1999 کی بات ہے جب فرانس نے ایک خفیہ منصوبے کے تحت ایسا تیز رفتار جہاز بنایا جو کسی ریڈار پر نظر نہ آسکے۔ اپنے پہلے فضائی تجربے میں جہاز بحیرہ روم سے ہوتا ہوا لبنان کی فضاؤں سے گزرا، لبنان عبور کر کے شام میں داخل ہوا اور وہاں سے سعودیہ کو سلامتی کے ساتھ عبور کرتے ہوئے مصر کی فضاؤں میں داخل ہوا-مصر سے بخیریت گزر کر یمن سے ہوتا ہوا بحر ہند میں اپنے زیر ملکیت جزیرے لا ريونيون - La Réunion کی طرف اترنے کیلئے بڑھ گیا۔
جہاز کی اس تجرباتی پرواز میں راستے میں آنے والے کسی ملک نے بھی اس جہاز کا سراغ نہ لگایا اور نہ ہی ان کے ریڈار نے انہیں کسی ایسے جہاز کے گزرنے کی اطلاع دی تھی۔ ہاں ایک بات ضرور تھی کہ ان ملکوں کے متعلقہ اداروں بشمول باشندوں نے کسی جہاز کے گزرنے کی آواز ضرور سنی تھی۔ مگر آواز سے جہاز کی قومیت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا تھا۔ ان سب ملکوں میں ایک بات مشترکہ یہ رہی کہ سب نے جنگ ہنسائی سے بچنے کیلیئے معاملے پر خاموشی اختیار کی تاکہ ان کی فوجوں کا مورال نہ گرنے پائے اور ان کی عسکری ہیبت کم نہ ہو۔۔
جہاز اور جہاز سے جڑے مشن کی کامیابی پر فرانس کے پرشکوہ محل Élysée Palace میں جشن جاری تھا کہ یمن میں تعیینات فرانسیسی سفیر صاحب تشریف لائے اور صدر صاحب کے کان میں بتایا کہ انہیں یمن کی حکومت کی طرف سے اعتراض موصول ہوا ہے کہ فرانس کے ایک جہاز نے ان کے ملکی حدود کی خلاف ورزی ہے۔
موقع پر موجود سارے انجینرز اور سائنسدانوں کو تو گویا سانپ سونگھ گیا کہ آخر کیسے یمن جیسے ملک نے ان کے ایک قومی خفیہ راز کو جان لیا ہے اور ان کا جدید ترین منفرد ٹیکنالوجی رکھنے والا جہاز یمن کی صلاحیتوں کے سامنے ناکارہ ہو کر رہ گیا ہے۔ یمن کا شمار فرانس کے ساتھ باہمی تعلقات اور مشترکہ تجربات کرنے والے ملکوں میں بھی نہیں ہوتا تھا اور اب ناکامی کے ساتھ ساتھ جنگ ہنسائی بھی ان کا مقدر بننے والی تھی۔
فرانسیسی انٹیلجنس اس شک میں پڑ گئی کہ یمن نے اپنے ملک میں ضرور ایسے ریڈار لگا رکھے ہیں جن کی موجودگی سے وہ بے خبر تھے۔ صدر مملکت نے فوراً حکم دیا کہ اپنے سارے خلائی سیٹیلائٹ کا رخ یمن کی طرف کر کے یمن کا ایک ایک چپہ چھان مارا جائے اور انہیں معاملے کے نتیجے کی اطلاع دی جائے۔ دوسرے دن انٹیلیجنس نے اپنی رپورٹ پیش کی کہ وہ یمن میں موجود کسی ایسے ریڈار کا سراغ لگانے میں ناکام رہے ہیں۔
اگلے دن فرانس نے اپنی ساری عظمت اور کبریائی کو پشت پر ڈالتے ہوئے ہرجانہ کے طور پر دس کروڑ ڈالر کا چیک، چیک کے پیچھے ایک نوٹ لکھ کر یمن کو پیش کیا کہ برائے مہربانی آپ ہمیں اپنے ریڈار کی نوعیت کے بارے میں آگاہ فرمائیں جس نے ہماری جدید ترین ٹیکنالوجی کو ناکام بنا کر رکھ دیا ہے۔
یمن کی حکومت نے چیک تسلیم کرتے ہوئے جواباً لکھا کہ : جناب عالی، کیسا ریڈار اور کیسا حفاظتی نظام۔ ہم نے تو بس جہاز کے گزرنے کی آواز سنی تھی، اس کے بعد ہم نے یمن میں قائم سارے ملکوں کے سفارتخانوں کو ایک ایک احتجاجی مراسلہ لکھ دیا تھا۔ سب نے ہمیں جواب دیا کہ ہمارا کوئی جہاز آپ کی فضاؤں کی خلاف ورزی کا مرتکب نہیں ہوا سوائے آپ کے سفارتخانے کے: انہوں نے ہمیں معذرتی پیغام بھیجا۔ بس ہم نے اسی بات سے اندازہ لگا گیا کہ جہاز آپ کا ہی ہوگا۔