جواب: یہ نقطۂ نظر کہ حضرت حوابہ الفاظ دیگر عورت تمام نسل انسانی کی بدبختی اور بربادی کی ذمہ دار ہے، بلاشبہ غیر اسلامی نقطۂ نظر ہے۔ اس نقطۂ نظر کا ماخذ تحریف شدہ تورات ہے جس پر یہود و نصاریٰ ایمان رکھتے ہیں اور اسی کے مطابق ان کے دانشور اور مفکرین لکھتے اور بولتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلم دانشور بھی بلا سوچے سمجھے ان کے راگ میں راگ ملاتے ہیں۔
قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں حضرت آدمؑ اور ان کے جنت سے نکالے جانے کا قصہ بیان ہوا ہے۔ اس قصے سے متعلق آیتوں کو یکجا کرنے اور ان کے مطالعے سے درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں:
(1) اللہ تعالیٰ نے ممنوعہ درخت کا پھل نہ کھانے کا حکم بیک وقت حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ دونوں کو دیا تھا۔ اللہ کے حکم کے مطابق دونوں ہی اس بات کا مکلّف تھے کہ اس درخت کے قریب بھی نہ جائیں۔ اللہ فرماتا ہے:
وَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَامِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِـئْتُمَـا ۠وَلَا تَـقْرَبَا ھٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ (البقرۃ: 35)
”اور ہم نے آدم سے کہا کہ تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں رہو اور یہاں بہ فراغت جو چاہو کھاؤ مگر تم دونوں اس درخت کا رخ نہ کرنا ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے“
(2) آدمؑ کو ورغلانے والی حضرت حوا نہیں تھیں بلکہ ان دونوں کو بہکانے والا اور جنت سے نکلوانے والا شیطان تھا۔ اس سلسلے میں اللہؑ کا فرمان ملاحظہ ہو:
فَاَزَلَّهُمَا الشَّيْطٰنُ عَنْهَا فَاَ خْرَ جَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيْهِ ۠ (البقرۃ: 36)
”مگر شیطان نے ان دونوں کو اسی درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اس حالت سے نکلوا چھوڑا جس میں وہ تھے۔“
سورہ بقرہ کے علاوہ سورہ اعراف میں بھی اس واقعے کی تفصیل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
وَيٰٓاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِـئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِيْنَ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطٰنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَاوٗرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سَوْاٰتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهٰىكُمَا رَبُّكُمَا عَنْ هٰذِهِ الشَّجَرَةِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُوْنَا مِنَ الْخٰلِدِيْنَ وَقَاسَمَهُمَآ اِنِّىْ لَكُمَا لَمِنَ النّٰصِحِيْنَ (الاعراف: 19-21)
”اور اے آدم تم اور تمہاری بیوی تم دونوں اس جنت میں رہو اور جہاں سے چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب تم دونوں نہ جانا ورنہ تم دونوں اپنے آپ پر بڑا ظلم کرو گے۔ چنانچہ شیطان نے ان دونوں کو بہلایا پھسلایا تا کہ ان کی جو شرم گاہیں ڈھکی ہوئی ہیں وہ کھول دے اس نے ان دونوں سے کہا کہ تمہارے رب نے تم دونوں کو اس درخت سے صرف اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تم فرشتہ نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشگی کی زندگی نہ عطا ہو جائے۔ اور اس نے ان دونوں سے قسمیں کھا کھا کر کہا میں تمہیں بہت خلوص کے ساتھ نصیحت کر رہا ہوں۔“
