ام سلیم فرماتی ہیں کہ ایک دن میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس سے گزری تو آپ ﷺ کے بخار کی حدت و حرارت مجھے دور سے محسوس ہوئی،میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ کو تو بہت تیز بخار ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا ہم نبیوں کا معاملہ اسی طرح کا ہوتا ہے جو مصیبت بھی آتی ہے اپنے انتہا درجے کے ساتھ آتی ہے!
یہی معاملہ عائلی زندگی کاہے، اللہ پاک نے اسے فتنہ یعنی امتحان قرار دیا ہے۔ دیگر امتحانوں کی طرح عائلی زندگی کا امتحان بھی نبی کریم ﷺ نے امتیازی شان کے ساتھ پورا کیا۔کہ آج تک کوئی انگلی اس کی طرف نہیں اٹھائی جا سکی نہ قیامت تک اٹھائی جا سکے گی۔ہم جو ایک بیوی کے ساتھ بھی حسنِ سلوک اور عدل و انصاف کے معاملے میں شرعی معیار برقرار نہیں رکھ سکتے، وہاں نبی کریم ﷺ نے 9 مختلف المزاج اور مختلف القبائل بیویاں رکھ کر حسن سلوک اور رواداری کے جھنڈے گاڑ دیئے، اور فرمایا '' خیرکم خیرکم لاھلہ، و انا خیرکم لاھلی '' تم میں اچھا وہ ہے جو گھر والوں کے لئے اچھا ہے اور میں تم سب میں سے اپنے گھر والوں کے لئے اچھا ہوں '' کاش کوئی اسی اصول کو اپنا لے اور اچھا بن جائے!
خیر اب آیئے تفصیل کی طرف!
جس طرح اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو صحابہ گھڑے گھڑائے اور بنے بنائے نہیں دیئے تھے بلکہ اپنی Crude شکل میں دیئے تھے، پھر نبی پاک ﷺ نے ان کو بار بار Refine کیا اور ان کا تزکیہ کیا،،ان میں سے میل کچیل نکال کر دنیا کے رہبر و راہنما بنا دیا!
درفشانی نے تیری قطرے کو دریا کر دیا!
دل کو روشن کر دیا،آنکھوں کو بینا کر دیا!
جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ھادی بن گئے!
کیا نظرتھی،جس نے مُردوں کو مسیحا کر دیا!
اسی طرح آپ کو نو بیویاں ٹھیک عورت کی جبلت کے ساتھ دی گئیں۔ رشک و غیرت سے بھری ہوئیں، ایک دوسری کی بات کو برداشت نہ کر سکنے والیاں،، مگر نبی ﷺ کا کمال ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی ان کی چپقلش کی بنیاد پر نہ مارا نہ گالی دی اور نہ طلاق دی نہ قطع رحمی کی کہ بیویوں کو والدین سے ملنے سے روکا ہو بلکہ مشرکہ ماں کے ساتھ بھی حسن سلوک کی نصیحت کی اور آخری سانس تک اس رشتہ ازدواج کو نبھایا، اور آخری سانس کے ساتھ،عورتوں کے حقوق اور غلاموں کے حقوق کی بات کے ساتھ جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
میں جب بھی نبی پاک ﷺ کی عائلی زندگی کی تفصیلات پڑھتا ہوں تو میرا دل اپنے نبیﷺ کی محبت اور عظمت سے بھر جاتا ہے ہماری ماؤں نے یہ لحاظ کیئے بغیر کے ان کا شوہر ان کا رسول بھی ہے، انہیں خوب اس امتحان سے گزارا کہ جس سے قیامت تک ہر شوہر گزرتا رہے گا۔ کوئی یہ نہ کہے کہ حضورﷺ نے تو اس لئے پیار و محبت کی فضا قائم رکھی اور عدل و انصاف کیا اور بیویوں کو مارا نہیں کہ آپﷺ کی بیویوں کا رسول ﷺ کی عظمت کے سامنے سانس سوکھا رہتا تھا،نظر نہیں اٹھتی تھی، وہ بول نہیں سکتی تھیں، جونہی حضور ﷺ حجرے میں آتے تو ان کا بلڈ پریشر لوہو جاتا تھا،وغیرہ وغیرہ!
نبی ﷺ کی ازواج کو اپنے شوہر کے رسول ہونے اور اپنے آپ کے امتی ہونے کے باوجود ناراض ہونے سمیت اور پلٹ کر جواب دینے سمیت ہر وہ حق حاصل تھا جو قیامت تک ایک بیوی کو حاصل ہے اور رہے گا، اور امہات المومنین نے اسے خوب خوب استعمال کیا!
