میں اب تک مجموعی طور پر ناصبیت کے تین بڑے فرقے دیکھ چکا ہوں :
1. معاصر دیوبندی ناصبیت جو صحابہ کے نام پر اٹھتی ہے-
2. مدخلی وہابی ناصبیت جو امیر کی اطاعت کے نام پر اٹھتی ہے-
3. استشراق زدہ ناصبیت جو اسلامی تاریخ کو سیکولر معاملے کے طور پر دیکھنے اور عقلیت پسندی کے نام پر اٹھتی ہے۔
مجھے پہلی بار کھلم کھلا بغضِ علی کسی مولوی سے نہیں بلکہ ایک ملحد سے سننے کو ملا تھا۔ اس ملحد نے مارشل ہڈگسن نامی ایک مستشرق کی مشہور کتاب “دی وینچرز اوف اسلام” پڑھ لی تھی۔ اس کتاب میں سیّدنا علی بن ابی طالب پر تنقید کی گئی ہے اور انہیں ایک ناکام حکمران اور نعوذ باللّٰہ حد سے زیادہ خود پسندی کا شکار شخص بتایا گیا ہے جن کی انا اور سختی کی وجہ سے مدینہ (خلافتِ راشدہ) کی ریاست کمزور ہوئی اور اس کی جگہ ملوکیت کو لینی پڑی۔ اس کے بعد زندگی میں کئی ملحدوں سے تبادلۂ خیال ہوا۔ ان میں سے کچھ تو بس ایسے ہی فیشن میں یا مذہبی طبقات کی منافقتوں اور شدّت پسندی کے ردّ عمل میں ملحد بنے اور انہوں نے زیادہ پڑھا نہیں ہے لہذا انہیں تو مولا علی سے کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایسے ملحدوں میں اکثریت شیعہ ہے جو ملحد ہوجانے کے بعد بھی علی علی کرتے ہیں۔ لیکن جو پڑھے لکھے ملحد ملے، ان میں سے اکثر مغربی مصنّفین کی تحریروں سے متاثر ہوکر ملحد ہوئے تھے اور سیّدنا علی کے شدّت سے مخالف تھے۔ یوں میں استشراق زدہ ناصبیت سے متعارف ہوا جو جدید دور میں شاید مولویانہ ناصبیت سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔
ملحدوں کی مثال سے یہ ہرگز نہ سمجھا جائے کہ یہ استشراق زدہ ناصبیت صرف ملحدوں یا اسلام بیزار طبقات تک ہی محدود ہے۔ مسلمانوں میں بھی وہ طبقہ جو مستشرقین سے متاثر ہوا ہے اور اسلام کو مستشرقین کی نگاہ سے دیکھتا ہے یا مستشرقین سے متاثر لوگوں کے لیے اسلام کو قابلِ قبول بنانا چاہتا ہے، وہ بھی اسی نکتہ نظر کو نرم کر کے پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ استشراق زدہ یہ طبقات ، خواہ ملحد ہوں یا مسلمان، اس موضوع پر کم ہی گفتگو کرتے ہیں (بالخصوص عوامی فورمز پر) لہذا عوام کو ناصبیت کی اس قسم کا کم علم ہے، مزید مصیبت یہ ہے کہ استشراق زدہ مسلمان ناصبی اس نکتہ نظر پرعلمی و فکری گفتگو کا میک اپ ایسا کرتے ہیں کہ بات تنقیصِ علی و حسنین تک تو پہنچ جاتی ہے لیکن پڑھنے یا سننے والے کو احساس بھی نہیں ہوتا۔
ہمارے ہاں اس وقت اس کی ایک بڑی مثال غامدی مکتب فکر اور’’مدرسہ ڈسکورس‘‘ والوں کا سیّدنا علی کے دورِ خلافت کی جنگوں اور واقعۂ کربلا کے بارے میںنکتہ نظر ہے۔ اس کا مظاہرہ گزشتہ دنوں عمار خان ناصر کی ایک تحریر میں دیکھنے کو ملا جس میں واقعۂ کربلا کے حوالے سے’’ تین نکتہ نظر‘‘ پیش کیے گئے تھے۔ مجموعی طور پر یہ تحریر اس حوالے سے معاصر دیوبندیت اور غامدیت کے رویوں کا امتزاج تھی۔