سورہ طہٰ میں بھی اس واقعہ کا تذکرہ ہے اور اس سورہ میں اللہ تعالیٰ نے جو تعبیر اختیار کی ہے اس کے مطابق بہکنے اور گمراہ ہونے کی پہلی ذمے داری آدمؑ پر عاید ہوتی ہے نہ کہ حضرت حوا پر اور یہی وجہ ہے کہ اللہ کی سرزنش اور تنبیہ کا سارا رخ حضرت آدمؑ کی طرف ہے نہ کہ حواکی طرف۔ ملاحظہ ہو:
فَقُلْنَا يٰٓاٰدَمُ اِنَّ ھٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَلِزَوْجِكَ فَلَا يُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰي اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْعَ فِيْهَا وَلَا تَعْرٰى وَاَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِيْهَا وَلَا تَضْحٰي فَوَسْوَسَ اِلَيْهِ الشَّيْطٰنُ قَالَ يٰٓاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰي شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَمُلْكٍ لَّا يَبْلٰى فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفٰنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصٰٓى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى (طہٰ: 117-121)
”پس ہم نے آدم سے کہا کہ اے آدم یہ ابلیس تمہارا اور تمہاری بیوی کا دشمن ہے، دیکھو یہ تمہیں جنت سے نہ نکلوا دے ورنہ تم بڑے بد بخت ہوگے۔ اس جنت میں تمہارے لیے یہ نعمت ہے کہ نہ تمہیں بھوک لگے گی اور نہ ننگے ہو گے۔ نہ پیاس لگے گی اور نہ دھوپ ستائےگی۔ چنانچہ شیطان نے آدم ؑ کو بہلایاپھسلایا۔ اس نے کہا اے آدم کیا میں ہمیشگی والے درخت اور نہ ختم ہونے والی بادشاہت کا تمہیں پتا نہ بتاؤں۔ چنانچہ ان دونوں نے اس درخت کا پھل کھا لیا۔ تو ان کی شرم گاہیں کھل گئیں اور یہ دونوں اپنی شرم گاہوں پر جنت کےپتے ڈالنے لگے۔ آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور گمراہ ہو گیا۔“
مذکورہ آیت میں نافرمانی اور گمراہی کی نسبت واضح طور پر آدمؑ کی طرف کی گئی ہے۔
(3) وہ جنت جس میں آدمؑ تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے اور جس کے درخت کا پھل کھانے کی وجہ سے زمین پر بھیج دیے گئے تھے۔ کوئی ضروری نہیں ہے کہ یہ وہی جنت ہو ، جو آخرت میں نیک اور صالح بندوں کے لیے بنائی گئی ہے۔ بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جس جنت میں حضرت آدمؑ تخلیق کے بعد رکھے گئے تھے وہ اسی زمین کی کوئی جنت ہے اور جنت سے مراد خوبصورت باغ اور سرسبز و شاداب علاقہ ہے، کیوں کہ عربی زبان میں جنت خوبصورت باغ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن میں متعدد مقامات پر لفظ جنت کو ایس زمینی باغ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو سورہ قلم کی آیت:
اِنَّا بَلَوْنٰهُمْ كَمَا بَلَوْنَآ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ ۚ (القلم:17)
”ہم نے ان لوگوں کو اسی طرح آزمائش میں ڈالا ہے جس طرح ایک باغ کے مالکوں کو آزمائش میں ڈالا تھا۔“
وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِاَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ اَعْنَابٍ وَّحَفَفْنٰهُمَا بِنَخْلٍ وَّجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا ۭ (الکہف: 32)
”ان کے سامنے ایک مثال پیش کرو۔ ان دو لوگوں کی جن میں سے ایک کو ہم نے انگور کے دو باغ دیے او رگرد کھجور کے درخت کی باڑ لگائی اور ان کے درمیان کاشت کی زمین رکھی۔ دونوں باغ خوب پھلے اور پھل دینے میں کوئی کمی نہیں کی۔“لہذا یہ ثابت ہوا کہ یہ تصور گمراہ کن ہے کہ حوا جنت سے نکلوائے جانے کی ذمہ دار ہے -