اور نبی کریم ﷺ نے اسے کبھی اپنی ناک کا مسئلہ نہیں بنایا کہ بیوی کے پلٹ کر جواب دینے سے یا ناراض ہونے سے میری عظمت پہ دھبہ لگ گیا ہے، یا میری رسالت و نبوت کی انسلٹ ہو گئی ہے،جیسا کہ ہمارا وطیرہ ہے کہ ذرا سی بات پہ خیال آ جاتا ہے کہ '' لوگ تو میری اتنی عزت کرتے ہیں،، دفتر والے 200 ملازمین تو میرے سامنے اونچی آواز سے نہیں بولتے،، بلکہ میری نظرِ کرم کے لئے سو سو جتن کرتے ہیں،،اور گھر میں بیوی مجھے جواب دیتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
جو لوگ چار شادیوں کو سنت کہتے ھیں وہ اپنا سینہ بھی اتنا ہی کشادہ رکھیں جتنا نبی ﷺ نے رکھا ھوا تھا،، جو شخص ایک بیوی کو مار لیتا ہے۔میرے خیال میں دوسری شادی کے لئے نااہل ہو جاتا ہے۔ دوسری کر کے اب وہ فساد ہی پیدا کرے گا،جب پہلی اکیلی تھی اور اس میں شراکت کے رشک و غیریت کے جذبات بھی نہیں تھے تو تم نوبت مار تک لے آئے ہو تو اتنا ایندھن ڈالنے کے بعد تم دو کیسے رکھو گے جبکہ اب تم دو بیلوں کی لڑائی کے درمیان پھنس جاؤ گے؟ لازماً ایک کو چھوڑو گے،یوں نزلہ پرانے ماڈل پر ہی گرے گا،، اور اولاد برباد ہو گی۔
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ عائشہؓ جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو مجھے پتہ چل جاتا ہے! حضرت عائشہؓ نے پوچھا کہ وہ کیسے؟ آپ ﷺ نے فرمایا،، عائشہ جب تم ہم سے رنجیدہ ہوتی ہو تو ابراہیم کے رب کی قسم کھاتی ہو، اور جب راضی ہوتی ہو تو ربِ محمد ﷺ کی قسم کھاتی ہو۔ اس پہ ام المومنینؓ نے فرمایا،میں صرف آپ کا نام چھوڑتی ھوں (دل سے محبت تھوڑی جاتی ھے)۔
حضور ﷺ نے ہر بیوی کو الگ گھر دیا ہوا تھا۔جنہیں احترام سے حجرات النبی کہا جاتا تھا۔ہر خاتون اپنے حجرے میں خود مختار اور ملکہ تھی جو چاہتی پکاتی تھی اور نبی پاک ﷺ کو کھلاتی تھی۔ ایک دوسرے کے حجروں میں مداخلت امہات المومنین کی عادت نہیں تھی۔حضرت صفیہؓ چونکہ یہود کے سردار کی بیٹی تھیں جو بہت امیر تھا اور شوہر بھی یہودی سردار تھا جو بہت مالدار تھا،لہذا انہیں ہر کھانا پکانے کا ڈھنگ آتا تھا خاص کر وہ گوشت بہت مزیدار پکاتی تھیں جو نبی پاک ﷺ کو بہت پسند تھا۔ایک دفعہ حضور نبی کریم ﷺ کی باری حضرت عائشہ صدیقہؓ کے گھر تھی کہ حضرت صفیہؓ نے گوشت پکایا، نبی پاک ﷺ کی پسندیدگی کو دیکھتے ہوئے انہوں نے گوشت رکابی میں ڈال کر وہیں بھیج دیا۔ غلام نے جونہی حجرے میں داخل ہو کر اعلان کیا کہ ام المومنین صفیہؓ نے گوشت بھیجا ہے۔ حضرت عائشہؓ نے ہاتھ مار کر رکابی گرا دی۔ رکابی ٹوٹ گئی اور بوٹیاں بکھر گئیں۔ بقول راوی میں دیکھ رہا تھا کہ نبی کریمﷺ بوٹیاں اکٹھی کر رہے تھے اور فرما رہے تھے '' غارت امک '' تیری ماں نے غیرت کی ہے،تیری ماں کو غیرت آ گئی ہے،، پھر وہ بوٹیاں دھو کر کھائی گئیں اور ٹوٹی رکابی حضرت عائشہؓ کو دی گئی اور ان سے سالم رکابی لے کر غلام کے ہاتھ حضرت صفیہؓ کو بھیجی گئی اور غلام کو منع کیا گیا کہ وہ یہ بات ام المومنین حضرت صفیہؓ کو نہ بتائے!
