احادیث نبویہ سے دعا کی قبولیت میں مدد دینے والے اسباب میں سے ایک سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے نامہ عمل میں کچھ ایسے نیک کام ہوں جو خالصتاً رضائے الہی کے لیے کیے گئے ہوں۔ کسی مشکل وقت میں ان اعمال کے وسیلے سے اللہ سے دعا کی جائے تو اس کی قبولیت کی توقع بہت بڑھ جاتی ہے۔
ایک مشہور حدیث میں بنی اسرائیل کے تین آدمیوں کا واقعہ بیان کیا گیا ہے جو ایک سفر میں بارش کی وجہ سے پناہ لینے کے لیے ایک غار کے اندر گئے اور غار کے دہانے پر چٹان کے گرنے سے اندر محصور ہو گئے۔ پھر تینوں نے مشورہ کیا کہ اپنے اپنے اعمال میں سے کوئی ایسا عمل ڈھونڈیں جو خالص اللہ کی رضا کے لیے کیا گیا ہو اور ان کا واسطہ دے کر اللہ سے آسانی پیدا کرنے کی دعا کریں۔ ان کی دعائیں قبول ہوئیں اور علی الفور چٹان دہانے سے ہٹ گئی۔ یہ تین عمل حسب ذیل تھے۔
ایک نے اپنے اس عمل کا حوالہ دیا کہ وہ شام کو گھر لوٹنے پر سب سے پہلے اپنے بوڑھے والدین کو کھانا کھلانے کا اہتمام کرتا ہے اور ایک موقع پر جب کسی وجہ سے اسے تاخیر ہو گئی اور والدین انتظار کرتے کرتے سو گئے تو وہ ساری رات ان کے سرہانے کھڑا رہا اور ان سے پہلے اپنے بیوی بچوں کو کھانا کھلانا اسے گوارا نہیں ہوا۔
دوسرے نے اپنی چچازاد کے ساتھ برتاو کا حوالہ دیا جس میں اسے شدید جنسی رغبت تھی۔ ایک موقع پر اس نے اس کی تنگ دستی یا کسی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی مدد کے بدلے میں جنسی تعلق کا مطالبہ کیا، لیکن عین موقع پر خاتون نے اسے خدا خوفی کی نصیحت کی جس پر اس نے موقع میسر ہوتے ہوئے بھی حرام کاری سے اجتناب کیا اور خاتون کو دی ہوئی رقم بھی اس سے واپس نہیں لی۔
تیسرے نے ذکر کیا کہ ایک شخص اس کے پاس مزدوری کر کے اپنی اجرت وصول کیے بغیر چلا گیا۔ اس کی غیر موجودگی میں اس نے اس کی اجرت کو مال تجارت میں شامل کر لیا اور اس کے منافع کا پورا پورا حساب رکھا۔ پھر کئی سال کے بعد جب وہ شخص واپس آیا اور اپنی اجرت کا مطالبہ کیا تو اس نے پورے منافع کے ساتھ وہ رقم اس کو ادا کر دی۔
ان تینوں اعمال میں خاص بات یہ ہے کہ ان کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ پہلا عمل ہمیں قرابت داری کے حقوق میں فرق مراتب کی اہمیت بتاتا ہے۔ دوسرا عمل جنسی خواہش سے مغلوب ہو کر مجبور اور بے چارہ خواتین کے استحصال کی مکروہیت کو اجاگر کرتا ہے۔ تیسرا عمل مالی معاملات میں دیانت داری اور دوسروں کے حقوق کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی تعلیم دیتا ہے۔ ہم مسلمانوں کو اپنی بگڑی ہوئی اخلاقی حالت کے تناظر میں آج اسی طرح کے نیک اعمال اپنے نامہ عمل میں جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بنی اسرائیل کے تین افراد کے واقعے سے متعلق دو سوالات قابل وضاحت ہیں۔
ایک سوال تو بیوی بچوں کو بھوکا رکھتے ہوئے ماں باپ کے اٹھنے کا انتظار کرنے سے متعلق ہے۔ بظاہر یہ ایک غیر معقول بات معلوم ہوتی ہے۔ سو جاننا چاہیے کہ شریعت میں کسی عمل کی تحسین بسا اوقات ظاہری عمل کے اعتبار سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ وابستہ احساس یا جذبے کی وجہ سے کی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی عمل عام حالات میں مستحسن یا مطلوب نہ ہو، لیکن کسی خاص حالت میں انسان پر کوئی محمود احساس اتنا غالب آ جائے کہ ظاہری عمل کے بجائے اس کو اہمیت حاصل ہو جائے۔ یہاں بھی ایسا نہیں کہ ایسی ہر صورت حال میں یہ مطلوب یا مستحسن ہے کہ آدمی بیوی بچوں کو بھوکا چھوڑ کر ماں باپ کے کھانے کا انتظار کرے۔ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے۔ ہاں، اس خاص واقعے میں اس آدمی کا دل، اپنے معمول کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ نہیں ہوا اور اس کی وجہ والدین کی محبت اور انھیں اولاد پر مقدم رکھنے کا جذبہ تھا۔ یہی چیز ہے جو اللہ کو پسند آئی اور جس کی اس حدیث میں تحسین کی گئی ہے۔
دوسرا سوال کسی اچھے عمل کو دعا کی قبولیت کے لیے بطور وسیلہ پیش کرنے سے متعلق ہے۔ اس پر مولانا اصلاحی علیہ الرحمہ کی
زبانی یہ اشکال سامنے آیا ہے کہ انبیاء کی دعاؤں میں دعا کی قبولیت کے لیے خود اللہ تعالی کی صفات کا حوالہ دینے کا ذکر ملتا ہے، کہیں بھی انسان کے اپنے عمل کو بطور وسیلہ پیش کرنے کا ذکر قرآن میں نہیں ہے۔ ہمارے خیال میں یہ اشکال یا تنقید درست نہیں ہے۔ اول تو قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انبیا کی ساری دعائیں نقل کرنے کا کوئی اہتمام نہیں فرمایا کہ ان دعاؤں کے استقرا سے کوئی کلی ضابطہ اخذ کیا جا سکے۔ دوسری اور زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی رحمت کو اپیل کرنے کا صرف یہی طریقہ نہیں کہ اس سے یہ کہا جائے کہ تو رحیم ہے، تو کریم ہے، اس لیے ہماری دعا قبول فرما۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں اس کے متعدد دوسرے طریقے بھی بیان ہوئے ہیں جن میں سے ایک طریقہ خود اپنے عمل کو بطور وسیلہ پیش کرنا بھی ہے۔
مثال کے طور پر احادیث میں بہت سے اعمال کے ساتھ یا ان کے متصل بعد دعا کرنے کو موجب قبولیت بتایا گیا ہے۔ وضو کے بعد، فرض نماز کے بعد، تہجد کے وقت اور دیگر کئی مواقع کا ذکر احادیث میں موجود ہے۔ ان کی روشنی میں انسان جب ان مواقع پر یہ ذہن میں رکھتے ہوئے دعا کرتا ہے کہ یہ قبولیت کا وقت ہے تو خود اس کے اپنے عمل کا حوالہ بھی اس کے ذہن میں موجود ہوتا ہے۔ فرض نماز کے بعد خاص اہتمام سے دعا کرنا اس احساس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ یا اللہ میں نے تیرے ایک فریضے کو پورا کیا ہے جس پر خوش ہو کر تو دعا قبول فرماتا ہے، اس لیے میری دعا قبول فرما۔ حدیث میں مروی جس دعا کو سید الاستغفار کہا جاتا ہے، اس میں تو مزید وضاحت کے ساتھ انسان کے اپنے عمل اور رویے کو قبولیت دعا کے لیے بطور وسیلہ پیش کرنے کا ذکر ہے۔
اللَّھُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُك، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُلَكَ بِذَنْبِي؛ فَاغْفِرْ لِي؛ فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ
’’پروردگار، میں تیرے ساتھ کیے گئے عہد پر اپنی بساط کی حد تک قائم ہوں، تیری نعمتوں کا معترف اور اپنے گناہوں کا اقرار کرنے والا ہوں، پس میری مغفرت فرما۔
یہ اپنے طرز عمل اور خدا کی طرف یکسوئی کا
حوالہ دے کر دعا کرنے کی مثال ہے اور توسل بالاعمال سے مختلف نہیں ہے۔ اس لیے اپنے کسی عمل کا حوالہ دے کر، جو خالصتاً رضائے الہی کے لیے کیا گیا ہو، اللہ کی رحمت کو اپیل کرنا یقیناً قبولیت دعا کا مستوجب ہے۔ اس کو کسی دینی یا الہیاتی اصول کے خلاف نہیں کہا جا سکتا۔