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: اسلام نے عورت کو کئی حیثیتوں سے عزت بخشی ہے۔ ایک انسان کی حیثیت سے ایک صنف نازک کی حیثی سے ایک ماں کی حیثیت سے ایک بیوی کی حیثیت سے ایک بیٹی کی حیثیت سے اور معاشرے کے ایک فرد کامل کی حیثیت سے۔
انسان کی حیثیت سے عورت کی عزت افزائی اس طرح کی گئی ہے کہ ذمہ داریوں اور فرائض کے معاملے میں عورت مرد کے برابر ہے۔ دونوں یکساں درجے کے ذمہ دار ہیں اور یکساں طور پر انعام یا سزا کے حق دار ہیں۔ کسی انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا حکم مرد اور عورت دونوں کے لیے برابر تھا اور اس حکم کی نا فرمانی پر دونوں کو یکساں سزادی گئی۔
ماں کی حیثیت سے اسلام نے عورت کو جو عزت بخشی ہے وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔اسلام نے ماں کے پیروں تلے جنت قراردے کر اسے جو بلند مقام عطا کیا ہے وہ سب پر ظاہر ہے۔ بیوی کی حیثیت سے اس طرح عزت بخشی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي“ (ترمذی)
”تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہے۔ اور میں اپنی بیوی کے لیے تم میں سب سے بہتر ہوں۔“
لیکن افسوس کی بات ہے کہ بعض سخت مزاج اور تشدد پسند مسلمان عورتوں کے معاملے میں بڑا ظلم کرتے ہیں۔ انھوں نے عورتوں کو ان حقوق سے بھی محروم کر دیا ہے جنھیں اسلامی شریعت نے انھیں ایک انسان اور ایک عورت کی حیثیت سے عطا کیا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ ساری حق تلفیاں اور زیادتیاں دین اور مذہب کے نام پر ہوتی ہیں حالانکہ ہمارا دین اس طرح کی حق تلفیوں سے پاک ہے۔ عورتوں کو کم عقل ثابت کرنے کے لیے لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف یہ من گھڑت حدیث منسوب کردی۔ شاوروهن وخالفوهن ”ان عورتوں سے مشورہ کرو لیکن ان کے مشورے پر عمل نہ کرو۔“
یہ واضح طور پر ایک من گھڑت اور بے بنیاد حدیث ہے کیوں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں سے مشورہ فرماتے اور ان مشوروں پر عمل بھی کیا کرتے تھے۔ مثلاً صلح حدیبیہ کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم المومنین حضرت اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مشورہ کیا اور ان کے مشورے کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل بھی کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں خیرو برکت عطا کی۔
قرآن نے جہاں جہاں واجبات و فرائض کے سلسلے میں مسلمانوں کومخاطب کیا ہے وہاں مرد وعورت دونوں یکساں طور پر مخاطب ہیں۔ اسی طرح جزاو سزا کے معاملے میں بھی دونوں برابر ہیں نماز پڑھنے کا حکم دونوں کے لیے یکساں طور پر ہے اور نماز نہ پڑھنے کی صورت میں دونوں کو ایک جیسی سزا اور پڑھنے کی صورت میں ایک جیسا انعام ملے گا۔
اسی طرح کی ایک من گھڑت اور بے بنیاد بات یہ ہے کہ عورت کی آواز پردہ ہے اور یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر اور محرم کے علاوہ کوئی دوسرا اس کی آواز سنے۔ اور یہ بھی جائز نہیں ہے کہ شوہر اور محرم کے علاوہ کسی اور کے ساتھ بات کرے کیوں کہ اس کی آواز پردہ ہے اس طرح کی بے بنیاد بات کرنے والوں سے میں نے اس کی دلیل پوچھی تو وہ کوئی دلیل نہیں پیش کر سکے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے بلکہ قرآن و حدیث میں اس کے برعکس بات کہی گئی ہے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو اس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے پردہ کی اوٹ میں بات کر سکتے ہیں چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں پردے کی اوٹ میں رہ کر غیر محرموں سے بات کرتی تھیں اور انھیں مفید مشورے دیتی تھیں۔