر اندازہ لگا لیجئے کہ حالات اس سے زیادہ نازک ہیں جتنا ہم اسے اب تک سمجھتے رہے ہیں۔
مستقبل کا ممکنہ منظر نامہ یہ بنتا نظر آرہا ہے کہ پنجاب کے کسی گاؤں کا پانی برسوں پہلے کسی یورپی اسٹاک ایکسچینج میں بک چکا ہوگا جب کہ گاؤں والے قطاروں میں لگ کر ایم پی اے اور ایم این اے کی سفارشی چٹ پراپنے کوٹے کی ایک ایک بوتل کے حصول کےلئے کھڑے ہوں گے۔ آپ کو سستی چینی اور گھی کے لئے یوٹیلٹی سٹوروں پر بننے والی لمبی قطاریں بھول جائیں گی کیوں کہ چینی اور گھی کا متبادل بھی ہے اور یہ انسان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ نہیں ہیں لیکن پانی، ہوا کے بعد دوسری اہم چیز ہے جس کے بغیر انسان زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتا۔مستقبل کے ولیموں کی سب سے قیمتی ڈِش پانی کی ایک چھوٹی بوتل ہوگی۔ جہیز میں دولہا میاں ایک مہینے کے استعمال کا پانی مانگ لیں گے۔ ایڈوانس میں بک کئے گئے پینے کے پانی کی فائلیں بحریہ ٹاون کے واٹر ڈیلرز سے مل رہی ہوں گی ۔ آئی ایم ایف ہر مہینے پانی کی قیمت بڑھانے کی شرائط رکھنے والا ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک کیلئے سب سے بڑا بنک مستقبل کے لئے پانی ذخیرہ کرنے والا ’’واٹر بنک‘‘ ہوگا جو ’’ورلڈ بنک‘‘ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ یہ حالات زیادہ دور نہیں اور آپ کو دوتین سال میں ہی اس طرف کئے جانے والے عمل اقدامات عالمی سطح پر نظر آنا شروع ہو جائیں گے جب کہ اس کی تیاری تو سمجھدار ممالک بیس تیس سال پہلے ہی شروع کرچکے۔
آج سے پندرہ سال پہلے ناروے کے محکمہ بجلی کے ہیڈ آفس جانے کا اتفاق ہوا تھا تو وہاں کئی سال ایڈوانس میں ممکنہ طور پر میسر ہونے والے پانی کےتخمینے اور اس سے بننے والی بجلی کے خریداری کے لئے سٹاک ایکسچینج میں اپنے سامنے لائیو بولی لگتے دیکھی تو ماتھا ٹھنکا کہ حالات کس طرف جارہے ہیں۔ ملائیشیا کا محکمہ آب پاشی آج سے بیس پچیس سال پہلے ہی پورے ملک سے ممکنہ طور پر پیدا ہونے والے پانی کے حجم کی مقدار ہر پندرہ منٹ بعد انٹرنیٹ پر بالکل مفت آن لائن دستیاب کردیتا تھا تاکہ پانی کے بارے میں بروقت فیصلے کئے جاسکیں بارش کا سارا پرانا ریکارڈ فری میں دستیاب ہوتا تھا۔ہمارے محکمہ موسمیات سے بارش کے پانی کا پرانا ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے ایڈوانس میں پیسے کیش ڈیپازٹ کروانے پڑتے ہیں اور پھر بھی پورا ڈیٹا دستیاب نہیں ہوتا۔ جو ملتا ہے وہ بہت مہنگا ہوتا ہے ۔ تقریباً ہزاروں روپوں کی قیمت میں اور وہ بھی کبھی درمیان سے ادھورا ہوتا ہے۔
آنے والا منظرنامہ بہت تکلیف دہ ہوسکتا ہے۔ دنیا کی دو تہائی آبادی 2030 سے پہلے پہلے ہی پانی کی کمی کا شکار ہونے جارہی ہے۔ پانی کے حوالے سے ہماری موجودہ روش ہمیں مستقبل میں کچھ نہایت ناپسندیدہ قسم کے کام کرنے پر مجبور کر سکتی ہے جنہیں کھل کر لکھا جائے تو اس وقت ایک مذاق لگے گا۔ مثلاً اگر ہم اسی طرح صاف پانی کے حوالے سے غافل رہے تو مستقبل میں عوام کے لئے میلوں دور دریاؤںیا تالابوں سے پیدل، جانوروں پر یا گاڑیوں پر پانی لانا ایک انتہائی ضروری کام بن جائے گا جس پر گھر کے ایک فرد کو کل وقتی طور پر کام کرنا پڑے گا۔