جائیداد

مصنف : بشیر آرائیں

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : اگست 2021

پچھلے سال کورونا کی وبا پھیلنے سے پہلے لاہور کی ایک این جی او 30-35 بچوں کو کراچی گھمانے لائی ۔ بچے اور بچیاں میٹرک سے لیکر ماسٹر ڈگری کے اسٹوڈنٹ تھے اور شاہراہ فیصل پر ریجنٹ پلازہ ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے ۔ انسدادِ منشیات کیلیے کام کرنے والی ایک مقامی این جی او کے ایک ہاسپیٹل نے روزانہ 3-4 نامور شخصیات کو بلوانا شروع کیا تاکہ بچوں کو وہ اپنی *Success Stories* سنائیں ۔ ایک دن نہ جانے مجھ ناچیز کو کیوں دعوت مل گئی ۔ میں نے ہزار کہا کہ میری ایسی کیا *Success Story* ہوگی جسے سن کر بچے خوش ہوں ۔ میں تو خاک سا ریٹایرڈ خاکی ہوں اور میرے پلے ہے کیا 
مجھ سے پہلے پاکستان کے ایک بہت بڑے گارمنٹس برانڈ کے مالک نے تقریر کی کہ کس طرح اس نے اپنی غیرملکی بیوی کی مدد سے چھوٹی سی کپڑے کی دوکان سے اپنا برانڈ متعارف کروایا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے ہر شہر میں اسکی شاخیں کھولتا گیا ۔ بےتحاشہ پیسہ کمانا شروع کیا اور ہر بڑے شہر میں جایدادیں ‘ گھر اور اپنے برانڈ کے شوروم خریدتا چلا گیا ۔ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا بریگیڈیر صاحب اصل خوشی مجھے پچھلے سال اس وقت ہوئی جب میں نے آپکے سابقہ چیف آف آرمی اسٹاف کا گھر بھی خرید لیا ۔ خوب تالیاں بجیں اسے خوب داد ملی ۔ کمال کی *Success Story* تھی ۔
میں پریشان بیٹھا تھا کہ میں نے فوج سے ملنے والے پلاٹ بھی بیچ دیے ہیں تو پھر میرے پاس سنانے کو کیا ہے ۔ مایک میرے ہاتھ میں آیا تو میں نے بچوں کو مخاطب کرکے کہا کہ میری کہانی شاید کسی کو پسند نہ آئے نہ تالیاں بجیں نہ داد ملے مگر چلو سناتا ہوں ۔ 
میں نے پانچویں کلاس اردو پرائمری مین اسکول نوابشاہ سے پاس کی ۔ اس وقت کلاس میں کچھ بچے زمین پر بچھائی دری پر بیٹھتے تھے اور کچھ لکڑی کے بنچ پر ۔ پانچویں کلاس تک ABC کا پتہ ہی نہ تھا بس الف سے انار اور ب سے بکری پڑھتے تھے ۔ چھٹی کلاس کیلیے ڈی سی ہائی اسکول نوابشاہ میں داخلہ لیا اور میں نے شہر آکر کرایے کے مکان میں دوسرے کچھ لڑکوں کے ساتھ رہنا شروع کردیا ۔ خود ہی بے ذائقہ سا سالن بناتے اور محلے کی ایک تندور والی ماسی کو آٹا دیکر روٹی لگوا لیتے ۔ان دنوں ڈی سی ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر ایچ ایم خواجہ صاحب تھے جو بعد میں سندھ کے مشہور ماہر تعلیم بھی جانے گئے تھے ۔ شام کو اسکول میں کھیل بھی ہوتے تھے ۔ اسٹوڈنٹس میں کرکٹ کو پسندیدہ کیا جاتا تھا ۔ میرا داخلے کا دوسرا یا تیسرا دن تھا ۔ میں بھی اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ گراؤنڈ پہنچ گیا ۔ میرے دو شرارتی کلاس فیلوز مجھ سے کہنے لگے کہ اگر کرکٹ کھیلنی ہے تو پہلے کرکٹ کے انگلش میں اسپیلنگ بتاؤ ۔ مجھے چونکہ انگلش کا ایک لفظ نہیں آتا تھا تو میں چپ چاپ گراؤنڈ سے نکل کر باہر آ بیٹھا ۔ میں نے اس دن سے کرکٹ کھیلنے کا خیال دل سے نکال دیا اور پڑھائی شروع کردی ۔ میں ساتویں کلاس میں پہنچا تو ساری کلاس کو پیچھے چھوڑ دیا اور اب صرف دو تین لڑکوں سے ہی مقابلہ ہونے لگا ۔ میں کرکٹ کی گیند کی بجائے کتابوں کے پیچھے بھاگتا رہا ۔ ڈاکٹر بن گیا ۔ فوج میں چلا گیا ۔ کارکردگی کی بنیاد پر یونائٹیڈ نیشن مشن سعودیہ گیا ۔ صومالیہ گیا اور پھر بوسنیا بھی پہنچ گیا ۔ دنیا کے 35 ملکوں کی آرمی کے جھرمٹ دیکھے ۔ ایک دن *بوسنیا* میں کام کرنے والی دنیا کی دسیوں NGOs کے سامنے تزلا کینٹ میں پاک بٹالین 2 ہاسپیٹل کی کارکردگی بتا رہا تھا تو میرے نارویجین سینیر کرنل نے کہا کہ آپ پاکستانی ڈاکٹرز انگلش بہت اچھی بولتے ہیں ۔ اس وقت میں اپنے بچپن کے الف سے انار اور ب سے بکری کے سبق کو یاد کرکے مسکرائے بغیر نہ رہ سکا ۔ 
میں ریٹائر ہوا تو اپنے دو پلاٹ اور آرمی سے ملنے والا گھر بیچ کر نیوی کالونی کارساز میں کرایے کے گھر میں شفٹ ہو گیا ۔ بیٹی کو *رایل ہالو وے یونیورسٹی لندن* سے *Journalism& English Creative Writing* میں ڈبل بیچلر کرنے اور بیٹے کو *International Politics & Foreign Policy *Development میں ماسٹر کرنے *سٹی یونیورسٹی لندن* بھیج دیا ۔ دونوں واپس آئے تو انکی شادیاں کرکے فارغ ہوگیا ۔ تیس پینتیس سال کی کمائی سے صرف یہ دو جایدادیں بنائیں ۔ بیٹی اب *English Creative Writer ہے اور بیٹا *PhD* کیلیے پھر *لَو برو یونیورسٹی لندن* کی خاک چھان رہا ہے ۔
ریٹائرمنٹ کے بعد میڈیسن سپلائی کا جو کاروبار شروع کیا تھا اس میں اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت ڈالیں کہ میں نے صرف تین سال بعد ہی اپنے لیے نیا گھر دوبارہ خرید لیا اسکے بعد پھر ہر وقت یہ خیال ستاتا رہتا تھا کہ مزید جایداد بنانی چاہیے ۔ میں نے کئی شہروں سے ہر سال تین سے چار غریب مگر ذہین بچوں کی یونیورسٹی فیس کی ذمہ داری اٹھانی شروع کردی تاکہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرلیں ۔ اب مجھے کاروبار کرتے 11 سال ہوگئے ہیں ۔ پاکستان کے سات شہروں میں بہترین روزگار سے لگے 17 نوجوان میری جایداد میں شامل ہیں ۔ ان شہروں سے گزروں تو انکے گھر میرے ہی لگتے ہیں میں ان شہروں سے مزیدار لنچ کیے بغیر کبھی نہیں گزر سکتا ۔ 
جایداد بنانے کی ایسی لت پڑی ہے کہ میں کبھی کبھی سندھ اور پنجاب کے کسی پسماندہ شہر کے ہائی اسکول کا چکر بھی لگالیتا ہوں کہ کسی غریب کا ذہین بچہ فیس نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم ادھوری نہ چھوڑ دے ۔ میری سب سے بڑی جایداد تو اب میرا ذاتی تعلیمی ادارہ *اتحاد یونیورسٹی* ہو گا ۔ جس کا چارٹر میں سندھ اسمبلی سے پاس کروا چکا ہوں اور اللہ نے چاہا تو جیتے جی اس میں بچوں کو پڑھتا بھی دیکھوں گا۔ چونکہ میری تقریر کے دوران محفل میں مکمل خاموشی تھی تو میں نے ازراہ مزاح یہ بھی کہہ دیا کہ تھر میں لوگوں کیلیے کھودے گئے آٹھ دس پانی کے کنویں بھی میری جایداد میں شامل ہیں مگر میری اس بات پر بھی قہقہے سنائی دینے کی بجائے محفل میں سناٹا تھا ۔ بس میں نے شکریہ کہہ کر اپنی Success Story ختم کردی ۔ میری زندگی کے وہ لمحے بہت یادگار ہیں جب میری تقریر کے آخر میں سب بچے اٹھ کر میری طرف بھاگے تھے اور مجھے بغیر کوئی بات کہے زور زور سے جھپیاں ڈال رہے تھے ۔ لگتا تھا انکو میری بنائی ہوئی جایداد مجھ سے پہلے مقرر کے چیف آف آرمی اسٹاف کے خریدے خوبصورت گھر سے بھی زیادہ پسند آئی تھی ۔