مسائل کا حل بتاتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سنائی تھیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں بلا کسی رکاوٹ کے مردوں کی موجودگی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر ان سے مسائل دریافت کرتی تھیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم انھیں بڑے اطمینان سے جواب دیتے تھے اور کبھی بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اس بات پر نہیں ٹوکا کہ تم مردوں کی موجودگی میں آکر کیوں باتیں کرتی ہو؟ خلفائے راشدین کے زمانے میں بھی عورتوں کی آواز کو پردہ نہیں تصور کیا جاتا تھا چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے۔ دوران خطبہ کسی عورت نے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کسی بات پر ٹوکا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےاپنی غلطی کا اعتراف بھی کیا۔ اور کسی کے ذہن میں یہ بات نہیں آئی کہ اس عورت نے بھری مجلس میں بات کیوں کی۔ کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین عورت کی آواز کو پردہ نہیں تصور کرتے تھے۔
سورہ قصص میں اللہ تعالیٰ نے ایک واقعہ کا تذکرہ کیا ہے۔ واقعہ کے درمیان اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کسی بزرگ (غالباً نبی) کی دو بیٹیوں سے بات کی اور پانی بھرنے میں ان کی مدد کی اور ان کے ساتھ چل کر ان کے گھر بھی گئے اگر عورت کی آواز پردہ ہوتی تو موسیٰ علیہ السلام کبھی ان لڑکیوں سے باتیں نہیں کرتے اور نہ ان بزرگ کی بیٹیاں ان سے بات کرنے کو پسند کرتیں ۔
حق بات یہ ہے کہ اسلامی شریعت نے مردوں عورتوں سے یا عورتوں کو مردوں سے بات کرنے کی ممانعت نہیں کی ہے۔ ممانعت اس بات کی ہے کہ عورتیں مردوں سے لبھانے والے انداز میں بات کریں۔ مردوں سے بات چیت کرنا منع نہیں ہے بلکہ پیار بھرے لہجے میں اور لبھانے والے انداز میں بات کرنا منع ہے۔ “
رہی بات اس حدیث کی
”مَا تركْتُ بعْدِي فِتْنَةً هِي أَضَرُّ عَلَى الرِّجالِ مِنَ النِّسَاءِ“
”میں نے اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی دوسرا فتنہ نہیں چھوڑاہے۔“
یہاں لوگوں نے لفظ فتنہ سے یہ مفہوم اخذ کر لیا کہ عورتیں مصیبت اور فتنہ کی جڑہیں۔یا جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فقرو فاقہ اور بیماری کو فتنہ قراردے کر ان سے پناہ مانگی ہے عورتیں بھی کچھ اسی قسم کا فتنہ ہیں۔ حالانکہ حدیث کا یہ مفہوم ہر گز نہیں ہے۔ لفظ فتنہ عربی زبان میں آزمائش اور امتحان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یعنی وہ چیز جس کے ذریعے سے کسی کی آزمائش ہو، یہ آزمائش کبھی بری چیزوں کے ذریعے ہوتی ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے ذریعے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی پریشانیوں میں مبتلا کر کے آزماتا ہے اور کبھی نعمتیں عطا کر کے آزماتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَۃً ۭ (الانبياء:35)
”اور ہم اچھے اور برے دونوں سے تمھاری آزمائشیں کرتے ہیں۔“
اس لیے عربی زبان میں لفظ فتنہ کبھی بری چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بھلی چیزوں کے لیے مثلاً مال اور اولاد اللہ کی بڑی نعمتیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انھیں بھی فتنہ قراردیا ہے۔
اِنَّمَآ اَمْوَالُكُمْ وَاَوْلَادُكُمْ فِتْنَۃٌ ۭ (التغابن:15)
