آج میری ملاقات بادشاہ ظاہرشاہ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے بہت ہی معقول تعلیم یافتہ افغانوں سے ہوئی- وہ ڈیورنڈلائن کو قبول نہیں کرتے اور نہ ہی پاکستان کو موجودہ جغرافیائی سرحدات کے ساتھ تسلیم کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ افغانستان کو 1880 کی سرحدی پوزیشن میں دوبارہ بحال کیا جائے۔
افغانیوں کو اپنے اس مطالبہ میں ہمارے مشرقی ہمسایہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ کوئی بھی افغان لیڈر بشمول کرزئی ‘غنی اور یہاں تک کہ طالبان بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے۔اگر کوئی میکموہن لائن یا ریڈکلف لائن کو چھیڑنے کی بات کرے تو ہندوستان انکے دفاع کے لئے ایٹمی جنگ تک لڑنے کو تیار ہو جائے گا لیکن متنازعہ ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر وہ 1947 کے بعد سے ہی افغانستان کی غیر مشروط حمایت کرتا ہے! کوئی بھی ذی شعور شخص ہندوستان کی اس دوغلی پالیسی پر سوال اٹھا سکتا ہے۔ یہ تینوں سرحدی لکیریں برصغیر سے رخصت ہونے والے انگریزوں نے جانشین ممالک کو ورثے میں چھوڑی تھیں ، ان سرحدی لکیروں کے تنازعات معمولی نوعیت کے ہیں سوائے ڈیورنڈ لائن کے، جو کراچی سے لے کر اٹک سے آگے تک سرحدات کو یکسر بدل کر کے رکھ دے گی۔
یہ تمام سرحدی لکیریں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ ہیں لیکن ڈیورنڈ لائن کے معاملے پر ہندوستان اور افغانستان ایک ہی صفحے پر ہیں کہ پاکستان کو کاٹ کر دبانے کا یہ بہترین طریقہ ہے۔ خود غرض سیاست کو اس سے بہتر مثال سے سمجھایا جانا ممکن نہیں ہے:
میک موہن اور ریڈکلف لائنوں کی طرح ڈیورنڈ لائن بھی برطانوی راج کی جانب سے جانشین ریاست کو ورثے میں دی گئی لیکن افغانستان اسکی قانونی حیثیت کو تسلیم کرنے سے یکسر منکر ہے۔ ہندوستان کی نسبت چونکہ پاکستان ایک نئی قائم ہونے والی ریاست تھی لہذا اسے اقوام متحدہ کی باقاعدہ رکنیت کے لئے درخواست دینا پڑی جسکی افغانستان نے بڑی شدومد سے مخالفت کی- ذرا بھارت کو ودیعت کردہ کسی بھی سرحد کی خلاف ورزی کی بات کرنے کی کوشش تو کر کے دیکھیں، آپ کو ہندوستان کے ردعمل سے اس دوغلی پالیسی کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔
آپ اس خودغرض دوغلے پن کا اندازہ کریں کہ جو چیز ہندوستان کے لئے اچھی ہے وہ پاکستان ‘افغانستان کے لئے اچھی نہیں ہے۔ افغانستان کے ساتھ ہمارے خراب تعلقات کی جڑ ڈیورنڈ لائن کہلانے والی یہی سرحدی لکیر ہے۔ برطانوی راج اور زار کے مابین جاری گریٹ گیم میں ان کلیدی دروں کے دوسری طرف کا خطہ ہزاروں سالوں سے زبردست سازشی چالوں اور جنگی کارروائیوں کا مرکز رہا ہے۔
اختلاف کے بیج پہلے دن سے ہی بو دئیے گئے تھے، جب ہندوستان نے تسلیم شدہ تقسیمی فارمولے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے افغانی دراندازوں کے موقف کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ یہاں جذبہ خیر سگالی کہاں گیا؟ جبکہ متحدہ ہندوستان کی صورت میں اسی ڈیورنڈ لائن کی خلاف ورزی ہندوستان-افغانستان کے درمیان جنگ کی مستقل وجہ ہوتی! لہذا بچگانہ باتیں کرنا چھوڑیں یہی وجہ ہے کہ ’ظاہر شاہ‘ کے مطالبات کی مستقل درد سری کم کرنے کے لئے پاکستان نے 1967 میں حکمت یار گروپ کی حمایت کرنے کا فیصلہ کیا۔