پانی کی راشننگ ہوگی اور استحصالی طبقہ اس پر قابض ہوگا۔ ہم جیسے لاپرواہ لوگ بھی ایک مہینے تک اتنا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہوںگے جتنا ہم آج کل دو تین دنوں میں ضائع کر لیتے ہیں۔ جگ گلاس یا بوتلوں میں پانی پینا ایک خواب ہوگا۔ ہم مہینوں نہائیں گے نہیں۔ وضو اور غسل کی ضرورت اکثر تیمم سے پوری کرنا ہوگی۔ لوگ کار دھونا بند کردیں گے اور نہ ہی گھروں گے فرش پائپ سے دھوئے جائیں گے۔ مسجدوں میں وضو خانے بند ہوجائیں گے اور گھر سے وضو کا بندوبست کرنا ہوگا جو اکثر پھوار والی ٹوٹی سے ہوگا۔ طہارت کے لئے پانی کی بجائے ٹشو کا استعمال ہو گا۔ بارش کا پانی جمع کرنے کا وسیع پیمانے پر بندوبست ہوگا ۔ سڑکوں گلیوں پر بارش کا پانی بہت کم نظر آئے گا۔ بلکہ لوگ ایک دوسرے کی چھتوں اور گھروں سے بارش کا پانی باقاعدہ چوری کریں گے اور ان حالات میں کسی ملک کی معیشت کہاں ہوگی یا قومی خود مختاری کا کیا بنے گا آپ خو داندازہ لگا لیں۔
پاکستان الحمدللّٰہ صاف پانی کے لحاظ سے دنیا کے امیر ممالک میں شامل ہے۔ دنیا کے صرف تیس پینتیس ملک ہم سے زیادہ پانی رکھتے ہیں ۔ ہمارے پاس ہماری ضرورت کا سارا پانی موجود ہے لیکن ہماری واٹر مینیجمنٹ انتہائی غیر تسلی بخش ہے۔ زراعت ہمارا نوے فی صد سے زیادہ پانی پی جاتی ہے جس میں سے آدھا پانی ہم زمین سے
پمپ کرتے ہیں۔ اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ ہم زراعت میں جدید ٹیکنالوجی اور ایجادات کا سہارا لیتے ہوئے مائکرو مینیجمنٹ اور ہر پودے کے لیول تک جائیں تاکہ فلڈ اری گیشن کے موجودہ طریقے سے ضائع ہونے والا پانی بچ سکے۔
اس سلسلے میں اب تک کی جانے والی ساری کوششیں انتہائی ایمانداری سے ناکام ہو چکی ہیں۔ہمارا زیادہ تر کسان بے وسیلہ اور کم پڑھا لکھا ہے اور پائپ سسٹم کے منصوبے بناتے ہوئے اسے چلانے اور مرمت کرنے یا پھر اس کے اسپئیر پارٹس کی آسانی سے دستیابی کے بارے میں نہیں سوچا جاتا۔زمینی پانی کی پمپنگ پر پابندی لگا کر اسے اسٹیٹ اون کردیا جائے۔اچھی نسل کی فصلیں لگا کر فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جائے۔ آبادی کنٹرول کی جائے۔ شہروں، گھروں اور کارخانوں میں استعمال ہونے والا پانی ہر سطح پر بچایا جائے۔ کارواش سروس ا سٹیشنز یا گھروں میں پائپ سے گاڑیاں دھونے پر مکمل پابندی ہو۔ گھروں کے فرش پائپ سے نہ دھوئے جائیں۔ گھروں کا نیلا پانی جیسے وضو کا پانی یا سبزی دھونے والا پانی پودوں کو لگا کر ری سائیکل کیا جائے۔ وضو کا پانی ری سائیکل
( دوبارہ استعمال) ہو۔ بارش کے پانی کو گھروں، میدانوں اور ویرانوں میں ذخیرہ کرنے اور اس سے زیرزمین پانی میں جذب کرنے کے لئے اقدامات ہوں۔
سب سے اہم بات کہ پانی کی اہمیت اور اس کو ضائع ہونے سے بچانے کے لیے ہمارے اسکولوں ، کالجوں، مدرسوں اور جامعات میں ہر کلاس میں خصوصی مضامین پڑھائے جائیں۔ سوشل میڈیا پر آگاہی پھیلائی جائے۔ اس سلسلے میں خواتین کا کردار سب سے اہم ہے جو گھروں کی واٹر منیجمنٹ کا کنٹرول سنبھال سکتی ہیں اور بچوں کی چھوٹی عمر سے ہی پانی دوست تربیت کر سکتی ہیں۔