”بلا شبہ تمھاری دولت اور تمھاری اولاد آزمائش کا سامان ہے۔“
یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتیں ہیں لیکن اللہ ان ہی نعمتوں کے ذریعے سے اپنے بندوں کی آزمائش کرتا ہے کہ کہیں یہ بندے ان نعمتوں میں مگن ہو کر اپنے رب کو بھول تو نہیں جاتے ہیں اور اپنے فرائض کی ادائی میں کوتاہی تو نہیں کرتے ہیں۔اس مفہوم میں قرآن کی یہ آیت ہے:
يٰٓاَيُّہَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْہِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَلَآ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللہِ ۚ (المنافقون: 9)
”اے مومنو!دیکھو تمھاری دولت اور تمھاری اولاد اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔“
انسان جس طرح مال و اولاد کے ذریعے آزمایا جاتا ہے دراں حالے کہ یہ دونوں چیزیں اللہ کی نعمتیں ہیں اسی طرح عورتیں اور بیویاں بھی اللہ کی نعمت ہونے کے باوجود آزمائش کا ذریعہ ہیں۔ یہ عورتیں فتنہ و فساد کی جڑنہیں ہیں اور نہ برائیوں کا گہوارہ ہیں۔ بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے مطابق نیک بیویاں اللہ کا بڑا انعام ہیں۔ اور اس انعام میں اللہ نے اپنے بندوں کے لیے آزمائش رکھی ہے کہ کہیں یہ بندے عورتوں کے چکرمیں اپنے رب کو فراموش تو نہیں کر بیٹھتے۔ اسی آزمائش کی طرف درج ذیل آیت میں اشارہ ہے:
اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَاَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْہُمْ ۚ (التغابن: 14)
”تمھاری بیویوں اور آل اولاد میں بھی تمھارے دشمن ہوتے ہیں پس ان سے ہو شیار رہو۔“
ایک صحیح حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مال و دولت اور عیش و عشرت کی فراوانی سے خبردار کیا ہے۔ وہ حدیث یہ ہے۔
”فَوَاللهِ مَا الْفَقْرَ أَخْشَى عَلَيْكُمْ ، وَلَكِنِّي أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَنْ تُبْسَطَ الدُّنْيَا عَلَيْكُمْ كَمَا بُسِطَتْ عَلَى مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ ، فَتَنَافَسُوهَا كَمَا تَنَافَسُوهَا ، وَتُهْلِكَكُمْ كَمَا أَهْلَكَتْهُمْ “(بخاری و مسلم)
”بخدا مجھے تمھارے سلسلے میں فقرو فاقہ کا اندیشہ نہیں ہے۔ مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ دنیا تم پر وسیع کر دی جائے گی جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر وسیع کر دی گئی تھی۔اور تم بھی دنیا کمانے کے لیے اسی طرح ایک دوسرے کا مقابلہ کرو گے جیسا ان لوگوں نے کیا۔ اور یہ دنیا بھی تمھیں ویسے ہی برباد کردے گی جیسے اس نے ان لوگوں کو برباد کیا تھا۔“
اس حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم غربت اور فقیری کو پسندیدہ اور مرغوب شے سمجھتے تھے اور اس کی طرف اپنی امت کو دعوت دے رہے تھے ۔ کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غربت اور فقیری سے اللہ کی پناہ مانگی ہے اور یہ بات بھی نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت میں خوش حالی اور دولت کی فراوانی کو ناپسندیدہ شے سمجھتے تھے کیوں کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ: ”نِعْمَ الْمَالُ الصَّالِحُ لِلْمَرْءِ الصَّالِحِ“ (مسند احمد) عمدہ مال و دولت صالح شخص کے لیے کیا خوب نعمت ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں ایسے بھی تھے جن کے پاس دولت کی فراوانی تھی اور اس فراوانی کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اس حدیث کا مفہوم صرف یہ ہے کہ فقرو فاقہ کے مقابلہ میں دولت کی فراوانی زیادہ بڑی آزمائش کی چیز ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطرے سے آگا کیا ہے کہ کہیں کوئی شخص دنیا کے عیش و عشرت میں الجھ کر آخرت کی طرف سے غافل نہ ہو جائے۔
