کہانی کچھ یوں ہے کہ لندن میں ایک گورا اپنی گرل فرینڈ کے ہمراہ ایک ٹیکسی کو بک کرا کر اس میں سوار ہوا( یہ اوبر کے زمانے سے کچھ سال قبل 2011 کے آس پاس کی بات ہے جب پاکستان میں دہشت گردی عروج پر تھی اور آئے دن بری خبریں وصول ہوتی تھیں)- ڈرائیور ( کیبی) گندمی رنگ کا تھا اور اپنی زبان میں کسی سے بات کر رہا تھا- سواریاں اٹھانے کے بعد اس نے جلدی سے اپنی بات ختم کی اور ان سے پوسٹ کوڈ کنفرم کیا اور گاڑی چلانے لگا-
گورے کی ہمراہی اپنے اوپر زیادہ قابو نہ پاسکی اور اس نے ڈرائیور سےانگریزی میں پوچھا، "کیا تم پنجابی بول رہے تھے؟"
ڈرائیور ایک دم ہکا بکا رہ گیا- انگلستان میں پنجابی بولی جاتی ہے لیکن ایک گوری جو پنجابی لہجے سے واقف ہو، اسے پہلی بار ملی تھی- یس مام. بڑی دلچسپ بات ہے کہ میں پہلی دفعہ کسی ایسی سواری سے ملا ہوں جسے پنجابی لہجے کی سمجھ ہے" ڈرائیور نے خوشگوار لہجے میں کہا- "مینوں سمجھ وی اے تے بول وی لیندی آں". اس مرتبہ گوری نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں کہا تو ڈرائیور کے ہاتھ سے سٹیرنگ چھوٹتے چھوٹتے بچا- گوری کے ساتھ بیٹھا اس کا بوائے فرینڈ ڈیوڈ( فرضی نام ) کچھ نہ سمجھتے ہوئے ان کی گفتگو بس سن رہا تھا-خیر بات آگے بڑھی اور معلوم ہوا کہ ڈرائیور اختر ( فرضی نام ) پاکستانی ہے، سیالکوٹ سے تعلق رکھتا ہے اور پنجابی بولتا ہے- ڈرائیور یہ جان کر ششدر رہ گیا کہ جوزفین( فرضی نام ) بیس سال سیالکوٹ میں گزار چکی ہے جہاں اس کی ماں ایک عیسائی مشنری تھی اور ایک چرچ سے منسلک تھی- جوزفین وہیں بڑی ہوئی اور اس نے وہیں پنجابی سیکھی- وہ خود کو"منڈیا سیالکوٹیا" بھی کہہ رہی تھی-
خیر گفتگو میں سفر تمام ہوا، ڈیوڈ اور جوزفین اپنی منزل پر پہنچ کر اترنے لگے تو اصول کے مطابق انہوں نے تیس پاؤنڈز (تقریباً چھ، سات ہزار روپے) کرایہ نکالا اور اختر کے سپرد کردیا- تاہم وہ اس کے رد عمل پر ششدر رہ گئے- ’’مجھ پر لعنت ہو اگر میں آپ سے کرایہ لوں‘‘-اختر نے زور سے کہا- اس کی آنکھوں میں باقاعدہ آنسو اتر آئے تھے-آپ میرے شہر کی ہیں- آپ تو میری بہن ہیں- میں بھلا اپنی بہن سے کیسے کرایہ لے سکتا ہوں؟
کچھ دیر اصرار، بحث و تمحیص کے بعد اختر کی بات مان لی گئی- وہ گرم جوشی سے الوداع کہہ کر بغیر کرایہ لیے چل دیا-
رانا صاحب کا بیان ہے کہ اس ایک واقعے نے ڈیوڈ کو پاکستان کے حوالے سے یکسر بدل کر رکھ دیا اور وہ پاکستانیوں کی بہت عزت کرنے لگا- بعد ازاں ڈیوڈ اور جوزفین کی شادی ہوگئی تو بہت سی سماجی تقریبات میں ڈیوڈ کو یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے پایا گیا- آخر میں وہ عموماً اپنی ناک کھجاتے ہوئے کہتا، "کیسے شاندار لوگ ہیں؟ یعنی بات پر کرایہ نہ لینا کہ فلاں میرے شہر سے ہے؟ ہو از اٹ پاسیبل؟ وہ تو خود اپنے گھر سے اتنی دور مزدوری کر رہا ہے؟آئی ایم اے بگ فین آف پاکستان". انہی دنوں جب پاکستان میں کسی دھماکے کی وجہ کوئی منفی تبصرہ ہوتا تو جوزفین فوراً بحث میں کود پڑتی اور کہتی "پتہ نہیں آپ کون سے ملک کی بات کر رہے ہیں- میں خود پاکستان میں بیس سال رہ چکی ہوں- پاکستان دنیا کا سب سے پرامن ملک ہے یہ منفی تبصرہ بکواس ہے- میں وہیں کھیلتے کھیلتے بڑی ہوئی ہوں- پاکستان سے نکل آئی ہوں، مگر پاکستان میرے اندر سے کبھی نہیں نکلے گا" -
ڈیوڈ اور جوزفین کی ایک بڑی خواہش پاکستان جانا بھی ہے جہاں وہ خاص طور پر سیالکوٹ جانا چاہتے ہیں-
اختر جہاں بھی ہے، خوش رہے- اس کی گاڑی بغیر پیٹرول کے چلتی رہے اور اس کا کبھی چالان نہ ہو- اس کے پاکستانی دل نے دو گوروں کو ہمیشہ کے لیے پاکستان کا سفیر بنا دیا-
بشکریہ : راوی ‘ رانا یوآب خان