پرانے بادہ خوار نہ لوٹنے والے سفر پر روانہ ہوتے جارہے ہیں مگر ان کے متبادل یا مترادف کا دور دور تک کوئی نشان نظر نہیں آتا۔ یہ قومی بلکہ ایک انسانی المیہ ہے جس کا پاکستان تیزی سے شکار ہو رہا ہے ۔ ستم یہ کہ ایسی محرومی کا احساس زیاں بھی مفقود ہے ورنہ امید کی کرن کہیںتو ضرور نظر آتی۔
اس زیاں کا تازہ زخم پروفیسر ملک محمد حسین کی رحلت ہے۔
ملک صاحب سے میرا تعارف اتنا پرانا نہیں ہے لیکن جب تعارف ہوا اور انہیں پڑھا اور سنا تو جانا کہ یہ رشتہ تو بہت پرانا ہے ۔ ان کے ساتھ پہلی ملاقات ماہنامہ " سوئے حرم" کے بانی مدیر استاد محمد صدیق بخاری صاحب کے گھر بلکہ ان کی مسجد میں ہوئی۔ بخاری صاحب نے اپنے گھر کو ایک کونے میں سمیٹا ، دوسرے حصے میں پبلک لائیبر یری بنائی اور اس کے اوپر محلے والوں کے لئے مسجد بنا دی۔ انہوں نے یہ سارے کام للہ فی اللہ صرف اپنے محدود وسائل سے سر انجام دیئے۔’’تاریخ سرگودھا‘‘کے حوالے سے پروفیسر صاحب میری ایک کتاب سے متعارف تھے۔ بھیرہ اور بُگہ کے حوالے سے بگویہ خاندان سے بھی واقف تھے۔ میں ان کی تحریریں ماہنامہ " البرہان" اور ' افکار معلم" میں پڑھ چکا تھا۔ اس کے بعد چند بار بانی مدیر" البرہان" ڈاکٹر محمد امین صاحب کے فکری فورم پر رابطے کا موقع ملا۔بعد ازاں جوہر آباد سے فون پر کبھی کبھی ان کے ساتھ لمبی ملاقات ہوتی رہتی تھی خصوصاً جب کسی قومی یا سیاسی مسئلے پر تبادلہ خیال مقصود ہوتا۔
پروفیسر ملک مرحوم حد درجہ مخلص فاضل، قوم کے درد آشنا، علم دوست اور راست فکر دانشور تھے۔ اصلاح معاشرہ اور تعلیم ان کے بنیادی موضوع تھے۔ تعلیم میں نصاب ، اساتذہ کی تربیت اور طلبہ کی نشوونما پر خصوصاً لکھتے رہے۔اصلاح معاشرہ کے لئے مساجد اور مدارس کے کردار پربہت زور دیتے رہے۔درس نظامی کے نصاب میں عصری تقاضوں کے مطابق تبدیلی بھی ان کے زیر غور رہتی تھی۔
گزشتہ سال وہ متعدد بار منصورہ ٹیچنگ ہسپتال لاہور میں تشریف لائے، اپنے علاج معالجے کے لئے نہیں کیونکہ بنظر ظاہر وہ صحت مند اور مستعد تھے انہوں نے کبھی کسی جسمانی تکلیف یا عارضے کی شکایت نہیں کی البتہ کبھی اپنے ماموں استاد ملک امیر حسین صاحب کے آپریشن کے سلسلے میں اور کبھی دوسرے عزیزوں کے علاج کے لئے ہسپتال میں آتے رہے۔ جہاں وہ ہسپتال کی صفائی ، نظم و نسق اور سہولیات پر اطمینان کا اظہار کرتے تھے وہاں ان کے زبان سے کبھی نکتہ چینی نہیں سنی، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان سے کسی معاصر کا شکوہ گلہ بھی نہیں سنا ۔ جیسے وہ سب کے لئے خیر طلب اور دعا گو ہوتے تھے مگر جہاں اصولوں کی پاسداری یا پامالی کا معاملہ ہوتا وہ بے لاگ اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔
موجودہ حکومت کے سنگل نیشنل کریکولم (SNC) کے حوالے سے مرحوم نے ایک قومی موقف اتنی وضاحت، دلسوزی اور دلیل کے ساتھ پیش کیا کہ اس موضوع پر ان کی آواز سب سے توانا محسوس ہوئی۔ اوروں نے بھی لکھا مگر جتنی دلسوزی،تعمق اوردلائل سے ملک صاحب نے لکھا وہ سب سے منفرد تھا چنانچہ ان کے خیالات ملک کے سنجیدہ رسائل میں شائع ہوئے۔ ملک صاحب کی طبیعت کی سادگی، ملنے میں اپنائیت اور گفتگو کی شائستگی بہت متاثر کن تھی۔وہ حد درجہ خلیق اور متواضع تھے۔مل کر کبھی احساس نہ ہوتا کہ وہ ایک بہت بڑے ماہر تعلیم اور اسلامی دانشور ہیں۔
ملک صاحب مرحوم کو مدیر" البرہان" کی طرح مساجد، مدارس اور مولوی صاحبا ن کے عملی کردارکے بارے میں شدید تحفظات تھے۔ ان پبلک فورموں کے ناکافی اور اکثر نا مناسب استعمال پر وہ شاکی تھے۔ وہ اپنا موقف بڑے مضبوط اعداد و شمار سے بیان کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ ان کی بات تھی بھی بالکل درست کیونکہ ملک کی لاکھوں مساجد ، ہزاروں مدارس و مکاتب اور لاکھوںمولوی صاحبان کے ہوتے ہوئے ملک میں فرقہ واریت، بد اخلاقی، بد عنوانی ،معاشرتی بگاڑ اور نقلی مذہبیت(Religiosity) کیوں زود افروں ہے؟
