وہ آخری چند دن دسمبر کے
ہر برس ہی گراں گزرتے ہیں
خواہشوں کے نگار خانے میں
کیسے کیسے گماں گزرتے ہیں
رفتگاں کےبکھرتے سالوں کی
ایک محفل سی دل میں سجتی ہے
فون کی ڈائری کے صفحوں سے
کتنے نمبر پکارتے ہیں مجھے
جن سے مربوط بے نوا گھنٹی
اب فقط میرے دل میں بجتی ہے
کس قدر پیارے پیارے ناموں پر
رینگتی بدنما لکیریں سی
میری آنکھوں میں پھیل جاتی ہیں
دوریاں دائرے بناتی ہیں
دھیان کی سیڑھیوں میں کیا کیا عکس
مشعلیں درد کی جلاتے ہیں
ایسے کاغذ پہ پھیل جاتے ہیں
حادثے کے مقام پر جیسے
خون کے سوکھے نشانوں پر
چاک کی لائنیں لگاتے ہیں
ہر دسمبر کے آخری دن میں
ہر برس کی طرح اب بھی
ڈائری ایک سوال کرتی ہے
کیا خبر اس برس کے آخر تک
میرے ان بے چراغ صفحوں سے
کتنے ہی نام کٹ گئے ہونگے
کتنے نمبر بکھر کے رستوں میں
گرد ماضی سے اٹ گئے ہونگے
خاک کی ڈھیریوں کے دامن میں
کتنے طوفان سمٹ گئے ہونگے
ہردسمبر میں سوچتا ہوں میں
ایک دن اس طرح بھی ہونا ہے
رنگ کو روشنی میں کھونا ہے
اپنے اپنے گھروں میں رکھی ہوئی
ڈائری ،دوست دیکھتے ہونگے
ان کی آنکھوں کے خاکدانوں میں
ایک صحرا سا پھیلتا ہوگا
اور کچھ بے نشاں صفحوں سے
نام میرا بھی
کٹ گیا ہوگا
*امجد اسلام امجد*
میرے معبود فقط تیرے لیے تیرے لیے
ایسی مَنڈی جہاں لُٹتا تھا ہمیشہ گاہک
جنسِ گاہک پہ واں بازار لُٹائے ہم نے
دونوں ہاتھوں جہاں لُوٹا کیے سب، ٹھیک وہیں
صبر و تسلیم پہ کردار اٹھائے ہم نے
سارے ماحول میں ارزاں رہی نفسا نفسی
سخت حیرت کہ ترے عہد نبھائے ہم نے
اِدّعا کوئی نہیں فخر و انا کوئی نہیں
تیری توفیق سے یہ کوہ ہلائے ہم نے
کچھ توقّف سے کھلِیں کونپلیں، کلیاں، خوشے
یُوں بظاہر تو سبھی بیج گنوائے ہم نے
عزم اخلاص ارادہ بھی تری دین تھا سب
تیرے ہاتھوں بڑے فرعون گرائے ہم نے
معجزہ دیکھ لیا یہ بھی تری شفقت کا
وہ بھی روشن ہیں جو دیپک نہ جلائے ہم نے
عَجز سے دل ترے قدموں میں جھکائے ہم نے
میرے معبود فقط تیرے لیے تیرے لیے
*احمد سلمان اشرف*
مالک ہمیں تنہا نہ چھوڑ
اوطاق پر رکھا نہ چھوڑ
مت سیل میں بہ جانے دے
ہک دک پسِ صحرا نہ چھوڑ
کھو جائیں گے پھر بھیڑ میں
یوں سامنے بچھڑا نہ چھوڑ
جیون لگاتار اک تھکن
اس بحر کو بپھرا نہ چھوڑ
اے مستعاں یوں تھام لے
کچھ خوف کچھ دھڑکا نہ چھوڑ
کشکول میں آکاش دے
سنسار میں رسوا نہ چھوڑ
کر خاک کے ذرے الگ
یہ بھید بھی لپٹا نہ چھوڑ
منزل دلا امید کو
چہرہ کوئی اترا نہ چھوڑ
*احمدسلمان اشرف*
رکی ہوئی ہے کہیں شب کی بات آنکھوں میں
سویر ہو گی تو دیکھے گی رات آنکھوں میں
وہ سیر چشم نہیں تھا مگر وجود اس کا
رُکا ہؤا ہے مــری کم بســاط آنکھـوں میں
چھپا رکھا تھا زمانے کی دھول نےجس کو
لیے ہوئے تھا زمانوں کی بات آنکھوں میں
کــہاں تـھی فـرصــتِ اظہار تـــا دمِ آخـــــر
کہ مر رہے تھے سبھی ممکنات آنکھوں میں
وہ بے ہنر سـا تھـا سجّـاد ! تم نے دیکھــا تھا
مگر یہ کیا کہ تھیں جملہ صفات آنکھوں میں
*سجاد خالد*
بشکریہ : امجد اسلام امجد ‘ احمد سلمان اشرف‘ سجاد خالد