آج لاہور سے ایک بہن کی ایک کال آئی کہ ایک 20 سالہ سپیشل بیٹی کو ہم نے وہیل چیئر دینی ہے۔ آپ ذرا بتا دیں کہ کونسی دیں۔ میں نے کہا بیٹی سے وڈیو کال پر بات کروائیں۔ بات ہوئی تو بیٹی سے معلوم ہوا کہ وہ بی اے کر چکی ہے۔ پیدائشی طور پر چل نہیں سکتی ۔ کبھی ایک دن بھی کھڑی نہیں ہو سکی۔ نچلا دھڑ کام نہیں کرتا۔ مگر اسے اپنی ڈس ابیلیٹی کا نام نہیں پتا۔ نہ ہی سپیشل افراد والا سرٹیفکیٹ بنا ہے جب کہ علاج بہت ہوتا رہا۔ شناختی کارڈ بھی سپیشل پرسن والا نہیں ہے۔ علامات اور جسمانی ساخت سے مجھے پیرا پلیجک سیری برل پالسی لگا۔ کمر میں خم تھا جو دیکھ کر معلوم ہوگا سکولیوسز ہے یا کائی فوسز۔ وہ بیٹی پہلے دس سال چارپائی پر رہی اور پچھلے دس سال سے اب تک پیشنٹ وہیل چیئر ہی استعمال کرتی آئی ہے۔ خیراتی ادارے یا مخیر حضرات معذور افراد کو عموماً وہی مریضوں والی وہیل چئیر دیتے ہیں۔ نہ بیچنے والوں کو نہ دینے والوں کو معلوم ہوتاہے نہ لینے والوں کو کہ کونسی وہیل چیئر ہمارے لیے بہتر ہے۔ یہاں پاکستانی لوگوں کی ایک جذباتی سی نفسیات ہے۔ کہ وہ وہیل چیئر کو دل سے قبول نہیں کرتے اسی امید میں ہوتے ہیں کہ بچہ چلنے لگے گا - وہیل چیئر پر ورکنگ کرتے ہی نہیں ہیں۔ عارضی طور پر بیت المال کے دفتر سے کہیں سے فری ملنے والی پیشنٹ وہیل چیئر لیتے اور اسی پر کئی سال گزر جاتے ہیں
وہیل چیئر استعمال کرنے والے تین گروپ ہیں۔ ایک مریض جو چند دن یا چند ماہ وہیل چیئر پر رہتے ہیں۔ میں خود دو ماہ رہا ہوں جب بائیک سے گرا تھا۔ دوسرے وہ لوگ جو کسی حادثے کے سبب ہمیشہ کے لیے چلنے سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اور تیسرے وہ سپیشل افراد جو سیری برل پالسی، سپائنل مسکولر اٹرافی، پولیو، مسکولر ڈسٹرافی سپائنا بیفیڈا، یا کسی بھی اور ایسی معذوری کے ساتھ ہوتے ہیںکہ انکی ساری عمر وہیل چیئر پر ہی گزرنی ہوتی ہے-ہم کرتے کیا ہیں کہ مریضوں والی وہیل چیئر ہی سب کو دے دیتے ہیں۔ جبکہ اوپر بتائے گئے تین گروہوں میں پہلے کو چھوڑ کر دوسرے دو گروہوں نے ہمیشہ وہیل چیئر پر ہی رہنا ہوتاہے۔ وہ ان کے لیے ایسے ہی ضروری ہے جیسے پاؤں کے لیے جوتا۔ جوتا اگر آرام دہ نہ ہو تو چلنا کیسا تکلیف دہ ہوتا ہے؟ اکثریت کے پاس انکی کنڈیشن کے مطابق وہیل چیئر نہیں ہوتی۔ اور ساری عمر ایسے ہی گزر جاتی ہے۔ کھلی ڈھلی وہیل چیئر پر بیٹھ کر سارے جسم کا پوسچر خراب ہوجاتا ہے ریڑھ کی ہڈی ٹیڑھی ہو کر سکولیوسز یا کائی فوسز میں بدل جاتی ہے۔