(علامہ یوسف القرضاوی)
جواب: اللہ تعالیٰ نے غایت درجہ حکمت و مصلحت کے تحت تمام جان دار کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے بلکہ کائنات میں پائی جانے والی تمام چیزوں کو اللہ نے جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے،اللہ فرماتا ہے۔
وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (الذاريات:49)”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنا ئے ہیں شاید کہ تم اس بات سے سبق لو۔“
اسی قانون فطرت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ہم انسانوں کو بھی جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا ہے تاکہ نسل انسانی کا سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھ دی ہے تاکہ یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آنے کے لیے بے تاب رہیں۔ اگر دونوں میں ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش نہ ہو تو شوہر اور بیوی کے درمیان کبھی تعلقات قائم نہیں ہو سکتے اور نہ نسل انسانی ہی آگے بڑھ سکتی ہے۔ یہی قانون فطرت ہے اور قانون فطرت سے بغاوت کسی صورت مناسب نہیں ہے:
اللہ تعالیٰ نے جس دن آدم علیہ السلام کی تخلیق کی اسی دن ان کی پسلی سے عورت (حوا) کو بھی بنایا۔ تاکہ وہ آدم علیہ السلام کے لیے راحت اور سکون کا ذریعہ بن سکیں۔
پھر یہ دونوں مرد اور عورت کی صورت میں ایک ساتھ جنت میں زندگی گزارنے لگے۔ پھر اللہ کی نا فرمانی کی پاداش میں ایک ساتھ جنت سے نکال کر زمین پر بسائے گئے اس زمین پر ان دونوں کے باہمی اختلاط سے نسل انسانی کا سلسلہ شروع ہوا اور قیامت تک مردوں اور عورتوں کے باہمی تعلقات کے نتیجے میں یہ سلسلہ رواں دواں رہے گا۔ عورت اورمرد ایک دوسرے کے لیے اس قدر ناگزیر ہیں اور ان دونوں کا رشتہ اس قدر گہراہے کہ اللہ فرماتا ہے”بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ“ یعنی تم سب (مرد اور عورت) ایک دوسرے کا حصہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی زندگی کے سارے مسائل اور ذمے داریاں ان دونوں میں مشترک ہیں اور دونوں کو مل کر یہ ذمے داریاں نبھانی ہیں یہی قانون فطرت ہے۔ اس لیے یہ تصور کرنا کہ مرد اور عورت اس طرح علیحدہ علیحدہ زندگی گزاریں کہ ایک دوسرے کو نہ دیکھ سکیں نا ممکن سی بات ہے۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہے جب انسان قانون فطرت سے بغاوت کرتے ہوئے غیر فطری زندگی گزارنا شروع کردے تمام انسانوں سے رشتہ کاٹ کر پہاڑوں پر بس جائے اور رہبانیت کی زندگی اختیار کر لے۔ جس سے اللہ تعالیٰ نے سختی سے منع فرمایا ہے۔ رہبانیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ”اللہ نے اس کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ عیسائیوں نے خود ہی اسے ایجاد اور اختیار کیا تھا۔“چنانچہ آج بھی عیسائیوں میں دین دار لوگوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ شادی کریں اور عورتوں سے قربت اختیار کریں۔ لیکن اسلام کا نقطہ نظریہ ہے کہ ان دونوں کا ایک دوسرے سے الگ ہو کر زندگی گزارنا قانون فطرت کے خلاف ہے۔ انسانی زندگی کی عمارت دونوں کے مشترکہ تعاون ہی سے کھڑی ہو سکتی ہے۔ اس موقع پر دو باتوں کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ پہلی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا کار عورت کے لیے کوڑوں کی سزا سے قبل جو سزا بتائی تھی وہ یہ تھی کہ زنا کار عورت کو گھر کے اندر اس طرح قید کر دیا جائے کہ وہ مرتے دم تک گھر سے باہر نہ نکل سکے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ عورت کا گھر کے اندر قید رہنا اور گھر سے باہر نہ نکل سکنا اس کے لیے سزا ہے اور عام حالات میں معمول کی زندگی میں اسے اس طرح گھر کے اندر قید رکھنا اس پر بڑا ظلم ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فطری طور پر مرد اور عورت کے درمیان ایک دوسرے کے لیے بے پناہ کشش اور جاذبیت رکھی ہے۔ یہ بالکل ایک فطری بات ہے اور اللہ کی فطرت میں تبدیلی ممکن نہیں ہے۔ جو شخص اپنے آپ کو پرہیز گار اور پاکباز ثابت کرنے کے چکر میں یہ کہتا ہے کہ عورتوں میں اس کی دلچسپی بالکل نہیں ہے یا عورتیں اس کے لیے بالکل کشش نہیں رکھتی ہیں وہ یقیناً جھوٹا ہے۔ کیوں کہ اس کا یہ دعوی قانون فطرت کے خلاف ہے۔
ان تمام حقائق کی روشنی میں میں آپ کے سوال کے جواب کی طرف آتا ہوں۔
عورت اپنے جسم کے کس کس عضو کو کھلا رکھ سکتی ہے؟ اس سلسلے میں میرا موقف وہی ہے جو علماء کی اکثریت کا ہے۔ عورت اپنا چہرہ ہتھیلی اور پیر غیر محرموں کے سامنے بھی کھلا رکھ سکتی ہے۔لیکن کیا ان کھلے ہوئے اعضا کو دیکھنا جائز ہے؟
تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ پہلی نظر جائز ہے۔ اگر غلطی سے اور بغیر کسی ارادے کے ان پر نظر پڑ جائے تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ اور اس بات پر بھی متفق ہیں کہ شہوت اور لذت کی نظر سے انھیں دیکھنا جائز نہیں ہے۔ کیوں کہ شہوت جذبات کو بھڑکاتی ہے اور گناہ پر اکساتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ :”النظرة بريد الزنا “ (نظرزنا کی پیغام بر ہوتی ہے)۔ اسی طرح علمائے کرام اس بات پر بھی متفق ہیں کہ ہتھیلی پیراور چہرے کے علاوہ عورت کے دوسرے اعضاء مثلاًاس کے بال گردن پیٹھ اور پنڈلی (یہ اعضاء ہیں جنھیں عام طور پر آج کل کی عورتیں کھلا رکھتی ہیں) وغیرہ کی طرف غیر محرم کی لیے دیکھنا جائز نہیں ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے دو اصولی باتوں کا بیان ضروری ہے۔
پہلی بات یہ کہ ہنگامی حالات میں اور شدید ضرورت کے وقت ناجائز بات بھی جائز ہو جاتی ہے۔ مثلاًبھوک سے جان جانے کا خطرہ ہے تو سورکا گوشت کھانا جائز ہو جاتا ہے۔ اسی طرح علاج و معالجہ کی خاطر یا ولادت کے موقع پر عورت اپنا ستر ڈاکٹر کے سامنے کھول سکتی ہے یا فسادات اور جنگ کے موقع پر عورت کے لیے پردہ کرنا ممکن نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ بے پردہ رہے دوسری یہ کہ اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو جائز چیز بھی ناجائز ہو جاتی ہے بشرطے کہ یہ اندیشہ محض خیالی اور وہمی نہ ہو جیسا کہ بعض شکی قسم کے لوگوں کو ہر وقت فتنہ کا اندیشہ لاحق رہتا ہے بلکہ واقعہ ایسی صورت حال جس میں فتنہ کا اندیشہ ہو۔ اس سلسلے میں سب سے صحیح فیصلہ خود انسان کا اپنا ضمیر کر سکتا ہے کہ کون سے حالات اس کے لیے باعث فتنہ ہیں اور کون سے نہیں ہیں ایسے وقت پر ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے ضمیر کی طرف رجوع کرے۔ اور اپنے ضمیر کی آواز پر عمل کرے۔ فتوؤں کے چکر میں بہت زیادہ نہ رہے۔
