ہمارے دوست،جناب مجاہدحسین صاحب نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا وجہ سے مغرب کےکفارکے ہاں تو پے در پے، تخلیقیت سے بھری ذہانتیں پیدا ہو رہی ہیں، اور ہمارے ہاں دین و مذہب سے لے کر سائنسز اور سوشل سائنسز، ہر سطح پر محض تقلید کا رواج ہے۔ کوئی نئی سوچ، ایجاد، دریافت کچھ بھی ہمارے نام پر نہیں جب کہ یہ سائنسی طور پر ثابت شدہ حقیقت ہے کہ قدرت ہر خطے میں ذہانتیں برابر تقسیم کرتی ہے، تو غلطی کہاں ہے؟اس پر عرض ہے کہ ہمارے ہاں خداداد ذہانتوں کے باوجود تحقیق و تخلیق کے سوتے خشک ہونے کی بنیادی وجہ تقلیدِ محض پر مبنی ہمارا نظامِ تعلیم اور سماجی اقدار ہیں۔ خالص تحقیقی مزاج کی آبیاری کسی بھی سطح پر کہیں بھی موجود نہیں۔ تحقیقی اور تخلیقی سوالات کی بیخ کنی کا سلسلہ بچپن میں گھر سےشروع ہوتا ہے، اور سکول، مدرسہ، یونیورسٹی اور دینی جامعہ ہر جگہ تقریبًاایک جیسی شدت سے آزاد سوالات کا گلہ گھونٹ دیا جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگائیے کہ تحقیق کی اعلی سطحی تعلیم کے طلبہ کو نصیحت کی جاتی ہے کہ اپنی تحقیق میں کوئی نئی بات پیش نہ کر دینا، ورنہ دفاع کرنا دشوار ہو جائے گا اور ڈگری ملنے میں مشکلات پیدا کر دی جائیں گی۔ راقم نے اسی وجہ سے اپنا ڈاکٹریٹ (اسلامیات) کا مقالہ انگریزی میں لکھا تھاکہ انگریزی جاننے والے معائنہ کار شاید اتنے تنگ نظر نہ ہوں۔آپ نے کبھی غور کیا کہ کئی برسوں سے پاکستانی طلبہ، او لیول کے امتحانات میں عالمی سطح پر ٹاپ کر رہے ہیں، اس میں کئی عالمی ریکارڈز اپنے نام کروا چکے ہیں، لیکن پھر وہ نجانے کہاں غائب ہو جاتے ہیں، علم کے کسی میدان میں کسی نئی تھیوری، ایجاد، دریافت، کسی نئے خیال کی پیش کش میں ان کا نام کہیں نہیں ملتا، بلکہ گزشتہ 60، 70 سالوں میں کوئی ایک بھی عالمی معیار کی تحقیق و تخلیق خالص پاکستانی ذہن سے نہیں پھوٹی، جو ایک دو نام ہیں بھی، تو انہیں مذھبی شناخت کے خوف میں مبتلا قوم نے اپنانے سے انکار کر دیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی نظام تعلیم رٹے پر مبنی تو ہے ہی، لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ او لیول جیسے کانسپٹ بیس نظام ِتعلیم میں بھی پاکستانی تعلیمی اداروں نے ممکنہ حد تک رٹا متعارف کروادیا ہے، جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ ہمارے پاکستانی طلبہ عالمی سطح پر کئی سالوں سے ٹاپ کر رہے ہیں، لیکن کسی اصلی تخلیق و تحقیق میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔ او لیول کے ایسے پاکستانی طلبہ جنھوں نےکچھ عرصہ بیرون ملک، امریکہ اور انگلینڈ وغیرہ میں پڑھا اور خاندانی وجوہات کی بنا پر باقی کی تعلیم پاکستان میں مکمل کرنے آ جاتے ہیں، ہمارے طریقہ تدریس پر حیرت اور کوفت کا اظہار کرتے ہیں کہ یہاں اتنے طویل لیکچر کیوں دیئے جاتے ہیں، لکھنے کا کام بہت زیادہ دیا جاتا ہے، جب کہ یورپ وغیرہ میں اس سطح پر لیکچر عموماً پندرہ منٹ سے زیادہ نہیں ہوتا، اور ہر لیکچر کے ساتھ کچھ عملی، بصری کام بھی ضرور کرایا جاتا ہے، جب کہ ہمارے ہاں سوشل سائنسز تو رہے ایک طرف، خالص سائنسی مضامین میں بھی عملی کام بھی عمومًا تصوراتی انداز میں کرایا جاتا ہے، یا زیادہ سے زیادہ پروجیکڑز پر دکھا دیا جاتا ہے۔ ہاتھ سے عملی کام کرنے کا رحجان بہت ہی کم ہے۔ سارا زور تھیوریز اور ان کی وضاحت پر مبنی نوٹس تیار کرنے اور یاد کرانے پر دیا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہمارے طلبہ کے ٹاپ کرنے کی وجہ ان کی تخلیقی ذہانت نہیں، بلکہ پرچے اچھے انداز میں کرنے کی صلاحیت ہےکیونکہ ہمارے ہاں لکھنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ کو اچھا سے اچھا، قابل پاکستانی ڈاکٹر، انجینیر، اکاونٹنٹ، فلسفے کا حافظ فلسفی، تایخ کا حافظ مورخ، تعلیمی تھیوریز کا حافظ ماہر تعلیم اور ماہرِ عمرانیات تو مل جائے گا، لیکن موجد نہیں ملے گا، آزاد مفکر نہیں ملے گا، کوئی ایک بھی ایسا نہیں مل پائے گا جس نے خالصتاً کوئی نئی ایجاد کی ہو، کوئی بالکل نیا تجربہ کیا ہو، یا سائنس و بشریات میں کوئی نئی تھیوری یا نظریہ دیا ہو۔ زیادہ سے زیادہ کسی ایجاد کو موڈیفائی کر دیا ہوگا، یا کسی نظریے پر حاشیہ لکھ دیا ہوگا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسی کو ہمارے ہاں تحقیق کی معراج قرار دیا جاتا ہے، اور اسی پر مقامی قسم کے آسکر بھی مل جاتے ہیں۔
دینی علوم میں تو تقلید کا رحجان واجبات دین میں شامل ہے ہی۔ راقم ایک دینی تحقیقی مجلے کی ایڈیٹنگ بھی کرتا ہے، جس قسم کے مضامین چھپنےآتے ہیں، مت پوچھئے، دیکھ کر کیا حال ہوتا ہے۔ یعنی اس سطح پر بھی 'نماز کے فوائد جیسا مضمون ایک سینیئر محقق کی طرف سے موصول ہو سکتا ہے-عالمی سطح پرخالص دینی مضامین جیسے حدیث اور فقہ میں پاکستانی علما اور محققین کا حصہ کتنا ہے، اس کا اندازہ کرنا ہو تو مولانا سمیع اللہ سعدی کے مضامین ، "دور جدید کا حدیثی ذخیرہ ایک تعارف، اور "دور جدید کا فقہی ذخیرہ۔: عمومی جائزہ" پڑھ کر دیکھ لیجیے۔ جن چند علما کا ذکر کسی مارجن میں آیا ہے ایک تو انفرادی لوگ ہیں، ٹیم ورک نہیں، جیسا کہ باہر کے ممالک میں ہوتا ہے، دوسرے ان تمام علما کو جمہور کی تائید حاصل نہیں، انھیں روایتی علما کے دائرے سے باہر سمجھا جاتا ہے۔
جس معاشرے کے دینی علمی مزاج کا یہ عالم ہو کہ اگر کوئی اپنی تحقیق کے نتیجے میں کسی منفرد رائے کو پہنچ جائے، تو اسےتفرد جیسا حقارت آمیز، اور نفرت انگیز نام دے کر اس سے استفادے سے اجتناب کرایا جاتا ہو، وہاں کتنے حوصلہ مند ہوں گے کہ جو پہلے تحقیق کا جوکھم برداشت کریں، اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہوانے والےتفردپر ساری زندگی طعنے بھی سہیں۔ دماغ کے اس آزادنہ استعمال پر معاش کے دروازے تک بند کر دیے جاتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اپنے طلبہ کو آزادیء فکر کی راہ دکھانے کی جرأت کر ہی لی جائے، جو اوّل تو انتظامیہ کی نگرانی کی وجہ سے عمومًا ممکن ہی نہیں ہوتی، تو طلبہ کو یہ تلقین بھی کرنی پڑتی ہے کہ امتحانات میں کوئی آزادانہ رائے نہ لکھ دینا، وہی لکھنا جو نصاب کی کتاب میں لکھا ہوا ہے، ورنہ فیل تو کر ہی دیے جاؤ گے، غدار یا گمراہ بھی قرارپاؤ گے۔
سید سلیمان ندوی جیسے عالم، جنھوں نے اپنی تحقیقات کے نتیجے میں کچھ منفرد آراء اپنائی تھیں، پھر جب عمر کے آخری دور میں،وہ تصوف کی راہ سے مولانا اشرف علی تھانوی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے، تو ایک اجمالی اعلان فرمایا کہ میں اپنے تمام تفردات سے برأت کا اعلان کرتا ہوں۔ ہمیں کوئی افسوس نہ ہوتا اگر وہ اپنے تمام تفردات سے برأت اپنی مزید تحقیق کی روشنی میں کرتے اور اپنے رجوع کے دلائل بھی بتاتے، لیکن یہ اجمالی اعلان، کیا علم و تحقیق کی شکست کا اعلان نہیں، جو شائد آخرت کی نجات کے لیے ضروری سمجھ کر کیا گیا۔ علم کے مسند نشین بڑوں میں جب ایسا رویہ پایا جائے گا تو علم و تحقیق اور تخلیق نے ایسے معاشرے میں کیا سانس لینا ہے۔حد تو یہ ہے کہ تخلیقی ذہن سے ایک گونا خوف اور احتراز کا رویہ پایا جاتا ہے، ایسے شخص کو کوئی اس وجہ سے نوکری نہیں دیتا ہے یہ دوسروں کو اپنے سے پیچھے چھوڑ جائے گا۔