جن افراد کے بازوؤں میں طاقت ہوتی ہے انکو Active وہیل چیئر دی جاتی ہے۔ کہ وہ خود سے اپنی وہیل چیئر چلا سکیں۔ یہ فولڈ ایبل اور انتہائی کم وزن ہوتی ہے۔ رکشے بس وین میں رکھ کر بھی بیٹھ سکتے ہیں۔ جہاں اتریں وہاں چلا لیں۔ اسکے بھی سائز ہوتے ہیں۔ جیسے 10 بارہ چودہ سولہ نمبر۔ جسم بھاری ہے یا دبلا پتلا یا قد چھوٹا ہے یا بڑا۔ ٹانگیں چھوٹی ہیں یا لمبی۔ ایک ٹانگ ٹھیک ہے یا دونوں ہی بے جان ہیں۔ ان سب باتوں کو مد نظر رکھ کر کسٹمائزڈ وہیل چیئر تیار کی جاتی ہے۔ ایک بازو کام کرتا یا دونوں۔ بنی بنائی تو پوری دنیا میں کوئی وہیل چیئر ایسی ہے ہی نہیں جو پکڑی اور کسی کو دے دی۔ درجن بھر چیزیں دیکھ کر پیمائش لے کر وہیل چیئر تیار کی جاتی ہے۔ جو واقعی معذور افراد کے لیے ایک نعمت بنتی ہے۔ اور انکے دل سے دینے والے کے لیے دعا نکلتی ہے۔ جن لوگوں نے خود وہیل چیئر چلانی ہوتی ہے۔ انکے لیے وہیل چیئر ایسی ہوتی ہے کہ جب وہ بیٹھیں تو انکے پیچھے ٹیک لگانے میں اور دائیں بائیں کوئی خالی جگہ نہ ہو۔ وہ ایسے فِٹ ہو کر بیٹھیں جیسے جوتے میں پاؤں آجاتاہے۔ فری جوتا جیسے تنگ کرتا ہے بلکل ویسے ہی وہیل چیئر کے دائیں بائیں اور پیچھے خالی جگہ بھی تنگ کرتی ہے۔ وہ بلکل نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ پاؤں رکھنے والی جگہ بڑی آرام دہ ہونی چاہیے۔ عام طور پر لوگوں کے پاؤں ہوا میں جھول رہے ہوتے۔ جس سے پاؤں سوجھ جاتے ہیں۔ ٹانگیں چھوٹی ہیں تو فُٹ ریسٹ اوپر ہوں اور پاؤں ان کے اوپر آجائیں۔ ایسے ہی سپورٹس وہیل چیئرز بھی ہوتی ہیں۔ جب معلوم ہو کہ باقی ماندہ عمر وہیل چیئر پر گزرنی ہےتو اس بات کو پلیز قبول کر لیں۔ جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے کچھ نہیں ہونا۔ اس فرد کو اسکی پسندیدہ گیم جیسے کرکٹ فٹ بال بیڈ منٹن والی بال یا وہیل چیئر ریس کے لیے وہیل چیئر بھی لے کر دیں۔ ایسی ٹیم سے اسکا رابطہ کروائیں۔ بیٹا ہے یا بیٹی ان کو نکلنے دیں آپکی اوور پروٹیکشن سے باہر۔
سپورٹس وہیل چیئرز کی ساخت تھوڑی مختلف ہوتی ہے۔ اور وہ کافی مضبوط چیز ہوتی ہے۔ آپ ٹی وی پر دیکھتے ہیں کہ وہیل چیئر پر لوگ کیسے ساری گیمز کھیلتے ہیں۔ ریس لگاتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔ لوگوں سے اللہ سے حکومت سے گلے شکوے کرکے چارپائی پر پڑے روتے نہیں رہتے۔ نہ اس امید میں رہتے ہیں کہ میرا آپریشن ہوگا میں چلنے لگوں گا۔ وہ اپنا ہر دن جیتے ہیں۔ اور معذوری کو اپنی زندگی میں کہیں بھی رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔
کچھ معذوریوں میں سو فیصد معلوم ہوتا ہے کہ فرد کبھی بھی چل نہیں پائے گا۔ کوئی معجزہ نہیں ہونا ہوتا۔ باہر کے ممالک ہم سے بہت آگے ہیں اگر ایسا کچھ ہو تو ان کے ہاں لوگ وہیل چیئر پر نہ ہوں۔ اور اللہ کرے بچہ چلنے لگ بھی جائے۔ مگر اسے چارپائی سے اٹھا کر وہیل چیئر تو فوراً دیں ناں۔ وہ دنیا دیکھے سکول جائے پارک مسجد دوکان پر جائے۔ گلی میں بچوں سے کھیلے۔ اسے آزاد کریں قید نہ رکھیں۔ جب اللہ کا حکم ہوا چل بھی لے گا ان شاءاللہ۔
مسکولر ڈسٹرافی، سپائنا بیفیڈا سیری برل پالیسی یا اس طرح کی دیگر ڈس ابیلیٹیز کو جن میں فرد کے بازوؤں میں طاقت نہیں ہوتی۔ یا بازو ہی نہیں ہوتے۔ لوگ مِنی ایچرز ہوتے ہیں۔ تو ان افراد کو الیکٹرانک وہیل چیئر دی جاتی ہے۔ برٹل بون ڈی زیز یعنی Osteogenesis Imperfecta کے تمام مریضوں کو اعلی کوالٹی کی ہائیڈرولک سسٹم والی پاور وہیل چیئر دی جاتی ہے۔ اس مرض میں مریض کی ہڈیاں بھربھری ہوتی ہیں۔ اور ساری عمر ایسے ہی رہتی ہیں۔ اتنی کچی کی کروٹ بدلنے سے بھی پسلی ٹوٹ جائے۔ ہڈیاں خود ہی ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔ الیکٹرانک وہیل چیئر کی بھی کئی اقسام ہیں۔ جو معذوری اور جسامت کے ساتھ جہاں فرد رہتا ہے وہ ماحول دیکھ کر دی جاتی ہے۔
گھروں میں چارپائی پر پڑے معذور
افراد کو وہیل چیئر دیں۔ اور وہ دیں جسے وہ خود چلا سکیں۔ یا الیکٹرانک دیں۔ دھکا لگانے والی صرف مریضوں کو دیں۔ مرض اور معذوری میں بہت فرق ہے۔ مرض ختم ہوجانے والے بھی ہوتے ہیں اور کچھ دائمی ایسے ہی معذوریوں کا سسٹم ہے۔ دائمی معذوری کے حامل افراد کو انکی ٹانگیں وہیل چیئر کی شکل میں فوراً دے دینی چاہیں۔ نہ کہ اس انتظار میں کئی سال ضائع کر دیے جائیں کہ بچہ چلنے لگے گا اور اسی پر سارا فوکس رکھتے ہوئے بچے کو دنیا سے کاٹ کر گھر بٹھائے رکھیں۔
اس نے چلنا تو پتا نہیں ہوتا کہ نہیں وہ جینا بھی بھول جاتا ہے۔ اور گھر میں بیٹھے ہی منفی سوچوں میں چلا جاتاہے۔ چلنے والوں لوگوں سے حکومت سے بلا وجہ کے شکوے ہی کرتا رہتا کہ میرے لیے یا معذور افراد کے لیے یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ امداد و خیرات لینے کی نفسیات وہ خود یا اسکے والدین پال لیتےہیں اور اسے معاشرے سے جدا کرکے ساری عمر گھر ہی بٹھائے رکھتےہیں۔ پلیز ایسا نہ کریں۔ اب چھوڑ دیں یہ پریکٹس۔ آج سے ہی ابھی سے ہی بچے کو اسکی معذوری کے ساتھ جینا شروع کروائیں۔ جھوٹی امید میں نہ رہیں کہ یہ جلد ہی چلنے لگے گا۔ حقیقت کو دل سے قبول کریں۔ اگر آپ واقعی اپنے بچے یا بچی سے پیار کرتے ہیں۔