سوچئیے تو سہی---عمر چھے سال ہے
بچپنا غم کی حدت سے ---انجان ہے
ماں کے ساے تلے---ریگزار ِعرب کا جھلستا سفر
جس کے ذروں میں شعلے---بھڑکتے ہوے
ماں کے پرنورچہرے کو تکتے ہوے---بات کرتے ہوے
کب یہ معلوم تھا---ماں نے واپس کبھی اب نہیں لوٹنا
سوچئیے تو سہی---قبر ِمادر سے واپس پلٹتے ہوے
کیسے ماں کے بِنا پاوں اٹھتے رہے
کیسے آنکھیں پلٹ کر---رخ ِخاک پر
اپنے اشکوں کے موتی سموتی رہیں
کیسے ابوا سے مکہ تلک فاصلہ---غم سے نمناک آنکھوں میں کٹتا رہا
ماں کے بِن پہلی شب کی وہ تنہائیاں---کیسے تاروں کو تکتے گزرتی رہیں
اور ابوا میں پھر تربت ِپاک کو---دیکھنے کی تڑپ
دست ِ صبرورضا میں سسکتی رہی
تین دن تک بدن میں غموں سے بخار
صبر ِ پدر ِعلی آزماتارہا---باپ ، بھائی ، بہن نہ کوئی آسرا
پھر بھی شان ِ خداوند ِقدوس ہے
ہر جہاں میں رواں
ایک ہی سلسلہ
ذکر ِصل ِعلی ، ذکر ِ صل علی
ذکر ِصل ِعلی ، ذکر ِ صل علی