ہمارے سینیئر رفیق کار، برن ہال کالج کے سابق پرنسپل، سلیم صاحب، ایک پر حکمت ذہن کے مالک ہیں، کہا کرتے ہیں کہ ہمارے ادارے غلام پیدا کرتے ہیں، طلبہ کو سن لو اور مان لوکے طرزِ تعلیم کے ذریعے، غلامی کے لیے تیار کیا جاتا ہے ، نیز، محکمے کا سربراہ اپنے ملازمین سے تابع دار نہیں بلکہ غلامی کی توقع کرتا ہے۔ ہمارےایک فوجی پرنسپل تو میری مناسب سی داڑھی کا سائز تک اپنی پسند کے مطابق کرانا چاہتے تھے۔ اپنے ماتحتوں میں غلامی کی خو پیدا کرنے کی یہ خواہش کیوں ہے، اس کی وجہ سلیم صاحب یہ بتاتے تھے کہ غلام قومیں جب آزاد ہوتی ہیں تو وہ اپنے لوگوں کے ساتھ وہی سلو ک کرتی ہیں جو ان کے سابقہ آقا ان کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ غلامی کی یہ وراثت ہم چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ ان کا مقولہ سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ہے کہ غلام، بد ترین آقا ہوتا ہے۔
اس کاانکار نہیں کہ ذہانتیں یہاں بھی پیدا ہوتی ہیں لیکن بڑی بے دردی سے ان کا قتل کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بڑی مشکل سے پیدا ہونے والے دیدہ ور، بڑی مشکل سے بچ پاتا ہے۔ علم و تحقیق اور تخلیق کے دشمن ،دراصل ،خدا کے دشمن ہیں۔ خدا ہر بار ہر بچے کو آزاد ذہن دے کر دنیا میں بھیجتا ہے، لیکن یہ خدا کی تخلیق کے دشمن ہر بچے کی تخلیقیت کو جِلا پانے سے پہلے ہی دفن کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ یہ خدا سے مقابلہ پر کھڑے ہوئے لوگ ہیں۔ یہ دین و مذھب، سائنس و سوشل سائنس کے فرعون ہیں جو کسی تخلیق کار موسیٰ کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مار دینا چاہتے ہیں تاکہ ان کی گدّی، ان کی کرسی، ان کی روٹین اور ان کی تقلیدی تحقیق کی جامد سلطنت میں کوئی اضطراب پیدا ہونے نہ پائے۔ اس لیے حیرت نہیں ہونی چاہیے جب پاکستان میں آنے والے زلزلوں کو امریکی سائنسی تجربات کا شاخسانہ قرار دینے والے افسانوں کو پذیرائی ملتی ہے۔اور اگر ان کے ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود کوئی آزاد فکر موسیٰ بچ نکلے تو یہ لوگ اس کے لیے حالات اتنے تنگ کر دیتے ہیں کہ اسے حضرت موسیٰؑ ہی کی طرح چھپ چھپا کے جلا وطن ہو جانا پڑتا ہے، ورنہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ پھر ہر پیدا ہوجانے والا
موسیٰ، اتنا خوش قسمت نہیں ہوتا کہ جلا وطنی سے واپس اپنے وطن کو لوٹ سکے اور اپنے لوگوں کو ان تنگنائیوں اور شکنجوں سے آزاد کرا سکے جن میں جہالت و تقلید کے فرعونوں نے انہں جکڑ رکھا ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں مثبت تبدیلی حکومتی اقدامات کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ حکومت کا اس صورتِ حال کا تبدیل کرنے کا کبھی کوئی ارادہ رہا ہی نہیں۔ پاکستان میں حکومت جمہوری رہی ہو یا فوجی، تعلیم کے بارے میں ان سب کا رویہ ایک ہی جیسا رہا ہے۔ تعلیم سے یہ گریز، دراصل اس شعور کی راہ روکنے کی کوشش ہے جو کسی قسم کے استبداد اور استحصال کو قبول کرنے اور آسانی سے بے وقوف بننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جب تک یہ صورتِ حال برقرار ہے، ہمیں دوسروں کی اترن ہی پہننا ہوگی، تحقیق و تخلیق کی دولت اور ثمرات آزاد ذہنوں کو ملا کرتے ہیں، غلاموں کو نہیں۔
وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے راہ و رسم شاہبازی