چالیس لاکھ مہاجرین کی خندہ پیشانی کے ساتھ میزبانی کرنے کے بعد براہ کرم اب یہ بات کرنا بند کر دیں کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ دوستانہ مراسم کیوں استوار نہیں کرتا! ہمارے ہاں فروغ پانے والی طالبانائزیشن افغانستان میں 1978 میں ہونے والی جنگ کا نتیجہ ہے۔ افغان مہاجرین کی آمد نے پاکستان کا پورا چہرہ بدل دیا کیونکہ وہ اپنے ہمراہ قرون وسطیائی ذہنیت، شرعی پردہ، منشیات، کلاشنکوف اور انتقامی انتہا پسندی کا کلچر لے کر آئے۔ روسی حملے کے خلاف مزاحمت نے سبز اور کالی پگڑیوں کو جنم دیا جو امریکی سرمائے سے قائم ہونے والے مدرسوں کے جال کی مدد سے افغانستان اور پاکستان کے کونے کونے میں پھیلا دی گئیں۔ اس مہلک بیماری کو ان سب نے مل کر پھیلایا ہے لیکن اب ہر کوئی اس کی ذمہ داری لینے سے انکاری ہے! اسامہ بن لادن، القاعدہ اور سیاہ جھنڈے امریکی سی آئی اے کے پیسوں سے شروع کئے گئے جہاد کی ضمنی پیداوار ہیں۔ وہ روس کو تو توڑنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کریہہ جہادی نشانات کو یہیں چھوڑ گئے۔ آج کا دہشت گرد حقانی گروپ گذرے کل میں ریگن کے نزدیک ’حریت پسند‘ تھے۔ غنی اور کرزئی جن کے ابدالی جیسے آباؤ اجداد مسلسل برصغیر میں لوٹ مار کرتے رہے لیکن آج وہ ہندوستان کے سب سے عزیز دوست ہیں۔ یہی سیاسی زمینی حقائق ہیں اور انکا دوستی یا دشمنی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’ہم‘ انہیں اسلئے پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ پاکستان کو کاٹ کر تباہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ مت بھولئے کہ سومنات کو تاراج کرنے والا غزنوی اور ابدالی پاکستانی نہیں تھے یہ انہی کے آباؤاجداد تھے جو آج آپ کے سب سے عزیز اور گہرے دوست ہیں۔ لیکن کسی خوش فہمی میں مت رہیئے جس طرح انھوں نے ہماری پشت میں چھرا گھونپ کر ہمیں دارالحرب قرار دے دیا ، دروں کو ہتھیانے کے بعد وہ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی کریں گے۔ طالبان اور حقانیوں کا اپنے عقائد و مقاصد پر مبنی ایجنڈا ہے، وہ کسی کے دوست نہیں ہیں! اگر وہ پاکستان کو زیر کر لیتے ہیں تو لاقانونیت کی افراط ان کی دلی خواہش ہے۔
جب تک غنی اور کرزئی پاکستان کو جغرافیائی طور پر تباہ کرنے کی بات کرتے ہیں تو ہندوستانی انکو اپنا عزیز دوست کیوں نہ سمجھیں۔ لیکن آپ ’لائن آف کنٹرول‘ کو اپنی جگہ سے ایک انچ ہلانے کی کوشش کریں تو آپ دیکھیں گے کہ جہنم کے تمام دروازے آپ پر کھول دئیے جائیں گے۔ اس شیطانی سیاست کا دوغلہ پن انتہائی واضح ہے کہ ڈیورنڈ لائن کو تو افغانیوں کی خواہشات کے مطابق منتقل کردینا چاہیئے‘ لیکن ہماری سرحدات پر بات کرنا شجر ممنوعہ ہے۔
انہیں قرون وسطیائی پسماندہ باطن اور خود تباہی پر مبنی طالبانیت زدہ 1880 کا افغانستان واپس دے دیں تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں اور ذہنی بالیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس پر غور کریں - پاکستان کو جغرافیائی طور پر توڑنے کے لئے ایک مستقل انتھک اور منظم کوشش جاری ہے۔ میں یہاں اس حقیقت کو اجاگر کررہا ہوں کہ وہ موجودہ سرحدوں کو نہیں مانتے ہیں - لہذا اس پر مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور اسی وجہ سے ہمارا شمار ان کے دوستوں میں نہیں ہوتا- بس یہی نقطہ ہے - پاکستان کو جغرافیائی طور پر کاٹ دیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔لہذا اس بیکار گفتگو کو بند کر دیں کہ کس نے کس کے ساتھ کیا کیا! ہم میں سے کوئی قوم بھی پویتر اور منصفانہ نہیں ہے! اپنے آس پاس پھیلی ہوئی ناانصافی اور ظلم و ستم پر نظریں دوڑا کر دیکھ لیں۔ غنی، شمالی اتحاد یا شاہی ہمدرد جب اسلام سے ہٹ کر گفتگو کرتے ہیں تو وہ 1880 کی سرحدی پوزیشن دوبارہ حاصل کرنے سے متعلق ہوتی ہے۔ یہاں کوئی بھائی چارہ اور کھوئی محبت نہیں ہے!!
