ہم مسلمانوں کا سب سے بڑا مخمصہ یہ ہے کہ ہم پر من حیث القوم یہی واضح نہیں ہے کہ ترقی کس چیز کو کہتے ہیں۔ کچھ مسلمان عرب کے غریب بدو کلچر کو ترقی کی معراج سمجھتے ہیں حالانکہ اس کلچر کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ نبی کریم علیہ السلام کے دور میں سارے مشرکینِ مکہ و مدینہ اسی معاشرتی بود و باش والے تھے جیسے کہ مسلمان۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اگر یہی طرزِ بود و باش سنت ہوتا تو مکہ و مدینہ والے اسے نہ چھوڑتے۔ مکہ و مدینہ میں وہ مقامات جہاں نبی کریم اور صحابہ کرام کے مبارک قدم پڑے تھے اور ان کی رہائش گاہیں اور کھیت بازار وغیرہ تھے، آج وہاں رہنے والی صحابہ کی اولاد وہ سب کا سب قدیم طرزِ معاشرت بالکل ترک کر چکی ہے۔
ایک بڑے ڈاکٹر دوست کے ساتھ پچھلے دنوں سفر کا اتفاق ہوا۔ سڑک کے ساتھ ایک بکریوں والا اپنے ریوڑ کے ساتھ گزر رہا تھا ریوڑ دیکھتے ہی ڈاکٹر صاحب رقت آمیز گفتگو فرمانے لگے کہ بکریاں چَرانا نبیوں کی سنت ہے۔ کاش نبی کریم والا دور لوٹ آئے۔ میں نے گاڑی رکوائی اور ہم اتر آئے ۔ عرض کیا کہ میں اس سنت پر عمل کرتا ہوں، آپ بھی ساتھ دیجیے۔ یہ کہہ کر میں انھیں ہونق چھوڑ کر گلہ بان کے پاس گیا اور اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ وہ بھی حیران تھا کہ یہ سوٹڈ بوٹڈ مخلوق کیا کر رہی ہے۔ کوئی پندرہ منٹ تک میں اس کے ساتھ ساتھ چلا اور بکریوں کو ہنکانے کی کوشش کرتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب مجھے دیکھا کیے۔ جب میں خاصا دور نکل گیا تو وہ گاڑی میں جا بیٹھے اور گاڑی چلاتے ہوئے ریوڑ کے متوازی آ گئے اور آہستہ آہستہ ڈرائیو کرنے لگے۔ ان کے ہاتھ جوڑنے اور کانوں کو ہاتھ لگانے والی منتیں دیکھ کر بالآخر مجھے ترس آیا اور گلہ بان سے اجازت لے کر میں گاڑی میں جا بیٹھا۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، ڈاکٹر صاحب نے پھر بکریاں چَرانے والی سنت کا نام نہیں لیا۔ امید ہے ساری زندگی کے لیے یہ سبق کافی رہے گا۔ اگر انھیں افاقہ نہ ہوا تو میں کسی دن گدھے کی سواری والی سنت پر بھی عمل کراؤں گا۔
بکریاں چَرانا اس دور کے غربا کا پیشہ تھا جیسا کہ آج بھی ہے۔ ہر گلہ بان نبی نہیں ہوا۔ نبیوں کی تربیت کے لیے خدائے پاک نے بکریوں کے ریوڑ ضرور چَروائے، لیکن نبوت ملنے کے بعد بھی کسی نبی نے بکریاں چَرائی ہوں، اس کا ثبوت مجھے نہیں مل سکا۔ اسی طرح گدھے یا خچر کی سواری بھی اس دور کا زمانی جبر تھا نہ کہ خدا کا حتمی حکم۔ جو نبی جس دور میں آیا اس نے اسی دور کے تقاضوں کے مطابق ظاہری زندگی کے عوامل اور طرزِ بود و باش اختیار کیا۔ یہ بات کہنے میں کسی تردد کی ضرورت نہیں ہے کہ نبی کریم علیہ السلام اگر آج مبعوث ہوتے تو بالیقین آج کی بہترین سواری اور نفع بخش قابلِ عزت پیشہ اختیار فرماتے۔
یہ بڑا المیہ ہے کہ ہم مقاصدِ شریعت کو بالکل نہیں جانتے۔ اور جس شخص کا دماغ خدا نے مقاصد شریعت کی طرف چلا دیا ہے، اسے ہم بد دین یا متجدد کے نام سے پکارتے ہیں ، الا ماشاء اللہ۔ احکامِ دین میں تجدد کیا ہے اور مقاصدِ شریعت کیا ہوتے ہیں، یہ مناظرانہ رنگ کی کتابیں پڑھنے سے نہیں بلکہ فقہ عمر اور فقہ علی کے گہرے سنجیدہ مطالعے سے معلوم ہوگا۔ کیسا اچھا ہو کہ کچھ لوگ اس مطالعے کی طرف رخ کریں اور کیا ہی اچھا ہو کہ ہم سمجھیں کہ معاشرت کوئی جامد چیز نہیں ہے اور شریعت سماجی ارتقا میں کبھی حائل نہیں ہوتی۔لیکن یہ ہوگا تب جب ہم بحیثیتِ قوم ترقی کے معنی و مفہوم پر اتفاق پیدا کرلیں گے۔ ایک مخصوص فرسودگی آسا طرزِ فکر نے ترقی کو آج مذہب کا متضاد (Antonym) بنا رکھا ہے۔ اور یہی وہ مخمصہ ہے جو مسلمانوں کی رجعتِ قہقری اور ترقیِ معکوس کا سبب ہے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ہمیں یہی نہیں معلوم کہ ہمیں اکیسویں صدی سے بائیسویں صدی کا سفر کرنا ہے یا پندرھویں صدی سے سولھویں صدی کا۔ رہے نام اللہ کا۔