تحریر میں کہا گیا کہ واقعۂ کربلا کے حوالے سے تین نکتہ ہائے نظر ہیں۔ ایک تو یہ نکتہ نظر ہے کہ یہ حق و باطل کی لڑائی تھی، امام حسین نے حق کے لیے قربانی دی، اس واقعے سے اسلام کی تکمیل و تحفّظ ممکن ہوا اور یہ واقعہ دین کا لازمی جزو ہے۔ اس نکتۂ نظر کو عمار خان ناصر صاحب نے کمال تجاہل سے کام لیتے ہوئے نہ صرف ’’شیعہ نکتہ نظر‘‘کہہ دیا بلکہ سنّیوں میں ان کو صرف مولانا مودودی اس نکتۂ نظر کے حامل نظر آئے۔ گویا اہلسنت کی مرکزی دھارے کی صوفی روایت جو دسویں سے اٹھارہویں صدی عیسوی تک واحد سنّی روایت تھی، اور اب بھی مسلم عوام میں سب سے زیادہ مقبول روایت ہونے کے ساتھ ساتھ تسنّن کی اورتھوڈوکسی تصور کی جاتی ہے، اس کا بھی اسی نکتۂ نظر کا حامی ہونا عمار خان ناصر کے نزدیک اس قابل بھی نہیں کہ اس کا ذکر ہی کیا جائے۔ یہ شاندار تجاہل عارفانہ بنیادی طور پر غامدی صاحب کی اسی عجیب و غریب سوچ کا مظہر ہے کہ ’’تصوف متوازی دین‘‘ ہے۔ اس بنیاد پر دیکھا جائے تو تقریباً آٹھ نو سو سال تک اسلام دنیا سے غائب ہوگیا تھا، اس کی جگہ ایک ’’متوازی دین‘‘ نے لے لی تھی اور وہابیت اور سلفیت جیسی تحریکیں اٹھنے پر ہی اسلام دنیا میں واپس آیا۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کی بڑی اکثریت اب بھی ایک متوازی دین کی پیرو اور ڈی فیکٹو کافر / غیر مسلم ہے۔ سبحان اللٰہ۔ شوگر کوٹڈ طریقے سے (علمی و فکری میک اپ کر کے) جتنی بڑی تکفیر یہ ہے، اتنی بڑی تکفیر شاید خوارج بھی نہیں کر پائے ہوں گے، لیکن خیر۔ ہم آگے بڑھتے ہیں۔
دوسرا نکتۂ نظر عمار خان ناصر نے یہ بتایا ہے کہ امام حسین نے بیعت نہ کرکے اور بیعت کرنے والے صحابہ کی بات نہ مان کر بہت بڑی غلطی اور جرم کیا تھا۔ اس نکتہ نظر کا ’’اسلامی نکتہ ہائے نظر‘‘ کی فہرست میں شامل کرنا ہی شدید نوعیت کی کافرانہ ناصبیت کو میز پر لا کر ایک باقاعدہ مسلمان فریق بنانے کی ایک بظاہر چالاک مگر در حقیقت ایک بھونڈی کوشش ہے۔ مسلمانوں میں بنوُامیہ کے بعد کبھی بھی ایسا نکتہ نظر کسی گروہ کا نہیں رہا کہ حسین مجرم تھے، کم از کم کھلم کھلا تو بالکل نہیں۔ اس حوالے سے مسلمان عوام اور (متوازی دین کی پیرو) سنّی اورتھوڈوکسی کا موقف اتنا واضح اور مضبوط تھا کہ کسی کو ایسا کہنے کی کبھی ہمت ہی نہیں ہوسکی۔ اس کے بعد عمار خان ناصر صاحب اپنا نکتۂ نظر پیش کرتے ہیں (جو دراصل غامدی مکتب فکر کا استشراق زدہ نکتۂ نظر ہے)۔ اس کا لب لباب (میک اپ ہٹا کر) یہ ہے کہ یہ دینی معاملہ ہی نہیں تھا، یہ فقط تاریخ کا معاملہ ہے، امام حسین اور یزید تاریخی کردار ہیں، ان کے اختلافات محض سیاسی اختلافات تھے، اسے حق و باطل اور درست اور غلط کی لڑائی نہیں سمجھنا چاہیے۔ یزید تو ظالم تھا ہی لیکن حسین کا نکتہ نظر اور طرزِ عمل بھی ان کا اپنا نکتہ نظر اور طرزِ عمل ہے، کوئی دینی معیار یا دینی معاملہ نہیں۔ اس بات کو غالباً قارئین کے لیے قابل قبول بنانے کے واسطے معاصر دیوبندیت کا روایتی صحابہ کارڈ استعمال کیا گیا ہے کہ اگر حسینؓ کے طرز عمل کو ہی معیارِ دین مان لیا جائےتو دیگر صحابہ جنہوں نے یزید کی بیعت کی تھی، ان کی تنقیص ہو جائے گی جو زیادتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بے وقوف ان مسائل کو حل کرنے میں وقت برباد کر دیتے ہیں جو سینکڑوں سال قبل حل کئے جا چکے ہیں۔ اس مسئلے کے حوالے سے عام روایتی مسلمان کو بچپن سے کلئیر کردیا جاتا ہے کہ جبر کے ماحول میں اور جان جانے کے خوف میں شریعت جابر کی بیعت کرنے کی اجازت دیتی ہے، اسے رخصت کہتے ہیں اور ایسا کرنے والے پر کچھ گناہ نہیں لیکن امام حسین رخصت سے بڑھ کر عزیمت کے درجے پر، اسلام اور ایمان سے بڑھ کر احسان کے درجے پر تھے۔ اس سے دیگر صحابہ کی تنقیص ہرگز نہیں ہوتی بلکہ سانحہ کربلا کے وقت موجود دیگر اصحاب پر امام حسین کی افضیلت ثابت ہوتی ہے۔ لہذا یہاں صحابہ کارڈ کا استعمال تو بالکل بے کار ہے۔
مزید یہ کہ حکومتِ یزید کے دین کے لیے خطرہ ہونے پر اس وقت کے تمام بڑے اور نمائندہ اصحاب متفق تھے جن میں حسینؓ ابن علی کے ساتھ ساتھ عبداللّٰہ بن عمر، عبداللہ بن زبیر، عبداللہ بن عباس اور عبدالرّحمٰن بن ابوبکر رضوان اللّٰہِ علیہم اجمعین شامل تھے۔ اختلاف صرف سٹریٹجی پر تھا۔ روایتی اسلامی نکتہ فہم کے اعتبار سے امام حسین اس وقت کا نہیں بلکہ مستقبل کی ان گنت صدیوں کا اور وقتی سیاست کا نہیں بلکہ معیارِ دین واضح کرنے کا سوچ رہے تھے جبکہ دیگر اصحاب یا تو مسلمانوں کے درمیان فتنے اور خون خرابے سے بچنا چاہتے تھے یا عبداللہ بن زبیر ؓ کی طرح واقعی اسلامی حکومت بحال کرنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ اب وہ کون سے اصحاب ہیں کہ حسین کی تائید اور ان کے عمل کو دینی تقاضا سمجھنے سے جن کی تنقیص ہوتی ہے، یہ عمار خان ناصر ہی بتا سکتے ہیں۔
تھوڑا زیادہ میک آپ ہٹایا جائے تو اس ’’تیسرے نکتہ نظر‘‘ کا (جو تیسرا نہیں بلکہ دوسرا نکتہ نظر ہی ہے)، سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ دو شہزادوں کی جنگ تھی، زیادہ ظالم اور تگڑا شہزادہ جیت گیا، اللہ اللہ خیر سلّا، اس میں اسلام کدھر لاتے ہو ؟ لیکن ظاہر ہے عمار خان ناصر یا غامدی صاحب کھل کر یہ بات نہیں کرسکتے لہذا انہیں بل دے کر بات کرنی پڑتی ہے اور ’’علمی‘‘ ڈھونگ رچانا پڑتا ہے۔ لیکن چھوڑیں عمار خان ناصر اور غامدی صاحب کو۔ یہ کون ہیں اور ان کی کیا حیثیت ہے۔ ان کی بات کرتے ہیں جن کے یہ مقلد ہیں اور کلونیل ہینگ اوور جن کی باتوں کو مسلمانوں کے صدیوں کے فہم اور اجماع پر فوقیت دینے پر مجبور کرتا ہے، یعنی مستشرقین۔
مستشرقین سے مراد یہاں صرف مغربی مستشرقین نہیں بلکہ مشرق کے وہ سیکولر لوگ بھی ہیں جو تاریخ اسلام کا سنجیدہ مطالعہ کرتے ہیں۔ مستشرقین میں دو قسم کے لوگ ہیں۔ ۱۔ جو متعصب ہیں۔ ۲۔ جو متعصب نہیں ہیں۔
