وحدت کالونی کے کوارٹر نمبر D-6 میں خاموش مگر بولتی ہوئی دیوار کے ساتھ بستر پر سرخی مائل سفید رنگت کے چہرہ، اس پر دو چمکدار آنکھیں‘ کالی سیاہ پر وقار داڑھی لیے ، سر پر اکثر سادہ سفید پگڑی باندھے کمزور مگر نفیس جسامت کا ایک پر شکَوہ انسان ایک گتے پر رکھے پیلے رنگ کے کاغذوں پر پیانو کمپنی کے پیلی رنگت کے بال پین سے زندگی کے معانی لکھتا رہا کاٹتا رہا پھر لکھتا رہا اور کاٹتا رہا اور پھر لکھتے لکھتے اس کے پین کی سیاہی اس کے پر جوش،مگر خوددار خون کی طرح آخر کار ختم ہو گئی- اس کے وہ بچے کھچے کاغذات بھی اسی طرح یتیمی سے جا ملے جیسے ہمارا خاندان یتیمی کا بار گراںاپنے نازک کندھوں پہ اٹھائے کھڑا تھا-وہ دیوار جو اس شخص کو روز اپنے سامنے لفظوں کی صناعی کرتے دیکھتی، وہ کھڑکی جسے اس شخص کی سانس کسی لمس کی طرح چھوتی، وہ آتی جاتی کتابیں جن کی مہک برس ہا برس اس شخص کے انفاس میں جذب ہوتی رہی، اور اس سرکاری کوارٹر کا جالی دار دروازہ جہاں پر اس شخص کے قدموں کی آہٹ ہر آتے جاتے مہمان، رشتہ دار، دوست، اولاد کو رخصت کرنے پہنچ جایا کرتی تھی‘سب کے سب اس شخص سے اتنے مانوس ہو چکے تھے کہ اس سراپا کے بغیر وہ یوں لگ رہے تھےجیسے انکی بھی نادیدہ سانسیں چھین لی گئی‘ جیسے ان سب کو بھی قبر کی مٹی تلے اس شخص کے ساتھ دفنا دیا گیا ہو-
ساری عمر معلوم میں نامعلوم کی حسرت رکھنے والے ہمارے چچا اجو جسے دنیا ڈاکٹر اجمل نیازی کے نام سے جانتی تھی اپنے بڑھاپے کے آخری دنوں میں کسی بچے کی طرح معصوم اور کسی فرشتے کی طرح اجلے ہو گئے تھے- ساری عمر خودداری، خاندانی روایات ، اپنے کلچر، ثقافت اور اپنی مٹی سے عشق اس کو کسی کے سامنے جھکنے نہیں دیتا تھا-موسی خیل میانوالی کی پتھریلی زمینوں سے نکل کر لاہور کی شاہراہوں پر چلتے ہوئے اس کی موروثی وجاہت، اس کی خودداری، اس کی کچی مٹی سے محبت کو نہ کوئی سرکاری ادارہ چھین پایا اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی کشش اس کی سرمستی کو کچل سکی- وہ اپنی مخصوص کلف دار شلوار قمیض اور پگڑی کے ساتھ درویشی اور وضع داری کو بیک وقت سنبھالے رکھتا- اس کی گفتگو اس کی کتاب کی طرح "پچھلے پہرکی وہ سرگوشی" تھی جسے خوابوں کی سرزمین کے باشندے بیداری اور نیند دونوں حالتوں میں بسر کر سکتے تھے-
وہ چاہتا تو اپنے معاصرین کی طرح اپنی صحافیانہ زندگی کو شاہانہ زندگی میں بدل سکتا تھا مگر اس نے اپنی ساری پیشہ ورانہ زندگی گورنمنٹ کے ایک کوارٹر میں رہ کر گزار دی-اپنی جوانی سے بڑھاپے کی سرحد تک پہنچتے پہنچتے اس نے کسی لاٹھی کا سہارا نہیں لیا تھا مگر آخری تین سالوں میں اپنے بھائیوں کی جدائی نے اسکی آنکھوں کو تو کیا اسکی رگ رگ کو گریہ کناں کر دیا تھا- ہم نے اسے بہت ہی کم کبھی روتے دیکھا تھا مگر آخری تین سالوں میں اپنے بھائیوں خصوصاً بڑے بھائی کی جدائی جیسے اسے اندر سے آنسوؤں کی بارش میں مسلسل بھیگتے رہنے پر مجبور کرتی رہتی اور وہ بات بے بات رو پڑتا- ایک معتدل لبرل نکتہ نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ تصوف کی خوشبو اس کے بدن سے اس وقت بھی آ رہی تھی جب اسے غسل آخرت دیا جا رہا تھا- ریشم کے تھان جیسا بدن پتہ نہیں کیسے برسوں کی تھکان سمیٹے خاندان بھر کے لیے آسودگی راحت اور آسانی کے اسباب دنیا سے چھین کر لے آتا اور ہمیں احساس تک نہ ہوتا تھا- وہ اپنی بہنوں کے لیے وہ پیڑ تھا جس کی چھاؤں تو کبھی کم نہ ہوتی مگر ساتھ ہی اس پیڑ کی جڑیں ان سب کے دلوں تک جاتی تھیں- حیرانی اس کی تہجد تھی اور دریا دلی اس کا روزہ اس کی مسکان کسی نو مولود کی مسکراہٹ جیسی پاکیزہ اور معصوم لگتی تھی اور آخری عمر میں اس کے آنسو جیسے ہمارے دل پہ کسی تلوار کی دھار کی طرح گرتے تھے- اسے اپنے رسول سے عشق تھا اور اسکا یہ عشق کسی عبادت گزار صوفی سے بھی خالص کہوں تو غلط نہ ہو گا- ایک دن میں نے پاس بیٹھ کے سرگوشی کی چچا ہمارے دل سے ہمارے رسول کی محبت کبھی نکل نہیں سکتی اور اس کے آنسو جیسے موسلادھار بارش کی طرح بہتے جاتے تھے اور اس کی ہچکیوں میں رندھی باریک دھیمی آواز جیسے پکار رہی تھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) میں قربان میرے رسول-
وہ عمروں کے رت جگوں اور بھائیوں کے ہجر میں گھلے گریے کو سنبھالتی آنکھیں بجھ گئیں -ہمارے خاندان کی مٹھی بھر دعا آثار روشنی بھی.- میں اپنی سیاہ کار آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اکبر، اصغر، اجمل تینوں اپنے ماں باپ کے ساتھ کسی جنتی سُر میں ایک اساطیری سرشاری میں ڈوبے اپنی اپنی مسکراہٹوں کا ابدی گیت گنگنا رہے ہیں-