فرد کی اصلاح کیوں نہیں ہو پاتی؟ مذہبی حلقوں میں منافقت کیوں بڑھ رہی ہے؟
اسلامی اقدار کے حوالے سے معاشرے میں کوئی تبدیلی یا بہتری کیوں نظر نہیں آتی؟
ہمارے ارد گرد اور ہمارے زیر اثر مگرمغربی تہذیب و تمدن کی یلغار کیوںبڑھتی جا رہی ہے؟
ہر ہفتے ملک بھر میں لاکھوں کی تعداد میں جمعہ کے خطبے تقریریں، صوفیا کے حلقے اور وعظ، مجالس ذکر و فکر،محافل نعت و قوالی اور نجانے دین اور تصوف کے نام پر کیا کیا مصروفیات رائج ہیں مگر مجال ہے کہ مولوی کا مزاج بدلا ہویا صوفی نے اپنے باطن سے باہر جھانکا ہو یا قوم میں اخلاقی طور پر کچھ اصلاح ہوئی ہو۔ملک صاحب محکمہ تعلیم میں سروس سے ریٹائرمنٹ کے بعد چاہتے تو آسانی سے لاہور میں Settleہو سکتے تھے مگر انہوں نے اپنے آبائی شہر جوہر آباد کو ترجیح دی۔ ان کے پیش نظر علاقے کی خدمت اور تعلیم کا فروغ تھا چنانچہ وہاں اپنی سوچ کے مطابق انہوں نے لڑکے لڑکیوں کے لئے معیاری درسگاہیں بنائیں اور بساط بھر قلم اور عمل سے اصلاح تعلیم کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔تعلیم کو آمدن اور کاروبار کا ذریعہ نہیںبنایا، خدمت اور قومی فلاح کا ذریعہ بنایا۔
جب سے پروفیسر ملک حسین صاحب ماہنامہ" البرہان" لاہور کے نائب مدیر مقرر ہوئے تھے وہ باقاعدگی سے نظام تعلیم ، نصاب تعلیم، اصلاح تعلیم اور اصلاح معاشرہ ، طلبہ اور اساتذہ کی تربیت پر لکھتے رہے۔ اساتذہ کی تربیت، بچوں کی ا خلاقی تربیت، معاشرتی اور سماجی اصلاح کے لئے ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کا کردار اوران میں اصلاح کی ضرورت، جس میں فرد اور معاشرے کو فوکس کیا جائے ، جیسے موضوعات پر اظہارخیال کرتے رہے۔ چنانچہ مولانا عبدالغفار حسن مرحوم سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان کے ایک مضمون" جماعت اسلامی۔ کل" کے مضمون کے تقابل کے طور پر ملک صاحب کا مضمون اکتوبر 2021 ع کے شمارے میں شائع ہوا۔جس کا عنوان تھا " جماعت اسلامی آج " اس مضمون کے مندرجات جانے پہچانے تھے، پیدا ہونے والے اشکالات اور سوالات کے ساتھ ممکنہ جوابات اور حل بھی پرانے تھے مگر بعض حلقوں کو وہ خیالات پسند نہ آئے ۔ اثنائے گفتگو جب انہوں نے اس منفی Development کا ذکر کیا تو وہ اپنی تحریر کے مندرجات اور اپنے مخلصانہ خیالات پر مکمل طور پرمطمئن تھے مگر اس بات پر ضرور متفکرتھے کہ اب داخلی احتساب و انتقاد اور تبدیلی وترقی کا سلسلہ جیسے سرے سے منقطع ہو چکا ہے۔ گویا اب اداروں میں اصلاح اور ترقی کی راہیں مسدود ہو کر رہ گئی ہیں۔ایسے طرز عمل کے انجام سے کون نا واقف رہ سکتا ہے؟
آج جب ہر دوسرا ڈگری یافتہ خود کو ماہر تعلیم سمجھتا اور کہلاتا ہے، ملک محمد حسین صاحب کی رحلت سے ملک اور قوم فی الواقع ایک درد مند استاد، ایک مخلص مفکر ا ورایک حساس ماہر تعلیم اور ایک سچے پاکستانی سے محروم ہوگئے ہیں۔
ملک صاحب جریدہ " البرہان" کے نائب مدیر کے ساتھ تحریک اصلاح تعلیم کے جنرل سیکرٹری اور معروف تنظیم اساتذہ پاکستان کے مقتدر رہنما بھی تھے۔
ملک صاحب اکتوبر کے آخری ہفتے میں اپنے ماموں استاد اور مربی کے علاج کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے۔ اچانک ایک صبح اٹھے تو بستر سے اٹھ نہ سکے۔ ان پر فالج کا حملہ ہو گیا تھا۔ علاج کے لئے فوری طور پر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں داخل ہوئے لیکن ڈینگی بخار کا شکار ہو گئے اور بالاخر ڈینگی بخار کی پیچیدیگیوں کے باعث 29 اکتوبر2021 ع کو سفر آخرت پر روانہ ہوگئے۔اللہم اغفر لہ!