دونوں ہی قسموں کا علی و حسنین کے حوالے سے روایتی اسلامی نکتۂ نظر کو مسترد کرنا پوری طرح قابلِ فہم ہے۔ جو متعصب نہیں ہیں وہ بھی کم از کم سیکولر نظر سے اسلامی تاریخ کو ضرور دیکھتے ہیں کیونکہ سیکولر یا غیر مسلم شخص فطرتاً اسی نظر سے تاریخ کو دیکھے گا۔ اور اسلامی یا کسی دوسری آئیڈیلز کے بغیر تاریخ کو دیکھنے کا یہی منطقی نتیجہ نکلنا لازم ہے کہ علیؓ ایک ناکام حکمران تھے اور حسینؓ ایک ناکام باغی۔ جبکہ متعصب مستشرقین کے پاس تو اس کے ساتھ ساتھ علی بن ابی طالب کو ناپسند کرنے کی ایک اور ٹھوس وجہ بھی ہے اور وہ ہے پیغمبرِ اسلام سے ان کی قربت و قرابت، اسلام کے لیے ان کی بے مثال قربانیاں اور ان کی سخت گیر اسلامی اصول پسندی۔
ہم مسلمان اپنی تاریخ کو سیکولر چشمے سے نہیں دیکھتے۔ ہمارے پاس ہمارا اپنا اسلامی چشمہ ہے۔ اس میں علیؓ اور حسینؓ کو یا دیگر شخصیات کو سیاست دان کے طور پر نہیں بلکہ مسلمان کے طور پر جج کیا جاتا ہے، کامیابی اور ناکامی کا معیار حکومت نہیں بلکہ صرف شریعت کی پاسداری ہے۔ علی یا حسینؓ ہمارے لیے علمِ انبیاء کے وارث ہیں، اگسٹس سیزر، ونسٹن چرچل یا پنڈت جواہر لال نہرو نہیں ہیں۔ یہ بات سمجھ آجائے تو شعور مسلمان ہوتا ہے اور مسلمان شعور ہی کے لیے علی اور حسینؓ دین کے ہیرو ہیں، معیارِ دین ہیں بلکہ خود دین ہیں۔ وگرنہ سیکولر شعور کے حوالے سے وہ ناکام باغی یا ناکام حاکم ہی ہیں۔ (سیکولر ہوکر علی یا حسینؓ کو ہیرو ماننے والا یا تو مایوس کن حد تک آئیڈیلسٹ او رومینٹک ہے یا کئی سطح پر جہالت، خود فریبی اور cognitive dissonance کا شکار ہے)۔
اسلام کو اسلام بیزاروں کے لیے قابل قبول بنانے کا صوفیاء کا طریقہ تو حُسنِ کردار اور
حُسن کردار تھا۔ لیکن متجدّدین نے اس مقصد کے لیے مسلمانوں کے دینی فہم کی چولیں ہلا کر دینی ری اینجینئرنگ شروع کی۔ اب کچھ متجدّدین کا تو تُکا کئی جگہ پر ٹھیک لگ گیا اور وہ سیکولر شعور کا شکار نہیں ہوئے، لیکن غامدی صاحب اور ان سے متاثر ہوکر عمار خان ناصر جیسے کئی روایتی دینی گھرانوں کے چشم و چراغ بھی مسلمانوں کو غیر محسوس طریقے سے اور انجانے میں یہی سیکولر شعور بیچ رہے ہیں۔ اور اس سیکولر شعور کے اعتبار سے صرف حسینؓ نہیں بلکہ عیسٰی علیہ السلام سمیت اکثر و بیشتر انبیاء بھی ناکام باغی تھے۔ علی ہی نہیں بلکہ موسیٰ علیہ السلام بھی نعوذ باللہ ایک ناکام لیڈر تھے جو اپنی قوم کو مصر سے نکال کر چالیس سال صحراؤں میں بھٹکاتے رہے اور ارضِ موعود / ارضِ مقدس نہ ڈھونڈ سکے۔ یہ طوفانِ بدتمیزی دیکھ کر کرب کی کیفیت ہوجاتی ہے اور رہ رہ کر اقبال بُوترابی کے وہ شعر یاد آتے ہیں
کل ایک شوریدہ خواب گاہِ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
کہ مصر و ہندوستاں کے مسلم بنائے ملت مٹا رہے ہیں
یہ زائران حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے ناآشنا رہے ہیں
غضب ہیں یہ مرشدانِ خود بیں خدا تری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزت بنا رہے ہیں
سنے گا اقبال کون ان کو یہ انجمن ہی بدل گئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پرانی باتیں سنا رہے ہیں