نور ہاتھوں سے اٹھے ، لفظ سے خوشبو آئے
نعت لکھتے ہوئے گر آنـکھ میں آنــســو آئے
قـلب دیـدار کـرے آنـکھ طـوافـی بن جائے
مجھ میں حسان کی ، جامی کی اگر خو آئے
ان کے نعلین کا صدقہ کہ مدینہ کے مجھے
خواب تو آتے ہیں گر خواب میں مہ رُو آئے
سنگِ میلِ رہِ طیبہ کو ہے معلوم کہاں
ہم تصور میں کئی بار اسے چھو آئے
فون پر طیبہ کے زائر نے تڑپ کر یہ کہا
شاد! کیا حال ہو تیرا جو یہاں تو آئے