خدا حافظ کو اللہ حافظ کہنا آسان نہیں پاکستان میں علاقائی تہذیب و تمدن کے خلاف جنگ بہت عرصے سے جاری ہے جس کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ۔ پہلے شہروں اور سڑکوں کے نام بدلے گئے اور اب زبان کے کچھ الفاظ بھی اس جنگ کی زد میں آگئے ہیں۔ خصوصاً لفظ خدا کو ہماری زبان سے دیس نکالا دینے کی ایک منظم کوشش کی جارہی ہے لہٰذا خدا حافظ کو اللہ حافظ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ آپ کو اب خدا حافظ کہنے والا مشکل سے ہی ملے گا۔ اگر آپ کسی کو خدا حافظ کہہ دیتے ہیں تو وہ جواباً زور شور سے اللہ حافظ کہیں گے ، جس میں یہ نکتہ پوشیدہ ہوتا ہے کہ ہمیں خدا کی نہیں اللہ کی حفاظت چاہیے۔ میں نے کئی لوگوں سے اس تبدیلی کی وجہ پوچھی مگر ابھی تک مجھےکوئی تسلی بخش جواب موصول نہیں ہوا۔ کسی ایک نے گوگل سرچ کی ہوئی تھی، کہنے لگے کہ لفظ خدا کی جڑیں زرتشتوں کی خدا، اھورا مزدا سے ملتی ہیں لہٰذا اس کے استعمال سے شرک ہوجاتا ہے زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر کے لیے لفظ اللہ تعالیٰ ہی مناسب ہے خدا حافظ سے میری بہت سی خوبصورت یادیں وابستہ ہیں میں جب کبھی گھر سے باہر جاتی تھی تو میری امی مجھے خدا حافظ کہتیں اور میرے نانا مجھے پشتو میں خدا ئی پامان کہہ کر رخصت کرتے۔ اُن کے اِن الفاظ میں جو دعا پوشیدہ تھی اُس سے یہ محسوس ہوتا کہ میں خدائے برترو بزرگ کے حفظ وامان میں ہوں۔ پھر مجھے وہ وقت یاد ہے کہ جب ہم سکول میں پاکستان کا قومی ترانہ اپنے وطن کی محبت سے سرشار ہو کر گاتے:پرچم ستارہ و ہلال رہبر ترقی و کمال ترجمانِ ماضی شان حال سایہء خدائے ذوالجلال -اقبال کی یہ نظم بھی سکول میں لہک لہک کر پڑھتے :لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری -زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری- پھر اقبال کا یہ مشہور شعر نیا نیا یاد کیا :خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلےخدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے-حالی کے اس شعر کا حوالہ دینا بھی بہت پسند تھا:خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خود اپنی حالت کے بدلنے کا-
لفظ خدا کو اپنی زبان سے الوداع کرنے کی لہر بنگلہ دیش تک بھی پہنچ گئی ہے۔ اس موضوع پر ایک بنگلہ دیشی ادیب محفوظ الرحمن نے تفصیلی مضمون ملی گزٹ میں لکھا ہےKhoda Hafez Versus Allah Hafez۔ A CRITIQUEاس مضمون میں انہوں نے تاریخی اور مذہبی حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ فارسی زبان کے لفظ خدا کا مطلب الصمد ہے اور وہ جس کو کسی کی ضرورت نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں اللہ نے اپنے لیے کئی نام استعمال کیے ہیں۔ سورۃ رحمان میں تو صرف لفظ رحمان ہی استعمال کیا گیا ہے۔ چونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا ہے لہٰذا‘ اللہ کا لفظ استعمال ہوا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ باقی زبانوں کے متبادل لفظ استعمال کرنے سے ہم کسی شرک یا کفر کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اللہ کا لفظ اسلام سے پہلے بھی استعمال ہوتا تھا۔ عبداللہ نام اس کی واضح مثال ہے۔ عرب کے کرسچین بھی خدا کے لیے لفظ اللہ ہی استعمال کرتے ہیں۔
