ہالینڈ میں پڑھائی کے آخری دن چل رہے تھے تو ہمارے انسٹیٹیوٹ میں سالانہ جاب فئیر کا انعقاد ہوا جس میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ساتھ ہالینڈ کے حکومتی ادارے بھی شامل ہوئے۔ ہم اگرچہ پاکستان واپسی کے ارادے پر قائم تھے لیکن اپنی صلاحیتوں کو پرکھنے کے لئے تجرباتی طور پر جاب فئیر میں رجسٹر ہو گئے ۔ حیران کن طور پر ایک ملایشین کمپنی اور ہالینڈ کی حکومت کے محکمہ پانی (rijskwaterstaat) کی طرف سے انٹرویوز کے لئے کالز آگئیں۔ پاکستان واپسی سے پہلے ہمارے اگلے کچھ دن بڑے دلچسپ گزرنے والے تھے۔
ملائیشین کمپنی کے ڈائریکٹر نے اگلے دن ہمارے انسٹیٹیوٹ کی اسٹوڈنٹ کافی شاپ میں بیٹھ کر ہم سے گھنٹہ ڈیڑھ گپ شپ کی اور ہمیں کوالالمپور کے ڈرینیج ماسٹر پلان پر کام کرنے کی آفر کردی۔ ہم نے ان سے جواب دینے کے لئے کچھ وقت مانگ لیا کیونکہ ہم تو شوقیہ انٹرویو کے چکر میں پھنس گئے تھے۔پاکستان میں ہماری فیملی اور ہماری فرم ہماری واپسی کی منتظر تھیں۔
اسی طرح کچھ دن بعد ہالینڈ کے محکمہ پانی کی ڈائریکٹر کے ساتھ انٹرویو ہوا جوکہ کافی دلچسپ تھا ۔ یہ ایک چار پانچ گھنٹےلمبی بات چیت تھی جس میں مجھے وائٹ بورڈ پر ان کو بہت سی چیزیں سمجھانا پڑیں اور بالآخر ہمیں محکمے کی طرف سے جاب آفر ہو گئی جس کے لئے ہمیں ڈچ لینگویج سیکھنے کا کہا گیا۔ تاہم ہم نے یہ بھاری پتھر چوم کر ادھر ہی رکھ دیا اور پاکستان واپسی کی راہ لی۔آتے آتے ہم ملائشئن فرم سے بھی معذرت کرآئے۔
پاکستان میں ہم نے اپنے ادارے کو جوائن کر لیا جہاں ہمیں پرانے پے اسکیل اور پوزیشن پر دوبارہ ملازمت پر رکھ لیا گیا اور مستقبل میں کسی اچھی پوزیشن پر ترقی دینے کا وعدہ ہوا۔ ہم سر نیچا کرکے دن رات کمپیوٹر کے سامنے ڈٹ گئے۔ چھ سات ماہ بعد جب اس پراجیکٹ کا ڈیزائن مکمل ہوا تو ہمارے ادارے نے کام (بزنس) کی کمی کو بنیاد بناتے ہوئے ہمیں تین ماہ کے لیے بغیر تنخواہ کے رخصت پر روانہ کردیا۔
یہ بڑے سخت دن تھے نائن الیون کو ابھی پہلا سال ہوا تھا اور پاکستان کی معاشی صورت حال تشویش ناک تھی ۔ ہمیں روزی روٹی کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ انہی پریشانیوں میں ایک دن ہمیں ملائشین فرم کی آفر پھر یاد آئی تو ہم نے چانس لیتے ہوئے انہیں ایک ای میل ڈال دی۔