سفر کے دوران حضرت صفیہؓ کا اونٹ بیمار پڑ گیا تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ تمہارے پاس دو اونٹ ہیں، ایک صفیہؓ کو دے دو۔ انہوں نے پلٹ کر فرمایا،بھلا میں یہودی کی بچی کو اونٹ دیتی ہوں۔ اللہ کے رسولﷺ نے اس بات کو بہت محسوس کیا اور آپ حضرت عائشہؓ سے ناراض ہو گئے اور تأدیب کے لئے ان سے کلام کرنا چھوڑ دیا۔ یہ بات حضرت عائشہؓ کو بہت گراں گزری۔ انہوں نے سب سے پہلے تو حضرت صفیہؓ سے معافی مانگ کر انہیں راضی کیا،پھر انہیں کہا کہ اگر وہ نبی پاک ﷺ کے ساتھ ان کا راضی نامہ کرا دیں تو وہ اپنی اگلی باری حضرت صفیہؓ کو دے دیں گی۔ حضرت صفیہؓ نے حضور ﷺ سے بات چلائی کہ عائشہؓ نے مجھ سے معافی مانگ لی ہے اور آپ بھی اس سے راضی ہو جائیں ۔ آپ نے پوچھا بھئی اس سفارش کی کوئی شرط طے ہوئی ہے؟ حضرت صفیہؓ نے فرمایا کہ جی انہوں نے اگلی باری مجھے دے دی۔ آپ مسکرا دیئے اور یوں صلح ہو گئی۔ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ صفیہؓ میں کوئی عیب نہ بھی ہو تو بھی کیا یہ کافی نہیں ہے، اور ساتھ ہی ہاتھ سے ان کے چھوٹے قد کا اشارہ کیا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا '' عائشہؓ تو نے وہ گناہ کر دیا ہے کہ اگر اسے سمندر میں ڈالا جائے تو سارے سمندر کو کڑوا کر دے۔اس کے علاوہ آپس میں ہلکا پھلکا مزاح بھی چلتا رھتا تھا۔جس زوجہ کے یہاں حضور ﷺ کی باری ہوتی وہیں تمام زوجات اکٹھی ہو جاتیں اور گپ شپ چلتی رھتی پھر وہ اپنے اپنے حجروں کو سدھار جاتیں۔نبی پاک عصرﷺ کی نماز پڑھ کر تمام زوجات کے یہاں سے ہوتے ہوئے اور تھوڑی دیر حال چال پوچھتے ہوئے تشریف لاتے اور آخر میں جس حجرے میں باری ہوتی قیام فرماتے۔ ایک دفعہ حضرت سودہؓ بنت زمعہ حضرت عائشہؓ کے یہاں تشریف لائیں تو انہوں نے میدے کا شیرہ بنایا ھوا تھا۔ حضرت عائشہؓ نے حضرت سودہؓ کو وہ شِیرا یا ملیدہ پیش کیا، حضرت سودہؓ نے کہا کہ ان کا جی نہیں چاہ رہا۔ اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا کہ یا تو آپ کھائیں گی یا پھر آپ کا حصہ آپ کے منہ پر مل دیا جائے گا۔ اس پر بھی حضرت سودہؓ نے کھانے سے انکار کیا تو حضرت عائشہؓ نے ان کو قابو کر کے وہ ملیدہ ان کے منہ پر چپڑ دیا۔جب کہ اس دوران آنحضرت ﷺ مسکراتے رہے۔ اس کے بعد آپﷺ نے حضرت عائشہؓ کو ایک ہاتھ سے دبا لیا اور حضرت سودہ سے کہا کہ آپ بدلہ نہیں لیں گی جس پر حضرت سودہ نے بھی پلٹ کر وہ ملیدہ حضرت عائشہؓ کے منہ پہ مل دیا،، اور حضور ﷺ اس دوران مسکراتے رھے۔
ایک دفعہ حضرت زینبؓ حجرہ عائشہؓ میں تشریف لائیں اور ان سے تو تکار کی ، موضوع وہی تھا کہ آپ نے حضورﷺ کو قابو کیا ہوا ہے۔ جب بات کافی لمبی ہو گئی تو آپﷺ نے حضرت عائشہؓ کی طرف دیکھا، گویا یہ جواب دینے کا اذن تھا،، اب تو حضرت عائشہ فرماتی ہیں،میں نے کچھ یوں اسٹارٹ لیا کہ زینبؓ کو لاجواب اور خاموش کر کے رکھ دیا۔ اس پر حضور ﷺ نے فرمایا '' یہ ابوبکرؓ کی بیٹی ہے ''
