درخت کا ایک حصہ تنا ہوتا ہے اور دوسرا حصہ اس کی جڑیں۔ کہا جاتا ہے کہ درخت کا جتنا حصہ اوپر ہوتا ہے تقریباً اتنا ہی حصہ زمین کے نیچے جڑ کی صورت میں پھیلا ہوا ہوتا ہے۔ درخت اپنے وجود کے نصف حصے کو سرسبز و شاداب حقیقت کے طور پر اس وقت کھڑا کرپاتا ہے جب کہ وہ اپنے وجود کے بقیہ نصف حصے کو زمین کے نیچے دفن کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ درخت کا یہ نمونہ انسانی زندگی کے لیے خدا کا سبق ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی تعمیر اور استحکام کے لیے لوگوں کو کیا کرنا چاہیے۔جڑ نیچے کی طرف، پھل اوپر کی طرف۔ یہ خدائی اصول ہے۔ گلاب کا پھول رنگ اور خوشبو کا ایک معیاری مجموعہ ہے جو ایک تنے کے اوپر ظاہر ہوتا ہے۔ مگر اس کا معیار اس طرح حاصل ہوتا ہے کہ پہلے ایک جڑ نیچے مٹی کے اندر گئی۔ وہ لوگ جو زمین میں کھیتی کرتے ہیں یا باغ لگاتے ہیں وہ اس اصول کو جانتے ہیں۔ مگر ہم کو پھل حاصل کرنے سے اتنی زیادہ دلچسپی ہے کہ ہم جڑ جمانے کی بات آسانی سے بھول جاتے ہیں۔ ہم حقیقتاً ترقی اور خوش حالی حاصل نہیں کرسکتے جب تک ہم مشترک زندگی میں اپنی جڑیں داخل نہ کریں۔ مکمل خوش حالی مشترک زندگی میں جڑیں قائم کیے بغیر ممکن نہیں۔درخت زمین کے اوپر کھڑا ہوتا ہے۔ مگر وہ زمین کے اندر اپنی جڑیں جماتا ہے۔ وہ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتا ہے نہ کہ اوپر سے نیچے کی طرف۔ درخت گویا قدرت کا معلم ہے جو انسان کو یہ سبق دے رہا ہے: ’’اس دنیا میں داخلی استحکام کے بغیر خارجی ترقی ممکن نہیں۔‘‘