اگرچہ ملائشینز سے معذرت کئے ہوئے چھ سات ماہ گزر چکے تھے لیکن اگلے ہی دن ان کا جواب موصول ہوگیا اور فوری طور پر دوبارہ جاب بھی آفر ہوگئی جس کے ساتھ ہی ویزا پروسیس کے لئے اپنی دستاویزات بجھوانے کا کہا گیا۔ ایک دو ماہ کے اندر اندر ہمارا فیملی ویزا آچکا تھا اور ہم کوالالمپور اڑان بھرنے کے لئے تیار ہوگئے۔اس بات کا جب ہماری سابقہ فرم کو پتہ چلا تو انہوں نے ہمیں کئی سبز باغ دکھا کر اپنے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن ہم ایک فیصلہ لے چکے تھے اور کئی وعدے کر چکے تھے لہذا ان کے کہنے پر نہ رکے۔تاہم یہ وعدہ ضرور کیا کہ جب بھی پاکستان واپسی کا ارادہ بنا سب سے پہلے آپ کے ادارے سے ہی رجوع کریں گے۔
مئی 2003 کی ایک رات ہم جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی سے ملائشئین ایئر لائن کے طیارے سے کوالالمپور اڑان بھرنے کے لئے تیار تھے جب کہ ائیرپورٹ کا عملہ ہمیں پاکستان میں ہی روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا تھا سب سے پہلے توپروٹیکٹوریٹ والوں نے بطور انجینر ہمیں ویزا پروٹیکٹ کروانے کا کہا اور واپس بھیج دیا۔ ان کو کافی بحث کے بعد مطمئن کیا کہ ابھی ہم وزٹ ویزا پر جا رہے ہیں اور ملازمت شروع ہوگی تو ویزا پروٹیکشن لاگو ہوگا۔ ان کے بعد ایف آئی اے اورامیگریشن والوں نے تو حد ہی کردی اور ہمارے ڈاکومنٹس فیک قرار دیتے ہوئے بڑے صاحب کا انتظار کروانا شروع کردیا۔ ادھر فلائٹ کا وقت ہوا چاہتا تھا اور ادھر ہم صاحب کے انتظار میں تھے۔ اسی اثنا میں صاحب کے نمائندے کئی دفعہ ہم سے ڈالروں میں چائے پانی کا مطالبہ کر چکے تھے لیکن ہم پرسکون انداز میں اپنی بات پر اڑے رہے۔ جب جہاز کے دروازے بند ہونے والے تھے کہ ملائشین ایئرلائن کے ڈیوٹی مینیجر بھاگتے ہوئے ہمیں ڈھونڈتے ہوئے آئے کیونکہ ہمارا سامان جہاز میں لوڈ ہوچکا تھا اور ہمارے سوار نہ ہونے کا مطلب سامان کو آف لوڈ کروانا ہوتا جس پر فلائیٹ لیٹ ہو سکتی تھی۔ انہوں نے ہمارے ویزے کی شخصی ضمانت دیتے ہوئے ہمیں امیگریشن والوں کے چنگل سے آزاد کروایا اور ہم مختلف راہداریوں سے مینیجر کے ساتھ دوڑتے ہوئے جہاز پر سوار ہوگئے۔تاہم امیگریشن آفیسر نے ہمیں کلئیر کرتے کرتے آخری دھمکی دی تھی کہ وہ ملائشئین امیگریشن کو الرٹ کر رہے ہیں جو ہمارے کوالا لمپورایئرپورٹ پر اترتے ہی ہمیں فورا ڈی پورٹ کردیں گے۔ ہم نے انہیں کہا کہ اسے دیکھ لیں گے۔