واقعات اور بھی ھیں مگر اصحاب دانش کے لئے مذکورہ بالا واقعات ھی کافی ھیں یہ سمجھنے کے لئے کہ عائلی زندگی سب کی برابرہوتی ہے اور بیوی بیوی ہی ہوتی ہے۔ فرق مرد میں ہوتا ہے کہ وہ کس حکمت سے گھر چلاتا ہے۔
ایک دوسرے کی تعریف کیجئے! یہ سنتِ نبوی ہے!حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول جوتا گانٹھ رہے تھے اور میں چرخہ کات رہی تھی اس دوران میری نظر جو رسول اللہ ﷺ کی طرف اٹھی تو کیا دیکھتی ہوں کہ پسینے کے قطرے چہرہ انور پہ جگمگا رہے ہیں،ہر قطرے میں ایک نور کا تارا سا بنتا جو پھیلتا چلا جاتا۔میں اس منظر پہ مبہوت ہو کر رہ گئی، اور بس ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم والی کیفیت میں چلی گئی کہ اچانک نبی پاکﷺ کی نظر مجھ پر پڑی اور میری کیفیت دیکھ کر آپ بھی چونک گئے،، پوچھا عائشہؓ یوں کیا گھورے چلی جا رہی ہو؟میں نے عرض کیا میرے ماں باپ قربان آپ کا چہرہ تاروں کا مسکن بنا ہوا ہے اک نور آ رہا ہے، اک جا رہا ہے،لگتا ہے بجلیاں کوند رہی ہیں،بخدا اگر ابو کبیر ہذلی آج آپ کو دیکھ لیتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس کے اشعار کا صحیح مصداق تو آپ ﷺ ہیں،، آپ ﷺ نے فرمایا ہذلی کے وہ اشعار کون سے ہیں؟ حضرت عائشہؓ نے وہ اشعار پڑھ دیئے، جن کا ترجمہ ھے کہ!میں نے اس کے رخِ تاباں پہ نظر ڈالی تو اس کی شان درخشندگی ایسی تھی کہ گویا بدلی کا کوئی ٹکڑا ہے کہ جس میں بجلیاں کوند رہی ہیں!!یہ سننا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا سامان ایک طرف رکھ دیا اور صدیقہؓ کی پیشانی کو چوم کر فرمایا '' عائشہ،، جو سرور مجھے تیرے کلام نے پہنچایا ہے،، اس قدر سرور تجھے میرے نظارے سے حاصل نہیں ہوا ہو گا۔
یہ وہ ہستی ﷺ ہے جس کو اللہ پاک قرآن میں فرماتا ہے '' اے نبی تم ہماری نگاہوں میں بستے ہو '' فأنک باعیننا '' اور اللہ پاک فرماتا ھے کہ جب آپ قیام میں ہوں یا سجدہ ریز اصحاب کے درمیان سے گزر کر آ جا رہے ہوں،ہم بس آپﷺ کو ہی دیکھتے ہیں '' الذی یراک حین تقوم، وتقلبک فی الساجدین،، جس نبی کی پوری عمر کی قسمیں کھاتا ہے، عیب لوگ لگائیں تو صفتیں اللہ بیان کرتا ہے،، اگر وہ نبی ﷺ اپنی بیوی کی تعریف کا اتنا اثر لے رہے ہیں تو ھما شما تو ویسے ھی قربان ھو جائیں گے!
بیوی کی تعریف کی جائے تو وہ مصنوعی طور پہ بے شک ظاھر کرے کہ اسے پرواہ نہیں، یا کہے کہ بس کریں! ڈائیلاگ نہ ماریں، یا بس کریں جب عمر تھی تب تو تعریف کی نہیں،اور اب جب کچھ نہیں بچا تو لگے ہیں تعریف کرنے،،مگر یقین جانیں اندرہی اندر وہ جوان ہو جائے گی!
آپ جب پانی پیتے تو حضرت عائشہؓ کو پہلے پینے کو دیتے، اور پھر پانی باقی ہوتا کہ ان سے پانی چھین لیتے اور حضرت عائشہ کو دکھا کر ٹھیک وہاں منہ رکھ کر پانی پیتے جہاں حضرت عائشہ نے منہ لگا کر پانی پیا ہوتا!
جب نبی پاک ﷺ کے جھوٹے پانی کے لئے صحابہؓ میں چھینا چھپٹی ہوتی تو حجرے کے اندر سے کسی زوجہ کی پکار آتی کہ امی ماں کا حصہ مت بھولنا اور صحابہ وہ متبرک پانی اندر بھیج دیتے۔ یہ پیار اور محبت آج کے زمانے میں ایک شاید ایک افسانہ ہی بن کر رہ گیا ہے۔