اس سلسلہ میں علماء کرام اس بات پر متفق ہیں کہ مرد کی ستر کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے چاہے شہوت کی نظر سے دیکھا جائے یا بغیر شہوت کے۔ لیکن مرد کی ستر کیا ہے اس سلسلے میں علماء کے درمیان اختلاف ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک مرد کی ستر ناف سے لے کر گھٹنے تک ہے لیکن اس رائے کے حق میں وہ جو حدیثیں بہ طور دلیل پیش کرتے ہیں ان میں کوئی بھی حدیث صحیح حدیث نہیں ہے۔بعض علماء کے نزدیک مرد کی ران ستر نہیں ہے اور اس رائے کے حق میں وہ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وہ روایت پیش کرتے ہیں جس میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض مواقع پر لوگوں کے سامنے اپنی ران کھولی ہے۔ اگر اس رائے کو اختیار کیا جائے تو کھلاڑیوں کے لیے بڑی سہولت ہو جائے گی جو عام طور پر نیکر پہن کر کھیلتے ہیں کیوں کہ یہی کھیل کا یونیفارم ہوتا ہے۔ البتہ ہم مسلمانوں کو مسلسل اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ کھیلوں کے لیے اپنے خاص یونیفارم قانونی طور پر تسلیم کرواسکیں
یہاں ایک بات قابل ذکر ہے اور یہ کہ مرد کی ستر کو دیکھنا جس طرح عورتوں کے لیے جائز نہیں ہے اسی طرح مرد کے لیے بھی جائز نہیں ہے کہ دوسرے مرد کی ستر پر نظر کرے۔ اور جس طرح ایک مرد دوسرے مرد کا سارا جسم ستر کے علاوہ دیکھ سکتا ہے اسی طرح ایک عورت بھی ستر کے علاوہ مرد کا سارا جسم دیکھ سکتی ہے بشرطے کہ یہ دیکھنا شہوت کی نظر سے نہ ہواور اس دیکھنے میں واقعی کوئی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ یہی بیشتر فقہاء کا موقف ہے۔ اور میرا بھی یہی موقف ہےکیوں کہ بخاری شریف اور مسلم شریف کی ایک صحیح حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت قیس کو عبد اللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں عدت گزارنے کا حکم دیا تھا اور فرمایا کہ وہ اندھے ہیں تم کپڑے بھی اتاردوگی تو وہ تمھیں دیکھ نہیں سکیں گے۔بخاری اور مسلم شریف کی ایک اورحدیث ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اپنے کندھے پر بٹھا کر چند حبشیوں کا کھیل تماشا دکھایا جو مسجد نبوی کے اندر اپنے کرتب کا مظاہرہ کررہے تھے۔اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے مردوں کو بغیر کسی شہوت کے دیکھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں ایسا کرنے کو کہا اگر عورتوں کے لیے مردوں کو دیکھنا جائز نہ ہوتا تو عورتوں کی طرح مردوں کے لیے بھی پردہ کرنا واجب ہو جاتاہے۔
آپ نے اپنے سوال میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا والی جس حدیث کا حوالہ دیا ہے علمی نقطہ نظر سے اس کی کوئی قیمت نہیں ہے اور یہ ایک من گھڑت حدیث ہے جسے کسی طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔اور وہ حدیث جس میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اُم میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو عبد اللہ بن مکتوم سے پردہ کرنے کا حکم دیا تھا اور انھیں اس بات سے منع کیا تھا کہ وہ عبد اللہ بن مکتوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھیں یہ حدیث ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث ہے اور اس کی سند میں ایک ایسے راوی ہیں( یعنی نیہان ) جوعلم حدیث کے میدان میں غیر معروف شخصیت ہیں۔ اس لیے بخاری اور مسلم شریف کی وہ صحیح حدیثیں جن کا میں نے تذکرہ کیا ہے ان کے مقابلہ میں ابو داؤد کی اس حدیث کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا ۔
(علامہ یوسف القرضاوی)