جہاز کا چار گھنٹے سفر کافی پریشانی میں گزرا اور ہالینڈ سے پاکستان واپسی،ملازمت سے بنا تنخواہ رخصت کی تلخی اور خصوصاً ائیرپورٹ پر تحقیر آموز سلوک پر کافی طیش آتا رہا ۔ اوپر سے کوالا لمپور ائیرپورٹ سے ڈی پورٹ ہونے کی دھمکی بھی بار بار یاد آرہی تھی۔ اسی پریشانی میں چار گھنٹے کے سفر کا ایک ایک پل تکلیف سے گزارنے کے بعد بالآخر کوالالمپور ایئرپورٹ پر جہاز لینڈ کر گیا۔ مختلف راہداریوں اور ائیرپورٹ ٹرین کے ذریعے امیگریشن کے مرحلے پر پہنچ کر قطار میں لگ گئے لیکن تھوڑی ہی دیر کے بعد گھبراہٹ میں قطار سے نکل آئے اور سب سے پیچھے جاکر دوبارہ قطار میں لگ گئے۔جب کئ دفعہ ہم نے قطار چھوڑی تو ایک ملائشئین خاتون آفیسر نے ہماری پریشانی بھانپ لی اور ہمارے پاس مشکوک انداز میں آکر تفتیش شروع کردی۔ ہمیں کراچی والے امیگریشن افسر کی دھمکی سچ محسوس ہونا شروع ہو گئی۔ تاہم ہم نے ان خاتون کو جیسے ہی ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ ہم پیشے کے لحاظ سے انجنئیر ہیں ، ہالینڈ سے سپیشلا ئزیشن کی ہے اور ملائشین کمپنی میں جاب کی غرض سے آئے ہیں تو فوراً ان کا رویہ تبدیل ہوگیا۔انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے ہمارا پاسپورٹ اور ملازمت کی دستاویزات چیک کیں اور ہم سے کافی معذرت کی اور کہا کہ آپ پروفیشنل ویزے پر آرہے ہیں تو قطار میں کیوں کھڑے ہیں۔ آپ کا وقت بہت قیمتی ہے۔ وہ ہمیں اپنے دفتر میں آفیسر کے پاس لے گئیں جنہوں نے ہمیں انناس کا جوس پیش کیا۔ ایک دفعہ پھر خاتون کی طرف سے معذرت کی اور جوس کے ختم ہونے سے پہلے ہی کمپیوٹر میں ہمارا ڈیٹا چیک کرکے
ہمارے پاسپورٹ پر انٹری کی مہر لگا چکے تھے۔ ساتھ ہی انہوں نے اس خاتون افسر سے کہا کہ چونکہ یہ پہلی دفعہ آرہے ہیں اور ہمارے ملک کو’’سرو‘‘ کرنے کے لئے آئے ہیں تو ان کے ساتھ جاکر ایگزٹ گیٹ پر ان کی کمپنی کے نمائندوں کے حوالے کرکے آؤ۔ ساتھ ہی مجھے بتایا کہ آپ کو ہماری طرف سے ایک ’’گولڈ کارڈ‘‘ ملے گا اور آئندہ جب بھی آپ آئیں قطار میں لگنے کی ضرورت نہیں۔ گولڈ کارڈ دکھا کر باہر چلے چائیں تاکہ ایک پروفیشنل کا وقت ضائع نہ ہو۔
ہمیں ملائشیا میں داخل ہوتے ہی اپنے وی آئی پی بننے پر فخر بھی محسوس ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اپنے اداروں کے ہر کسی کے ساتھ بلا تفریق بھیڑ بکریوں جیسے سلوک پر افسوس بھی ہورہا تھا۔ ہمارا ملائشین گولڈ کارڈ کب کا ایکسپائر ہوچکا ہے لیکن اس ایکسپائر کارڈ پر بعد میں اسلام آباد میں ملائشین ایمبیسی میں کسی بھی کام کی غرض سے ہمارا آنا جانا سہولت سے ہوتا رہا اوران کے آفیسر نے ہمیں ترجیحی بنیادوں پر نمٹایا۔
حاصل تحریر یہ ہے کہ قوموں کے انسانوں کے متعلق رویوں سے ہی اصل فرق پڑتا ہے ۔ اور وہ ترقی یا تنزلی کی طرف جاتی ہیں۔اور یہ روئیے تمام معاشروں میں قدم قدم پر اپنا احساس دلا رہے ہوتے ہیں۔