میں نے اس موضوع پر ایک کالم کئی سال پہلے لکھا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ پاکستان میں بہت سے لو گ لفظ خدا کے اپنی زبان سے نکالے جانے کے بہت خلاف ہیں۔ اگرچہ وہ اقلیت میں ہیں مگر بہت پرشور اقلیت ہیں۔ کچھ اسے عربی اور عجمی کی جنگ کا ایک حصہ سمجھتے ہیں اور ان کے خیال میں، ہمیں بلاوجہ اس جنگ میں دھکیلا جا رہا ہے۔ ایک قاری کے خیال میں خدا حافظ اور اللہ حافظ کے دونوں الفاظ ہمارے کلچر کو بدلنے کی گہری سازش کا حصہ ہیں۔ ان کے مطابق پہلے خدا حافظ نے مقامی الفاظ، رب راکھا، ستے خیراں، شالا خیر کو برتر کلچر کے نام پر تبدیل کیا ہے اور اب مذہب کے نام پر خدا حافظ کو ختم کیا جا رہا ہے۔ ایک قاری کے خیال میں انگلش جلد ہی مقامی زبانوں کے سب الفاظ ختم کر دے گی۔ اس لیے یہ ساری بحث بیکارہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں تک پیدل جاتے تھے تو وہاں کے اجنبی لوگ ہمیں خیری آئے او کہہ کر بلاتے۔ اس کا مطلب سوال پوچھنا بھی تھا کہ کیا خیریت سے آئے ہو اور دعا دینا بھی تھا کہ خدا خیریت سے رکھے۔ پھر خیر ہووے سے رخصت کرتے۔ خدا حافظ کو وہاں صرف ’’بابو ٹائپ‘‘ شہر کے لوگوں کالفظ سمجھا جاتا تھا اور شاذ و نادر ہی استعمال ہوتا تھا۔
میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ بے شک اللہ حافظ کہتے رہیں مگر خدا حافظ کہنے والے کو اسلام کے دائرے سے خارج نہ کریں۔ خدا حافظ کہنے والے رب راکھا اور خیری آیاں کہنے والوں کو غیر مہذب مت جانیں اور رب راکھا کہنے والے خدا حافظ اور اللہ حافظ کہنے والوں کو دشمن نہ گردانیں۔ اگر کوئی ہیلو! ھائے اور بائے کہنے پر مُصر ہے تو اُسے بلاوجہ کے نام مت دیں کہ ہر کسی کو اپنی مرضی کے آداب پسند کرنے کا پورا حق حاصل ہے۔ وہ لوگ جو لفظ خدا کو ہی ملک بدر کرنا چاہتے ہیں اُن کے لئے عرض ہے کہ ان کی اس جنگ میں جیت ناممکن ہے۔ خدا حافظ کو اگر آپ ختم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں تو پاکستان کے قومی ترانے کا کیا کریں گے۔ پھر اُن ساری کتابوں کا کیا ہوگا جن میں لفظ خدا جگہ جگہ موجود ہے۔ لہٰذا اپنی توانائیاں کسی ایسے کارآمد کام پر لگائیں جس میں معاشرے کی بھلائی ہو۔رہی یہ بات کہ لفظ خدا کی جڑیں فارسی کے کسی ایسے لفظ سے نہ ملتی ہوں جس کے استعمال سے شرک کا خطرہ ہے تو لفظوں کے ماخذ، نقطہ ء آغاز (Etymology)کچھ بھی ہو ں مگر ان کا موجودہ استعمال ہی ان کے اصل معنی ہیں۔ ماہر لسانیات لفظ اللہ کے اسلام سے پہلے کے استعمال کے کئی ماخذ بیان کرتے ہیں مگر اس سے یہ حقیقت نہیں تبدیل ہوتی کہ اللہ تبارک تعالیٰ کا مطلب وہ ہستی ہے جو وحدہ ُلا شریک ہے۔ اس طرح خدا بھی وہی ہستی ہے جو قادر ِ مطلق ہے جسے ہم عربی میں اللہ کہتے ہیں اوریہ ان معنوں میں صدیوں سے استعمال ہو رہا ہے۔ خدا حافظ، خدائی پامان۔ آداب عرض، رب راکھا کے سارے الفاظ پاکستان کے کلچر اور زبان کا خوبصورت حصہ ہیں۔ ان کے ساتھ ہمارے ماضی کی یادیں وابستہ ہیں۔ حفیظ جالندھری کے لکھے قومی ترانے کے مطابق پاکستان ’’ترجمانِ ماضی شان حال‘‘ہے۔ ماضی کو اس طرح رد کرنے اور مٹانے سے کہیں ہم اپنے حال کا حلیہ نہ بگاڑ دیں۔نہ خدا ہی ملا نہ وصال ِ صنم نہ ُادھر کے رہے نہ اِدھر کے رہے-