یہ مضمون صرف اس حقیقت سے پردہ اٹھانے کے لئے لکھا گیا ہے کہ بدھ، وید اور عصری ہندوستانی تاریخ کے دو تہائی جغرافیہ پر مشتمل شمال میں قائم ہونے والی اس نوزائیدہ فیڈریشن قوم کواول دن سے ہی اپنی بقا کو لاحق کٹھن مشکلات سے دو چار ہونا پڑا۔
یہ کہنا کہ پاکستان کی اپنے تمام پڑوسیوں کے ساتھ عداوت ہے، برمحل انصاف بات نہیں ہے۔ یہ اتنا سیدھا مسئلہ نہیں ہے !! افغانستان تو اس کی ایک مثال ہے لیکن اسی طرح کی تاریخی چھان بین بھارت اور ایران کے ساتھ بھی کی جاسکتی ہے۔
اس چپقلش کی گہری وجوہات ہیں - پاکستان اور ہندوستان کا جڑواں جنم ہوا، انکی علیحدگی کے موقع پر بہت کشت وخون ہوا تھا اور اب وہ خونی ماضی اپنی تمام تر وحشت کے ساتھ قوم کو ڈرانے چلا آتا ہے !!
ہم نے یقینی طور پر افغانیوں کی نسبت ماضی کے تمام افغان جنگجوؤں کو اپنانے کی پوری کوشش کی ہے - غنی اور کرزئی نہ تو غزنوی یا غوری اور نہ ہی بابر یا ابدالی کو فخریہ اپناتے ہیں ، جبکہ ہمارے ہر میزائل کا نام ان سے منسوب ہوتا ہے۔ ہم نے بڑے فخر سے ان زیادتیوں کا علم تھام رکھا ہے جبکہ افغانی بڑی دانشمندی سے خود کو اس سے الگ کر چکے ہیں! میری رائے میں یہ نہایت ہی گمراہ کن اور سنگین غلطی ہے کیونکہ کسی ایک حملہ آور کا تعلق بھی پنجاب ، سندھ ، بلوچستان یا خیبرپختونخواہ سے نہیں تھا، تو پھر کیوں انہیں اپنایا جائے؟ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے!!
پس نوشت:
براہ کرم میں اس مسئلے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ افغانستان اور ہمارے درمیان اتنے کشیدہ تعلقات کے پیچھے کیا تاریخی تنازعہ کارفرما ہے؟ بس یہی مقصد تحریر ہے!!
میں یہاں اس حقیقت کو اجاگر کررہا ہوں کہ وہ موجودہ سرحدوں کو نہیں مانتے ہیں - لہذا اس پر مذاکرات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اور اسی وجہ سے ہمارا شمار ان کے دوستوں میں نہیں ہوتا - بس یہی نقطہ ہے - پاکستان کو جغرافیائی طور پر کاٹ دیا جائے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا-براہ کرم اسے تعصب سے بالاتر ہو کر توجہ سے پڑھیں۔ اشرف غنی، شمالی اتحاد کے ساتھ ساتھ ہماری حمایت یافتہ ملا عمر حکومت نے بھی اس ڈیورنڈ لائن کے بین الاقوامی سرحد ہونے کی توثیق کرنے سے انکار کردیا تھا-