پچھلے دنوں امی بیمار ہوئیں۔جب خاندان میں پتا چلا تو سب بیمار پرسی کے لیے آئے۔
رشتے کی بھابھی آئیں اور امی کو دیکھ کر کہنے لگیں؛‘‘ یااللہ! خالہ آپ کو کیا ہوگیا ہے. میں تو پہچان ہی نہیں سکی۔کس قدر کمزور اور بیمار لگ رہی ہیں۔اللہ آپ کو صحت دے ۔کھا پی تو رہی ہیں نا۔’’
یہ سن کر امی جو پہلے ہی اپنی بیماری کی وجہ سے مایوس تھیں اور پریشان ہوئیں۔مجھے فون پہ کہنے لگیں کہ لگتا ہے میرا وقت آگیا ہے۔امی پریشان، گھروالے پریشان اور میں پردیس میں بیٹھی بیٹی صرف اس خاتون کی سمجھداری کو خراج عقیدت و تحسین پیش کر رہی تھی۔
امی اکیاسی برس کی ہیں۔اس عمر میں تو ہلکے سے بخار میں بھی انسان نڈھال ہوجاتا ہے . امی تو بیمار تھیں،فزیوتھراپی چل رہی تھی بلکہ اب تک چل رہی ہے۔ظاہر ہے بستر پہ پڑے بزرگ ہشاش بشاش تو نہیں لگیں گے نا لیکن ایسا سب کوئی کیوں سوچے۔
اتفاق سے چار دن بعد خالہ زاد بھائی اپنی بیگم کے ساتھ امی سے ملنے آئے۔امی نے کہا دیکھا بیٹا میری حالت۔بھائی نے کہا کیسی حالت؟اگر آپ بستر پہ نہ ہوتیں تو مجھے لگتا بھی نہیں کہ آپ بیمار ہیں۔آپ کی میری امی سے کب سے ملاقات نہیں ہوئی ؟ امی نے کہا ہم چھ مہینے سے نہیں ملیں۔بس فون پہ ہی بات ہوتی ہے۔خالہ زاد بھائی نے کہا کہ وہ تو آپ سے زیادہ کمزور ہوگئی ہیں۔آپ تو مجھے کافی بہتر اور فریش لگ رہی ہیں۔ان کے جانے کے بعد امی نے مزے سے کھانا کھایا۔مجھے کال کر کے کہتی ہیں کہ یہ نیا فزیوتھراپسٹ بہت اچھا ہے۔میں تو اب کمرے کے چکر بھی لگانے لگی ہوں۔اب تو سب کہتے ہیں کہ مجھے دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ میں بیمار ہوں۔تم میرے لیے پریشان نہ ہونا اب۔ایک ہی صورت حال لیکن دو متضاد رویے۔ کہتے ہیں کہ جب آپ بیمار کی عیادت کے لیے جاتے ہیں تو فرشتے آپ کے لیے دعا کرتے ہیں۔کوشش کیجیے کہ جب بیمار پرسی کرنے جائیں تو بیمار اور اس کے اہل خانہ بھی آپ کے لیے دعا کریں۔