مہدی کا وجود یا ظہور اسلامی ایمانیات یا عقائد کا مسئلہ نہیں ہے. عقائد وہی ہیں جو قرآن نے قطعی الثبوت قطعی الدلالت نصوص کے ذریعے بیان کر دئیے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واضح تعبیرات میں ان کو تواتر کے ذریعے اپنے سماج تک پہنچا دیا. کسی بھی نئی شے کو اسلامی عقائد و ایمانیات میں ہی نہیں بلکہ عبادات اور ضروریات دین میں بھی شامل نہیں کیا جا سکتا-بات دراصل یہ ہے کہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنے ذاتی، ملکی، قومی اور بین الاقوامی مستقبل کو جاننے کی خواہش رکھتا ہے جب لوگوں کے درمیان ایک ایسی شخصیت موجود ہو جو مستقبل میں جھانک سکتی ہو یا مستند ترین ماخذ سے پوچھ کر مستقبل پر روشنی ڈال سکتی ہو تو قدرتی بات ہے کہ لوگ اپنے مستقبل کے حوالے سے اس شخصیت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور لوگوں نے کیا اسی حوالے سے آپ نے بتایا کہ میرے بعد تیس سال تک خلافت راشدہ کا دور رہے گا. اس کے بعد ملک عضوض (کٹ کھنی بادشاہت) آجائے گی. اس پر لوگوں کا پریشان ہو جانا ایک فطری امر تھا، انہوں نے پریشان ہو کر پوچھا، کیا اس کے بعد کبھی ریاست کے امور راہ راست پر نہیں آئیں گے. آپ نے تسلی دی کہ اس کے بعد بھی وقفے وقفے سے راست رو (مھدی) حکمران آتے رہیں گے. چنانچہ بنوامیہ کی مستبد حکومت کے بیچوں بیچ عمر بن عبدالعزیز مہدی یعنی راست رو حکمران تھے. مسلمانوں کی پچھلی چودہ سو سالہ تاریخ میں متعدد ایسے حکمران ہوئے جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ مھدی ہیں یعنی وہ خلفائے راشدین کی طرح کے حکمران ہیں. اسی سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسلامی ریاست کے قیام کی کوششوں کو تسلسل اور دوام بخشنے کے لیے بتایا کہ راست رو حکمرانوں کا سلسلہ قرب قیامت تک رہے گا. اگر آپ یہ بتاتے کہ مثلاً ہزار سال کے بعد کوئی راست رو اور عادل حکمران نہیں آئے گا تو اسلام کے لئے کی جانے والی ساری کوششیں دم توڑ جاتیں اور مسلمان مایوس ہو جاتے. آپ نے ان کوششوں کو دوام بخشنے اور جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے بتایا کہ قرب قیامت تک مھدیین حکمرانوں کا سلسلہ جاری رہے گا.اتنی سی بات تھی جسے یاران تیز گام نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا.
یاد رکھئیے، مھدی ہونا نبوت کی طرح کا کوئی الوہی منصب نہیں. نہ اس کے ذریعے اللہ نے انسانیت کو کوئی نیا پیغام دینا ہے اور نہ یہ ضروری ہے کہ مھدی ہونے کا کوئی دعوی کرے اور نہ یہ ضروری ہے کہ خود اسے یا لوگوں کو پتہ ہو کہ یہ حکمران مھدی ہے. نہ اس پر ایمان لانے کا کوئی شرعی مطالبہ ہے. اصل حقیقت اسی قدر ہے باقی زیب داستان ہے-